100wa Bandar
100 واں بندر

انسانی تاریخ اور معاشرتی رویوں کا اگر گہرا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بڑی تبدیلیاں ہمیشہ کسی بڑے ہجوم سے نہیں بلکہ ایک خاموش انفرادی عمل سے شروع ہوتی ہیں۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے "سویں بندر کا اثر" (100th Monkey Effect) ایک ایسی تمثیل ہے جو ہمیں انفرادی عمل کی پوشیدہ طاقت سے روشناس کرواتی ہے۔
اس نظریے کی بنیاد 1950 کی دہائی میں جاپان کے جزیرے کوشیما میں بندروں پر کیے گئے ایک طویل مشاہداتی مطالعے پر رکھی گئی، جہاں ماہرین نے دیکھا کہ "ایمو" نامی ایک نوجوان مادہ بندر نے آلوؤں کو کھانے سے پہلے سمندر کے پانی میں دھونا شروع کیا تاکہ وہ ریت سے پاک اور ذائقے میں بہتر ہو جائیں۔ یہ ایک چھوٹی سی انفرادی دریافت تھی، جو آہستہ آہستہ اس کے قریبی گروہ میں پھیل گئی۔
دلچسپ موڑ تب آیا جب اس نئے ہنر کو سیکھنے والے بندروں کی تعداد ایک مخصوص حد، جسے "سویں بندر" کا نام دیا گیا، تک جا پہنچی۔ مشاہدہ کیا گیا کہ جیسے ہی جزیرے پر سیکھنے والوں کا یہ تناسب ایک خاص حد یا "تھرش ہولڈ" (آغازِ اثر کی دہلیز) کو چھو گیا، تو اس جزیرے سے میلوں دور دوسرے جزیروں پر مقیم بندروں نے بھی، جن کا کوشیما کے بندروں سے کوئی جسمانی رابطہ نہ تھا، خود بخود آلو دھونا شروع کر دیے۔ یہ واقعہ اس نظریے کی بنیاد بنا کہ جب کسی گروہ میں ایک خاص سطح تک شعور بیدار ہو جاتا ہے، تو وہ معلومات کسی مادی ذریعے کے بغیر ہی پوری نوع کے لاشعور میں ایک لہر کی طرح منتقل ہو جاتی ہے۔
جدید سائنس کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ مظہر کوانٹم فزکس کے مشہورِ زمانہ نظریے "کوانٹم اینٹینگل منٹ" (Quantum Entanglement) سے حیرت انگیز مماثلت رکھتا ہے۔ یہ نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ کائنات کے ذرات ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ایک ذرے کی حالت میں ہونے والی تبدیلی دوسرے ذرے پر فوری اثر انداز ہوتی ہے، خواہ ان کے درمیان کائنات کے دو کناروں جتنا فاصلہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر ہم اس مادی اصول کو انسانی شعور پر منطبق کریں، تو یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ کس طرح ایک جگہ پیدا ہونے والی ذہنی بیداری کسی نادیدہ لہر کے ذریعے پوری انسانیت تک پہنچ سکتی ہے۔
اس کی ایک عملی مثال ہم عوامی مقامات پر سگریٹ نوشی کے خلاف ابھرنے والے عالمی رویے میں دیکھ سکتے ہیں۔ چند دہائیاں قبل تک دفاتر اور پبلک ٹرانسپورٹ میں سگریٹ نوشی ایک عام اور قبول شدہ فعل تھا، لیکن جب چند فکر مند افراد کی انفرادی کوششیں ایک خاص "تھرش ہولڈ" (ذہنی دہلیز) تک پہنچیں، تو پورے معاشرے کا عمومی مزاج بدل گیا۔ آج دنیا کے الگ الگ حصوں میں وہ لوگ بھی جو ایک دوسرے سے کبھی نہیں ملے، عوامی جگہ پر سگریٹ سلگاتے ہوئے ایک جیسی فطری جھجھک اور اخلاقی دباؤ محسوس کرتے ہیں، گویا وہ سب ایک ہی نادیدہ شعوری نیٹ ورک سے جڑے ہوئے ہوں۔
