PIA, Qaumi Waqar Se Qaumi Nuqsan Tak
پی آئی اے، قومی وقار سے قومی نقصان تک

ایک قدیم اور مضبوط کارخانہ تھا جسے محنت، اصول اور دیانت سے بنایا گیا تھا۔ وارث آئے تو مشینیں بیچیں، مزدور بدل دیے اور حساب کتاب کو سیاست کا آلہ بنا دیا۔ کارخانہ چلتا رہا مگر کھوکھلا ہوتا گیا۔ آخرکار اعلان ہوا یہ ادارہ ریاست کے لیے بوجھ ہے، اسے بیچ دیا جائے۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ بوجھ کس نے بنایا، سب نے صرف قیمت پوچھی۔
پاکستان نے آج صرف ایک ایئرلائن نہیں بیچی، اس نے اپنی ایک تاریخ، ایک شناخت اور اپنی اجتماعی نااہلی کا ثبوت بیچ دیا ہے۔ پی آئی اے کی فروخت کوئی معاشی فیصلہ نہیں، یہ ایک اعترافِ جرم ہے، یہ مان لینے کا اعلان کہ ریاست ایک عظیم ادارے کو چلانے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔
پی آئی اے کی بنیاد اس دن پڑی جب پاکستان ابھی نقشے پر بھی پورا واضح نہیں تھا۔ 1946ء میں برصغیر کے ممتاز صنعتکار مرزا احمد اصفہانی نے اورینٹ ایئرویز کے نام سے ایک فضائی کمپنی قائم کی۔ اصفہانی خاندان اس دور میں تجارت اور صنعت میں ایک مضبوط شناخت رکھتا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد جب لاکھوں لوگ ہجرت کر رہے تھے، ریاستی ڈھانچہ موجود نہیں تھا، تب یہی اورینٹ ایئرویز پاکستان کے لیے فضائی ریڑھ کی ہڈی بنی۔ کراچی سے ڈھاکہ تک رابطہ اسی کمپنی نے برقرار رکھا، بغیر شور، بغیر دعوے۔
1955ء میں وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے اس ادارے کو قومی تحویل میں لے کر پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز بنا دیا، یوں یہ نیشنل فلیگ کیرئیر بن گئی تاہم اس کے پہلے چئیرمین مرزا احمد اصفہانی ہی رہے۔ پی آئی اے محض ایک سرکاری ادارہ نہیں رہی، یہ پاکستان کی سفارتی زبان بن گئی۔ اس کے جہاز جہاں اترتے تھے، وہاں پاکستان کی پہچان اترتی تھی۔
یہ وہ دور تھا جب ادارے شخصیت کے مرہونِ منت نہیں بلکہ اصولوں کے تابع ہوتے تھے۔ نظم و ضبط، پیشہ ورانہ مہارت اور میرٹ، یہ تین ستون تھے جن پر پی آئی اے کھڑی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پی آئی اے ایشیاء کی بہترین ایئرلائن بن گئی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب پی آئی اے خود ایئرلائن نہیں بن رہی تھی، بلکہ دوسروں کو بنا رہی تھی۔ متحدہ عرب امارات کی ایمریٹس ایئرلائن کے ابتدائی پائلٹس، انجینئرز اور ٹرینرز پی آئی اے نے فراہم کیے۔ سنگاپور ایئرلائن، فلپائن ایئرلائن، مالٹا ایئر اور کورین ایئر، ان سب کے ابتدائی فنی ڈھانچے میں پی آئی اے کی چھاپ موجود ہے۔ Emirates کے کوڈ میں آج بھی (ای کے) کا لفظ ہے، ای کا مطلب ایمریٹس اور کے کراچی کی نشاندہی کرتا ہے، کیونکہ اس ایئرلائن کی نرسری کراچی ہی تھی۔ مالٹا میں آج بھی بچوں کے سلیبس میں پی آئی اے کا پورا باب شامل ہے۔
