Monday, 22 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Arif Anis Malik
  4. Diamond Boy Se Miliye

Diamond Boy Se Miliye

ڈائمنڈ بوائے سے ملیے

آئیے آپ کو محمود چار سے ملاؤں جو 2024 کا باکسنگ کا ورلڈ چیمپئن ہے، بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ پہلا عرب ورلڈ چیمپئن ہے اور پہلا جرمن شہری ہے جو گزشتہ سو برس میں ورلڈ باکسنگ چیمپین بنا ہو۔ ایک پوری شام اس کے ساتھ رنگ کے باہر گزری اور کھیل، کھلاڑی اور جیتنے کی نفسیات پر بات ہوتی رہی۔۔ محمود اپنے آپ کو "ڈائمنڈ بوائے" کہتا ہے اور وجہ بہت سیدھی ہے۔ "ڈائمنڈ سب سے زیادہ تپش، سب سے زیادہ دیر تک برداشت کرتا ہے اور یہی چیز چیمپئن بناتی ہے"۔

محمود چار کی کہانی صرف ایک باکسر کی نہیں، بلکہ ایک ایسے لڑکے کی داستان ہے جس نے اپنی زندگی کا آغاز بارود کے دھوئیں اور ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ میں کیا۔ بیروت کی وہ خونی خانہ جنگی، جہاں ایک عام بچے کا کھلونا شاید کوئی ٹوٹی ہوئی گڑیا ہوتی ہے، وہاں محمود کی آنکھوں نے اپنے باپ کو کھویا اور گلیوں میں بکھری ہوئی لاشیں دیکھیں۔ 1989 میں جب وہ اپنی ماں اور بہن بھائیوں کے ساتھ جان بچا کر جرمنی کی پناہ گاہوں میں پہنچا، تو اس کے پاس کوئی شناختی دستاویز نہیں تھی، صرف ایک چیز تھی، "غصہ"۔ ایک ایسا لاوا جو ایک یتیم اور مہاجر بچے کے سینے میں ابل رہا تھا۔

نفسیات ہمیں بتاتی ہے کہ بچپن کا ٹروما یا تو انسان کو مجرم بنا دیتا ہے یا پھر "لیجنڈ"۔ برلن اور ایسن کے سخت ترین محلوں (Ghetto) میں پلتے ہوئے محمود کے پاس دو راستے تھے: یا تو وہ منشیات اور جرائم کی دنیا کا ایندھن بن جاتا، یا پھر اس آگ کو کسی اور سمت موڑ دیتا۔ اس نے دوسرا راستہ چنا اور اپنی جنگ کو سڑکوں سے اٹھا کر رنگ (Ring) میں لے آیا۔

باکسنگ کے دستانے پہننے سے بہت پہلے، محمود نے اپنی دھاک "تھائی باکسنگ" اور کک باکسنگ کی دنیا میں بٹھا دی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب اس کا نام "ڈائمنڈ بوائے" نہیں تھا، بلکہ وہ ایک بھوکا شکاری تھا۔ صرف 19 سال کی عمر میں، جب عام نوجوان اپنے کیریئر کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں، محمود جرمنی کا سب سے کم عمر "ہیوی ویٹ مائے تھائی چیمپیئن" بن چکا تھا۔ اس نے کک باکسنگ میں یورپین ٹائٹل اپنے نام کیا اور اپنی ٹانگوں اور مکوں میں چھپی اس طاقت کا لوہا منوایا جو اسے بیروت کی گلیوں سے ورثے میں ملی تھی۔ یہ کامیابیاں محض ٹرافیاں نہیں تھیں، بلکہ یہ اس بچے کا دنیا کو جواب تھا جسے کبھی "مہاجر" کہہ کر دھتکارا گیا تھا۔ کک باکسنگ نے اسے ڈسپلن سکھایا، اسے بتایا کہ درد کو کیسے برداشت کرنا ہے اور گر کر کیسے اٹھنا ہے، لیکن اس کی منزل ابھی اور آگے تھی۔ اس نے کک باکسنگ کی بادشاہت چھوڑ کر باکسنگ کی دنیا میں قدم رکھا، جہاں بڑے بڑے دیو ہیکل حریف اس کے منتظر تھے۔

2015 کی ایک سرد رات، جرمنی کے شہر ایسن کا ایک کباب شاپ اور پیٹ میں پیوست ہونے والی چار گولیاں، یہ وہ لمحہ تھا جہاں منطقی طور پر محمود چار کی کہانی ختم ہو جانی چاہیے تھی۔ ڈاکٹروں نے اسے مردہ قرار دینے میں بس کچھ ہی لمحوں کا فاصلہ چھوڑا تھا، لیکن اس شخص نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ کیا جو صرف ایک پاگل یا ایک "فاتح" ہی کر سکتا ہے۔