اسی طرح کی ایک واضح تبدیلی ہم پلاسٹک بیگز کے استعمال کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں۔ برسوں تک پلاسٹک کا استعمال انسانی زندگی کی سہولت کا لازمی جزو سمجھا جاتا رہا اور اس کے بھیانک ماحولیاتی اثرات سے چشم پوشی کی گئی۔ پھر چند حساس افراد نے انفرادی سطح پر کپڑے کے تھیلوں کا استعمال شروع کیا اور پلاسٹک کو رد کرنے کی ایک خاموش مہم شروع ہوئی۔ آغاز میں یہ کوششیں بے اثر محسوس ہوئیں، لیکن جیسے ہی اس فکر کو اپنانے والوں کی تعداد اس "سویں بندر" والی علامتی حد تک پہنچی، تو معاشرتی شعور کی لہر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آج وہ لوگ بھی جنہوں نے کبھی ماحولیاتی رپورٹیں نہیں پڑھیں، وہ بھی شاپنگ کے دوران پلاسٹک بیگ لینے پر ایک شعوری ملامت محسوس کرتے ہیں اور متبادل ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شعور کی یہ لہر "اینٹینگل منٹ" کے اصول پر عمل کرتے ہوئے جغرافیائی حدود کو پار کرکے اجتماعی رویہ بن چکی ہے۔
فکری ارتقاء کا یہ سفر ہمیں اسلامی نظامِ قانون کے ان عظیم اصولوں کی طرف لے جاتا ہے جنہیں اجتہاد، اجماع، قیاس اور عرف کہا جاتا ہے۔ اسلامی فکر میں "عرف" (معاشرتی رواج) کو ایک مستقل ماخذِ قانون کی حیثیت دینا دراصل انسانی شعور کے اسی ارتقائی عمل کو تسلیم کرنا ہے۔ جب کوئی نیا رویہ یا عمل معاشرے میں ایک مخصوص حد (Critical Mass) تک مقبول ہو جاتا ہے اور انسانی ضرورت بن جاتا ہے، تو مذہب اسے چند بنیادی شرائط کے ساتھ قبول کر لیتا ہے۔ یہ امام ابوحنیفہؒ کے مسلک کا حسن ہے کہ انہوں نے "عرف" اور معاشرتی تعامل کو اتنی اہمیت دی کہ اسے شرعی استدلال میں ایک کلیدی درجہ عطا کیا۔ یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ جیسے جیسے انسانیت کا اجتماعی شعور نئے حقائق دریافت کرتا ہے، مذہب ان تبدیلیوں کو اپنے اندر سمو کر انسانوں کے لیے زندگی کو آسان اور خوبصورت بناتا ہے۔
مستقبل کی اس علمی اور معاشرتی تبدیلی کے تناظر میں، وہی مذہب اور نظامِ زندگی کامیاب رہے گا جو وقت کے تقاضوں کو سمجھ کر اپنے پیروکاروں کو جمود سے نکالے۔ اجتہاد دراصل اس "پہلے بندر" کی وہ کوشش ہے جو نئے مسائل کا حل تلاش کرتی ہے اور اجماع وہ "سواں بندر" ہے جہاں معاشرے کی اکثریت اس حل پر متفق ہو کر اسے ایک مستقل حقیقت بنا دیتی ہے۔ کائنات کے نادیدہ سماجی اور روحانی جال میں ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ہماری کوئی بھی مثبت انفرادی کوشش رائیگاں نہیں جاتی۔ آپ کی انفرادی تبدیلی دراصل اس مجموعی توانائی کو ذخیرہ کر رہی ہے جو کسی بھی لمحے کائناتی اینٹینگل منٹ کے ذریعے پورے نظام کو بدل سکتی ہے۔ لہٰذا، معاشرے کی اصلاح کے لیے ہجوم کا انتظار کرنے کے بجائے خود وہ پہلا قطرہ بننا ضروری ہے جو بالآخر سمندر کی لہر بن کر دنیا کو انسانوں کے لیے ایک خوبصورت گہوارہ بنا دے۔

