خوش فہمی کے محلات میں رہنے والے
گوجرانوالہ میں اپوزیشن کا حکومت کے خلاف بھرپور پاور شو مندرجہ ذیل زاویوں سے پرکھا اور جانچا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم کا گیارہ سیاسی جماعتوں کا اکٹھ کتنے لوگوں کو جلسہ گاہ تک لانے میں کامیاب ھوا؟ ن لیگی ایم پی اے اور ایم این اے اپنے اپنے حلقوں سے کتنے سو بندے ساتھ لا سکے؟ گوجرانوالہ سٹیڈیم کتنا وسیع وعریض تھا۔۔ شرکا کے لیے کتنی کرسیاں رکھی گئیں۔۔؟ اسٹیڈیم میں کتنی کرسیاں خالی تھیں کتنی بھری ہوئی تھیں؟ کیا واقعی مولانا فضل الرحمن نے جب خطاب کیا تو آدھا سٹیڈیم خالی ہوچکا تھا۔
مریم نواز شریف جنہیں اس جلسے میں puller crowed کہا جا رہا ہے تھا۔ ان کی تقریر نے لوگوں میں کیسا جوش و ولولہ پیدا کیا اور لوگوں نے مریم نواز شریف کو کیسا ریسپانس دیا۔ اپوزیشن کے پاور شو سے حکومتی حلقوں میں کس حد تک تشویش دوڑ گئی، اس بھرپور احتجاج سے سیاسی منظر نامے پر کیا اثرات ہوں گے۔ اور پی ڈی ایم کو کیا ثمرات حاصل ہوں گے؟ کیا یہ احتجاج آنے والے وقتوں میں حکومت کے خلاف ایک تحریک میں بدل سکے گا؟ اس احتجاجی تحریک سے کیا حکومت کی تبدیلی ممکن ہے؟
ان دنوں سے تمام سیاسی مباحث انہی سوالات اور خیالات کے گرد گھوم رہے ہیں، مگر میں اس سارے منظر نامے کو دوسرے زاویے سے دیکھنا چاہتی ہوں۔ سیاست کا یہ تازہ منظرنامہ ایک تکون کی صورت میں ہے، ایک جانب حکومت تو دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں موجود ہیں۔ جبکہ اس تکون کے آخری کونے پر پاکستانی عوام کھڑے ہیں، جن کے لیے یہ منظرنامہ نیا نہیں ہے۔
جمہوریت کے نام پر سیاسی تماشا گروں کے یہ ڈرامے ہمیشہ سے یہاں ہوتے آئے ہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ نون لیگ حکومت میں تھی تو پی ٹی آئی کپتان کی سربراہی میں دھرنے دے رہی تھی وہ سارے مکالمے اور ڈائیلاگ جو آج اپوزیشن جماعتوں کے منہ پر ہیں وہ ڈائیلاگ پی ٹی آئی کے سیاسی رہنماوں کے منہ سے جھڑتے تھے، جوکچھ آج وزیراعظم پاکستان فرما رہے ہیں عین یہی باتیں سابق وزیراعظم نوازشریف کیا کرتے تھے، تکون کے ایک کونے پر کھڑے ہوئے عوام جمہوریت کے نام پر ہونے والی یہ ساری تماشا گری پہلے بھی دیکھتے تھے اور آج بھی دیکھ رہے ہیں، پاکستانی قوم کی امیدوں اور خوابوں کے ساتھ تو واقعی ہاتھ ہوگیا، دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی کرپشن کے ستائے ہوئے عوام کے ردعمل نے تیسری سیاسی قوت کی راہ ہموار کی۔ کپتان کی تقریروں میں انقلابی تبدیلیوں کے خواب ہوتے عوام کی زندگیاں بدل دینے کے بلند بانگ دعوے ہوتے۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی کرپشن کے ستائے ہوئے، لوگوں نے ایک بار پھر عوام کی زندگیاں بدل دینے والے نعروں پر یقین کرلیا اور بدقسمتی سے ایک بار پھر دھوکا کھایا، یہی کہانی یہاں دہائیوں سے دہرائی جارہی ہے۔
سو اب کی بار بھی تجویز یہ تھی
