Mazori, Bojh Nahi, Qudrat Ka Shahkar Hai
معذوری، بوجھ نہیں، قدرت کا شاہکار ہے

دنیا بھر میں ہر سال 3 دسمبر کو معذور افراد کا عالمی دن اس عہد کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ معاشرے کا کوئی فرد پیچھے نہ رہ جائے۔ یہ دن محض تقویمی علامت نہیں بلکہ انسانیت کی اجتماعی روح کو جھنجھوڑنے والا دن ہے۔ ایک یاد دہانی ہے کہ معاشرہ اسی وقت مکمل ہوتا ہے جب اس کے ہر رنگ، ہر شکل، ہر کیفیت اور ہر انسان کو برابر مانا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان چاہے وہ جسمانی یا ذہنی کمی رکھتا ہو، خدا کی تخلیق کا ایک منفرد شاہکار ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں "نارمل" ہونے کا ایک غلط پیمانہ صدیوں سے رائج ہے۔ ہم نے اس پیمانے کو انسانیت کی اصل قدر سمجھ لیا ہےحالانکہ فطرت کا نظام بتاتا ہے کہ کمال صرف خالق کا وصف ہے مخلوق ہمیشہ کسی نہ کسی پہلو سے ادھوری رہی ہے لیکن ہماری تنگ نظری نے اس ادھورے پن کو عیب بنا دیا ہے۔
یہ وہ لمحۂ فکریہ ہے جہاں ہمیں رک کر خود سے سوال کرنا ہوگا کہ آخر کس بنیاد پر ہم انسانوں کو پورا یا ادھورا ٹھہراتے ہیں؟ جب "بوجھ" کا لفظ معذوری کے ساتھ بولا جاتا ہے تو اصل بوجھ انسان نہیں ہماری سوچ بنتی ہے۔ وہ سوچ جو سہارا دینے کے بجائے فاصلہ پیدا کرے۔ جو ہاتھ پکڑنے کے بجائے انگلی اٹھائے۔ وہی معاشرہ حقیقی طور پر معذور ہوتا ہے جہاں دلوں میں نفرت، ذہنوں میں تعصب اور روّیوں میں بے حسی بستی ہو۔
اگر ہم ذرا سا جھک کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ معذور افراد اس دنیا میں توازن (Balance) کی علامت ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے وجود سے یاد دلاتے ہیں کہ انسانیت جسم کی مکمل ساخت میں نہیں بلکہ دل کی پوری بیداری میں ہے۔ ایک اسکول کے صحن میں بیٹھا وہ بچہ جس کی ٹانگیں حرکت نہیں کرتیں، دوسرے بچوں کو کھیلتا دیکھ کر صرف حسرت ہی نہیں کرتا بلکہ سوچتا بھی ہے کہ شاید ایک دن وہ بھی کچھ کر سکے۔ اس کا اصل دکھ اس کی بیماری نہیں بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کا دکھ ہماری وہ نگاہیں ہیں جو ترس اور تحقیر کے ملے جلے جذبات سے اسے گھیر لیتی ہیں۔
ہمدردی ایک خوبصورت جذبہ ہے لیکن جب ہمدردی میں تکبر شامل ہو جائے تو وہ زہر بن جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی عظیم ترین ہستیاں جسمانی کمزوریوں کے باوجود فکری اور روحانی بلندیوں پر فائز تھیں۔ اسٹیفن ہاکنگ جسمانی طور پر کرسی پر قید تھا لیکن اس کا ذہن کائنات کی وسعتوں میں سفر کرتا تھا۔ ہیلن کیلر نے نہ سننے اور نہ دیکھنے کے باوجود دنیا کو احساس، بصیرت اور قوتِ ارادی کے وہ اسباق دئیے جنہیں آج تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ جان ملٹن نے نابینا ہونے کے بعد بھی "Paradise Lost" جیسی لازوال تخلیق پیش کی۔
