China Ki Raftar Aur Punjab Ki Had Bandiyan
چین کی رفتار اور پنجاب کی حد بندیاں

چین نے ایک بار پھر دنیا کو یہ دکھا دیا ہے کہ ریاستی منصوبہ بندی اگر وژن، تسلسل اور غیر جانبداری کے ساتھ کی جائے تو ترقی صرف بڑے شہروں کی زینت نہیں بنتی بلکہ پورے ملک کی قسمت بدل دیتی ہے۔ شی آن سے یان آن تک نئی ہائی اسپیڈ ریلوے لائن کے افتتاح کے ساتھ ہی چین کا تیز رفتار ریلوے نیٹ ورک پچاس ہزار کلومیٹر سے تجاوز کر گیا ہے، جو نہ صرف دنیا کے کسی ایک ملک سے زیادہ بلکہ باقی تمام ممالک کے مجموعے سے بھی آگے ہے۔ یہ محض ریلوے لائنیں نہیں بلکہ ایک سوچ ہے جس میں شہر، قصبے، اضلاع اور دور افتادہ علاقے سب برابر سمجھے جاتے ہیں۔ چین نے یہ فیصلہ بہت پہلے کر لیا تھا کہ ترقی کو چند پسندیدہ شہروں تک محدود رکھنے کے بجائے اسے پورے جغرافیے میں پھیلایا جائے گا، تاکہ ریاست مضبوط ہو، معیشت متوازن ہو اور عوام خود کو یکساں طور پر ریاست کا حصہ محسوس کریں۔
چین کی ہائی اسپیڈ ریل آج ان شہروں کے ستانوے فیصد تک پہنچ چکی ہے جن کی آبادی پانچ لاکھ سے زیادہ ہے۔ پانچ سو کلومیٹر کے دائرے میں ایک سے دو گھنٹے کا سفر، ہزار کلومیٹر چار گھنٹوں میں اور دو ہزار کلومیٹر تک کے سفر اسی دن مکمل ہو جانا اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کاروبار، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع چند مراکز میں قید نہیں رہے بلکہ ایک شہر کی ترقی دوسرے شہر تک بہنے لگی ہے۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ مسافروں کو ایک دن میں سفر کرانے کی صلاحیت رکھنے والا یہ نظام دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ ریاست نے انسان اور اس کے وقت کو مرکزی حیثیت دی ہے، نہ کہ محض عمارتوں اور نمائشی منصوبوں کو۔
اب اگر نگاہ اپنے گھر، یعنی پنجاب پاکستان کی طرف موڑیں تو دل پر ایک بوجھ سا آ جاتا ہے۔ یہاں بھی ترقی ہو رہی ہے، اس سے انکار ممکن نہیں۔ برقی بسیں چل رہی ہیں، سڑکیں بن رہی ہیں، ہسپتال اور تعلیمی ادارے قائم ہو رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کہاں؟ جواب تقریباً ہر بار ایک ہی نکلتا ہے: لاہور اور اس کے مضافاتی شہر۔ کبھی اورنج لائن، کبھی میٹرو بس، کبھی برقی بسوں کے نئے روٹس، کبھی جدید ہسپتال، کبھی یونیورسٹیاں۔ زیادہ تر ترقی لاہور کے گرد ہی گھومتی نظر آتی ہے۔ جیسے پنجاب کا دائرہ لاہور سے شروع ہو کر لاہور پر ہی ختم ہو جاتا ہو۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کی طرف میں اپنے کالمز میں بارہا توجہ دلا چکا ہوں کہ ترقی کو پورے پنجاب تک پھیلانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر ان اضلاع تک جو دریائے سندھ کے کنارے آباد ہیں اور دہائیوں سے نظر انداز چلے آ رہے ہیں۔
اٹک، تلہ گنگ، میانوالی، بھکر، راجن پور اور ایسے کئی اضلاع ہیں جو وسائل، افرادی قوت اور جغرافیائی اہمیت کے باوجود بنیادی سہولیات کے لیے ترس رہے ہیں۔ یہاں نہ جدید سفری نظام ہے، نہ معیاری ہسپتال، نہ اعلیٰ تعلیمی ادارے اور نہ ہی روزگار کے وہ مواقع جو لاہور میں معمول سمجھے جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان علاقوں کا نوجوان یا تو لاہور کا رخ کرتا ہے یا پھر مکمل مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر چین پانچ سالہ منصوبوں کے تحت ایک سو اٹھائیس نسبتاً کم ترقی یافتہ اضلاع تک ہائی اسپیڈ ریل پہنچا سکتا ہے تو پنجاب میں کم از کم صحت، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کا متوازن جال کیوں نہیں بچھایا جا سکتا؟ کیا دریائے سندھ کے کنارے بسنے والے شہری پنجاب کا حصہ نہیں؟
یہاں سوال جنابہ وزیراعلیٰ پنجاب سے بھی بنتا ہے۔ وہ عوامی خرچ پر کئی ترقی یافتہ ملکوں کے دورے فرما چکی ہیں، چین سمیت کئی ریاستوں میں اپنی آنکھوں سے یہ ماڈل دیکھ چکی ہیں کہ ترقی کس طرح غیر جانبداری سے بانٹی جاتی ہے۔ مگر واپس آکر نہ جانے کیوں ترقی اسی تنگ اور پرانے دائرے تک محدود ہو جاتی ہے اور منصوبے پھر لاہور کے اندر اور اردگرد ہی سمٹ جاتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ خود وزیراعلیٰ اور ان کا خاندان لاہور میں مقیم ہے اور انسان لاشعوری طور پر اپنے آس پاس کو زیادہ اہم سمجھنے لگتا ہے۔ مگر ریاستی عہدہ ذاتی سہولتوں سے بلند ہو کر سوچنے کا نام ہے۔ قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب حکمران اپنے پسندیدہ شہروں اور لوگوں سے نکل کر پورے صوبے اور پورے ملک کو ایک اکائی سمجھیں۔
چین کی مثال آج جنابہ وزیراعلیٰ کی خدمت میں پیش کی جا سکتی ہے کہ دیکھئے، قومیں ترقیاتی منصوبے کس طرح تعصب کے بغیر تقسیم کرتی ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتیں کہ کون سا علاقہ اقتدار کے قریب ہے اور کون سا دور، بلکہ یہ دیکھتی ہیں کہ کس علاقے کو کس سہولت کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں اگر یہی اصول اپنا لیا جائے تو نہ لاہور کی ترقی روکنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی جنوبی اور مغربی پنجاب کو محرومی میں رکھنے کا کوئی جواز بنتا ہے۔
امید یہی ہے کہ آئندہ اس عدم توازن کا ازالہ کیا جائے گا، ورنہ اگر یہ آہ و زاری اسی طرح نظر انداز ہوتی رہی تو پھر اللہ کے ہاں تو کوئی فریاد رائیگاں نہیں جاتی۔ وہ کوئی نہ کوئی متبادل بندوبست فرما دے گا، جو غیر جانبداری سے ترقی کے ثمرات سب میں بانٹ دے گا۔ ہمارا کام تو توجہ دلانا ہے، فیصلہ اور انجام بہرحال اللہ تعالٰی اور تاریخ نے کرنا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ جنابہ وزیراعلیٰ تاریخ کا روشن باب بننا پسند فرماتی ہیں اور ابدی کامیابی پسند فرماتی ہیں یا ڈسٹ بِن آف ہسٹری میں جانا پسند فرماتی ہیں۔ جہاں ان کا نام لیوا کوئی نہیں ہوگا۔