غریب شہر ہی کو ہر سزا ہو
آئی ایم ایف کے قدموں میں بیٹھ کر بنائی گئیں معاشی پالیسیوں نے زندگی صرف غریب شہر ہی پر تنگ نہیں کی بلکہ اب تومتوسط طبقے کی بھی ہوشربا مہنگائی سے چیخیں نکل گئیں ہیں۔ رہی سہی کسر کرونا نے نکال دی۔
ہمارے دیکھتے دیکھتے کتنے ہی ادارے بند ہوئے۔۔ دفتروں کو تالے لگے۔۔ کمپنیوں کا دیوالیہ نکلا۔ نوکریوں والے بے روزگار ہوگئے، اور اب زندگی کی بنیادی ضرورتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوچکی ہیں۔ آٹا، گھی، سبزیوں اور دالوں گیس پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ پہلے جو مہینے بھر کا آٹا خریدنے کی سکت رکھتے تھے آج وہ بمشکل ہفتے بھر کا آٹا خرید سکتے ہیں، معکوس سفر اور کسے کہتے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے بڑے بڑے حامی بھی اب حکومت کی عوام کش پالیسیوں کی حمایت کرنے سے قاصر ہیں۔ پنجاب میں امن وامان کی صورتحال پہلے سے خراب ہے۔ آج اگر اپوزیشن حکومت کے خلاف ایک بھر پور شو کرنے میں کامیاب ہوئی ہے تو یہ ان کی کامیابی سے زیادہ تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی ہے کہ وہ عوام کو ڈیلیور کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ اور وزیر اعظم صاحب کا یہ حال یہ ہے کہ ہر ناکامی کا ملبہ مافیا کے نام کر دیتے ہیں۔ آٹا مہنگا تو ذمہ دار آٹا مافیا پٹرول مہنگا تو ذمہ دارپٹرول مافیا!
سوال یہ ہے کہ حکومتوں کا اور کام کیا ہوتا ہے، سوائے مافیاز کونکیل ڈالنا، اگر آپ ان مافیاز کو کنٹرول نہیں کر پاتے تو پھر آپ کس بات کے حکمران ہیں۔ حالات اگر آپ سے کنٹرول نہیں ہورہے اور آپ اس کا ذمہ دار مافیاز کو ٹھہراتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی ناکامی کا خود اعتراف کر رہے ہیں، اگر تحریک انصاف کی حکومت واقعی عوام کو ڈلیور کرتی، کم ازکم بنیادی ضرورت کی چیزیں اتنی مہنگی نہ ہوتیں۔ آٹا، چینی، گھی دالیں، پٹرول اور گیس کی قیمتیں قابو میں رہتیں، تو اپوزیشن کی جماعتیں حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لیے سڑکوں پر کبھی نہ آتیں۔ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ سرکاری ملازمین تک سڑکوں پر احتجاج کرتے پھررہے ہیں مگر سننے والا کوئی نہیں۔ حکومت تیزی سے اپنے حامیوں کی حمایت بھی کھو رہی ہے۔ وزیر اعظم صاحب کو جاگنا ہوگا اور یہ دیکھنا ہوگا کہ آخر کن قوتوں نے انہیں اس قدر بے بس کردیا ہے کہ وہ جب بھی کسیچیز کی مہنگائی کا نوٹس لیتے ہیں تو اگلے ہی روز اسی چیز کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔
اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک جلسے جلوس اگر کامیاب اور بھرپور ہوتے ہیں تو یہ حزب مخالف کی کامیابی سے زیادہ حزب اقتدار کی ناکامی کا اظہار ہے، خوش فہمیوں کے محلات میں رہنے والے آنکھیں کھولیں کم ازکم اپنی ناکامی تو تسلیم کریں۔