یہ لوگ انسانیت کو یہ درس دیتے ہیں کہ معذوری جسم کی ہو تو بھی ارادے، فکر اور روح کو قوی بنا دیتی ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے سینکڑوں روشن چراغ موجود ہیں جنہوں نے اپنی کمزوریوں کو ہمت کا تاج بنا لیا۔ حیدر علی نے پیرالمپکس میں پاکستان کا پرچم دنیا بھر میں بلند کیا۔ نابینا حفاظِ قرآن، وہیل چیئر پر بیٹھ کر روزی کمانے والے محنت کش اور پیروں سے تصویریں بنانے والے فنکار، یہ سب وہ چہرے ہیں جو ہماری قومی غیرت کو ہر روز جگاتے ہیں۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ حالیہ چند مہینوں میں حکومتِ پنجاب نے خصوصی افراد کے لیے نمایاں اقدامات کیے ہیں۔ موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے معذور افراد کو حکومتی ترجیحات میں اہم مقام دیا ہے۔ ان کی جانب سے مالی امداد میں اضافہ، وہیل چیئرز اور مصنوعی اعضاء کی مفت فراہمی، خصوصی بچوں کے لیے تعلیمی وظائف، خصوصی تعلیم کے اداروں کی بہتری، سرکاری ملازمتوں میں کوٹے پر عملدرآمد اور معذور افراد کے لیے روزگار و تربیت کے پروگرام قابلِ ستائش اقدامات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب بھر میں سرکاری عمارتوں میں ریمپس، آسان رسائی اور سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جا رہی ہے تاکہ خصوصی افراد آزادی اور وقار کے ساتھ روزمرہ زندگی گزار سکیں۔ یہ اقدامات محض سہارا نہیں دیتے بلکہ انہیں بااختیار بناتے ہیں۔ ان منصوبوں کا مقصد ان افراد پرترس کھانا نہیں بلکہ احترام دینا ہے۔ وہ احترام جس کے یہ افراد بطور شہری مکمل طور پر حقدار ہیں۔
لیکن یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا ان افراد کو زندگی گزارنے میں مدد دینا صرف حکومت کی ذمہ داری ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سول سوسائٹی کی بھی بہت ذمہ داری بنتی ہے۔ معاشرہ اس وقت بدلتا ہے جب انسان اپنی زبان، اپنا رویہ اور اپنی سوچ بدلتا ہے۔ ہمیں اپنے الفاظ تبدیل کرنا ہوں گے۔ "اندھا، لنگڑا، گونگا، بیچارہ" جیسے الفاظ صرف اذیت دیتے ہیں۔ ان کی جگہ "خصوصی، باہمت، قابلِ احترام" جیسے الفاظ اپنانا ہوں گے۔ ہمیں خیرات نہیں انہیں مواقع دینے کی ضرورت ہے۔
تعلیم میں، روزگار میں، راستوں میں، رسائی میں، فیصلہ سازی میں الغرض ہر جگہ انہیں برابر کا حصہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ سوچ کا زاویہ بدلیں، دل میں جگہ بنائیں، راستوں میں رکاوٹیں نہیں سہولت رکھیں اور یہ یقین رکھیں کہ یہ افراد بوجھ نہیں بلکہ رحمت ہیں۔ یہ وہ چراغ ہیں جو آندھیوں میں بھی نہیں بجھتے۔ یہ وہ پھول ہیں جو کانٹوں کے درمیان بھی اپنی خوشبو نہیں کھوتے۔
اور سچ پوچھیے تو معذور کون ہے؟ وہ جو چل نہیں سکتا؟ یا وہ معاشرہ جو انصاف کی وہیل چیئر پر بیٹھا ہوا ہے؟ وہ جس کی آنکھیں نہیں؟ یا وہ حکمران جسے عوام کی تکالیف نظر نہیں آتیں؟
آئیے! آج ہم عہد کریں کہ ہم ان کے ساتھ نہیں بلکہ ان کے لیے کھڑے ہوں گےکیونکہ قوموں کی عظمت ان کی عمارتوں یا طاقت سے نہیں بلکہ اس بات سے ناپی جاتی ہے کہ وہ اپنے سب سے کمزور فرد کو کتنی عزت دیتی ہیں۔ آخر میں شاعر کے الفاظ میں
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