پی آئی اے وہ پہلی ایئرلائن تھی جس کے جہاز نے چین کی سرزمین کو چھوا۔ پاکستان اور چین کے تعلقات میں پی آئی اے ایک خاموش مگر مضبوط سفیر تھی۔ چین کے بانی ماو زے تنگ پی آئی اے کا خصوصی طیارہ استعمال کرتے رہے، یہ طیارہ پاکستان نے بطور تحفہ فراہم کیا تھا اور آج بی چین کے میوزیم میں پاکستان کے شکریے کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ وہ عزت تھی۔
جب پی آئی اے کا پہلا بوئنگ جہاز 1970ء کی دہائی میں استنبول میں لینڈ ہوا تھا، تو اس وقت استنبول کا ائیرپورٹ چھوٹا تھا لٰہزا پی آئی اے کے جہاز کی لینڈنگ کے لیے ترکش حکومت نے نئی ائیر سٹرپ بنوائی تھی اور پوری کابینہ نے ائیر پورٹ آ کر جہاز کا استقبال کیا تھا۔ معیار پی آئی اے طے کرتی تھی، دنیا اس پر عمل کرتی تھی۔ پی آئی اے کا یونیفارم، کیبن کریو، سروس، یہ سب ایک معیار بن چکے تھے۔
پھر وہ دور آیا جسے ہم زوال کہتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ ریاستی قبضے کا دور تھا۔ نوے کی دہائی سے پی آئی اے سیاسی مداخلت کی تجربہ گاہ بن گئی۔ نااہل بھرتیاں، سیاسی دباؤ، غیر ضروری روٹس، جہاز کم اور ملازمین بے تحاشہ۔ ادارہ بزنس ماڈل سے نکل کر سیاسی روزگار اسکیم بن گیا۔
حکومتیں جانتی تھیں کہ پی آئی اے خسارے میں ہے، مگر پھر بھی اسے بیچنے سے کتراتی رہیں۔ وجہ حب الوطنی نہیں تھی، وجہ مفاد تھا۔ پی آئی اے ہر حکومت کے لیے سونے کی چڑیا تھی، بھرتیوں میں ووٹ، ٹھیکوں میں کمیشن اور اثر و رسوخ کے بے شمار دروازے۔ نقصان روز قوم کو ہوتا رہا، فائدہ روز چند لوگوں کو۔
حقیقت یہ ہے کہ پی آئی اے کو نوے کی دہائی سے نجکاری کے لیے رکھا گیا، مگر کوئی حکومت اس "سہولت" سے ہاتھ دھونے کو تیار نہ تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج پی آئی اے کا روزانہ کا خسارہ پندرہ سے چوبیس کروڑ روپے تک جا پہنچا، جو براہِ راست قومی خزانے سے ادا ہو رہا تھا۔ یہ وہ پیسہ تھا جو تعلیم، صحت اور روزگار پر لگ سکتا تھا۔
پی آئی اے کی فروخت کو جذباتی مسئلہ بنانا آسان ہے، مگر سوال جذبات کا نہیں، حساب کا ہے۔ دنیا یہ سبق سیکھ چکی ہے کہ حکومتیں کاروبار نہیں کرتیں۔ برطانیہ نے برٹش ایئرویز، بھارت نے ایئر انڈیا، جرمنی نے لفتھانزا کے حصص، جاپان نے جے اے ایل نجی شعبے کو دے کر بہتر نتائج حاصل کیے۔
کہا جاتا ہے کہ اس فیصلے کے پیچھے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا کلیدی کردار ہے، اس معنی میں کہ ریاستی سطح پر یہ طے کر لیا گیا کہ مزید بوجھ اٹھانا خودکشی کے مترادف ہے۔ اگر یہ درست ہے تو یہ فیصلہ تلخ ضرور ہے، مگر ناگزیر ہے۔
پی آئی اے کی فروخت کامیابی نہیں، یہ ناکامی کا اعتراف ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ پی آئی اے کیوں بکی، اصل سوال یہ ہے کہ ایک شاندار ادارہ اس حال تک کیوں پہنچایا گیا اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟
قومیں ادارے بناتی ہیں، ہم نے ادارے کھائے ہیں اور آج، پی آئی اے کی فروخت اس بھوک کی آخری رسید ہے۔