جب محمود ہسپتال کے بستر پر زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا، تو اس کے جسم میں کئی سوراخ تھے اور خون پانی کی طرح بہہ چکا تھا۔ ایک عام انسان اس موقع پر رحم کی بھیک مانگتا ہے یا قسمت کو کوستا ہے، لیکن محمود نے آکسیجن ماسک ہٹا کر ایک ویڈیو ریکارڈ کی اور دنیا کو پیغام دیا: "میں واپس آؤں گا۔ " یہ محض ایک جذباتی بیان نہیں تھا، یہ اس نفسیات کا اظہار تھا جسے ہم "اینٹی فریجائل" (Antifragile) کہتے ہیں۔ یعنی وہ چیز جو دباؤ اور چوٹ پڑنے پر ٹوٹتی نہیں، بلکہ اور زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے۔ محمود شامی پناہ گزین تھا، اس نے بچپن میں بیروت کی گلیوں اور جرمنی کے مہاجر کیمپوں میں بھوک اور خوف دیکھا تھا۔ اس کے لیے گولیاں کھانا نیا نہیں تھا، لیکن اس بار جنگ جسمانی تھی۔

ابھی وہ گولیوں کے زخموں سے سنبھلا ہی تھا کہ زندگی نے اسے دوسرا اور شاید اس سے بھی زیادہ کاری وار کیا۔ اس کے دونوں کولہے (Hips) مکمل طور پر ناکارہ ہو گئے۔ ایک باکسر کے لیے، جس کی ساری طاقت اس کے پیروں اور توازن میں ہوتی ہے، یہ خبر موت کے پروانے سے کم نہ تھی۔ ڈاکٹروں نے صاف کہہ دیا کہ اب وہ چل سکے تو غنیمت ہے، باکسنگ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسے دونوں کولہوں کی تبدیلی (Double Hip Replacement) کے انتہائی تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑا۔ ایک ایسا جسم جس میں پیٹ پر گولیوں کے نشان ہوں اور کولہوں میں ٹائٹینیم کی دھات لگی ہو، کون کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص دوبارہ دنیا کے سب سے خطرناک ہیوی ویٹ باکسرز کے سامنے کھڑا ہوگا؟

لیکن محمود چار نے اس درد کو اپنی کمزوری نہیں بلکہ اپنا "ایندھن" بنا لیا۔ نفسیات میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے "پوسٹ ٹرامیٹک گروتھ" (Post-Traumatic Growth)، جس میں انسان صدمے کے بعد اپنی پرانی حالت پر واپس نہیں آتا، بلکہ اس سے کہیں آگے نکل جاتا ہے۔ محمود نے وہی کیا۔ اس نے ٹائٹینیم کے کولہوں کے ساتھ ٹریننگ شروع کی۔ ہر قدم پر اٹھنے والی ٹیس اسے یاد دلاتی تھی کہ وہ زندہ ہے اور اگر وہ زندہ ہے تو اسے لڑنا ہے۔ اس نے اپنی معذوری کو اپنی "سپر پاور" بنا لیا۔ اس کا کہنا تھا کہ "میرے پاس اب لوہے کے اعضاء ہیں، میں مین آف اسٹیل ہوں۔ "

اور پھر وہ تاریخی رات آئی جب یہ "زندہ لاش" رنگ میں اتری۔ الیگزینڈر اوستینوف جیسے دیو ہیکل حریف کے سامنے کھڑے ہو کر جب محمود نے ڈبلیو بی اے (WBA) ہیوی ویٹ ٹائٹل جیتا، تو وہ بیلٹ صرف اس کی کمر پر نہیں سجی تھی، بلکہ وہ اس کی "روح کے زخموں" پر رکھا گیا ایک تمغہ تھا۔ وہ پہلا عرب نژاد ہیوی ویٹ چیمپیئن بنا۔ یہ فتح مکوں کی نہیں تھی، یہ فتح اس "ضد" کی تھی جس نے میڈیکل سائنس کے تمام اصولوں کو رد کر دیا تھا۔

محمود چار کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ انسان کو حالات نہیں ہراتے، انسان کو اس کا "ردعمل" ہراتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہماری زندگی میں آنے والی مشکلات، بیماریاں یا ناکامیاں "فل اسٹاپ" ہیں، لیکن محمود کے نزدیک یہ صرف "کوما" تھیں۔ اس نے ثابت کیا کہ ہیرا کان میں نہیں بنتا، ہیرا "دباؤ" میں بنتا ہے۔ اگر آج آپ کو لگتا ہے کہ زندگی نے آپ کو چاروں خانے چت کر دیا ہے، تو محمود چار کے پیٹ کے زخموں اور مصنوعی کولہوں کو یاد کریں۔ اگر وہ راکھ کے ڈھیر سے اٹھ کر دنیا کا فاتح بن سکتا ہے، تو آپ کا درد بھی آپ کی قبر نہیں، بلکہ آپ کی پرواز کا رن وے بن سکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا آپ اس درد کو ضائع کریں گے، یا اسے استعمال کریں گے؟

پس تحریر: محمود کی زندگی پر ہالی ووڈ اور نیٹ فلیکس پر دو فلمیں تکمیل کے مراحل میں ہیں اور اگلے سال تک ریلیز ہوں گی۔

Check Also

Barq Girti Hai To Bechare Ghareebon Par

By Muhammad Waris Dinari