حسینہ معین اورڈرامے کاحسین دور
حسینہ معین اورکنول نصیر پی ٹی وی کے سنہری دور کی دو سنہری خواتین آگے پیچھے اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ جانا تو ہر ایک کا ٹھہر گیا ہے، مگر وبا کے دنوں میں موت کی خبریں اس تواتر سے سنتے ہیں کہ اداسی بڑھنے لگتی ہے۔ کنول نصیر پاکستان ٹیلی ویژن کا پہلا چہرہ اور اناؤنسر کی پہلی آواز تھیں۔ رہی بات حسینہ معین کی تو وہ ہماری جنریشن کے لئے یادوں کے پورے دبستان کا نام ہے، انہیں یاد کرنا آسان نہیں، کہ ان کو یاد کرنے سے یادوں کے وہ دروازے بھی کھلنے لگتے ہیں، جو ہمیں یادوں کی اس بستی میں لے جاتے ہیں، جس کی رہگزر پر ہمیں منیر نیازی کی آواز سنائی دیتی ہے کہ واپس نہ جا وہاں کہ ترے شہر میں منیر۔۔ جو جس جگہ پہ تھا اب وہاں پر نہیں رہا!
کتنے روشن چہرے جن سے ہم زندگی کشید کرتے تھے تہہ خاک سورہے ہیں۔ ڈرامے اور پی ٹی وی کا سنہری دور شاید ہماری زندگیوں کا بھی سنہری دور تھا۔ سرکاری ٹی وی کاایک ہی چینل دن میں صرف ایک ڈرامہ اور سارا دن اس ڈرامے کا انتظار رہتا تھا۔۔ اس وقت ڈرامے کے ایپی سوڈ نہیں ڈرامے کی قسطیں ہوتی تھیں۔ بوجوہ اگر اپنا پسندیدہ ڈرامہ نہ دیکھا جاسکتا تو آج کی طرح یوٹیوب پر دوبارہ نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ ڈرامے کے بعد کریڈٹ کی پٹی چلتی تو سب سے نمایاں نام ڈرامے کے مصنف اور ہدایت کار کا ہوتا۔ ڈرامہ ختم ہونے کے بعد کریڈٹ کی پٹی چلتی تو ہم ایک نام ہم غور سے پڑھا کرتے۔
حسینہ معین کے ڈرامے میری نسل کے لوگوں کے لئے ایک ایسے پر بہار گلستان جیسے ہیں، جس میں داخل ہوکر آپ خوشبو سے لدی ہوئی ہوا سے باتیں کرتے ہیں، خوش نوا پرندوں کی آوازوں سے اپنی سماعتوں کو بھرتے ہیں، رنگ رنگ کے پھولوں کو دیکھ کر اپنی حس جمالیات کی تسکین کرتے ہیں اور جتنی دیر تک آپ ڈرامے کے اس پر بہار گلستان میں ٹھہرے رہتے ہیں، آپ کا دل خوشی کے بے پایاں احساس سے بھرا رہتا ہے۔ حسینہ معین کے قلم میں ایسا جادو تھا کہ انکے تخلیق کیے ہوئے کردار ٹی وی سکرین سے باہر نکل کر ہماری حقیقی زندگیوں میں شامل ہو کر ہمارے ساتھ رہنے لگتے۔ یا پھر اس طرح کہ ہم ان کے کرداروں میں اپنے آپ کو دیکھنے لگتے تھے۔ کتنے ہی شاندار ڈرامے اور جاندار کردار حسینہ معین کے قلم کا شاہکار ہیں۔ انکل عرفی شہ زوری ان کہی تنہائیاں دھوپ کنارے۔ ہر ڈرامے میں کرداروں کی جھلملاتی کہکشاں موجود ہے۔ ان کے ڈرامے کی ہیروئن ہمیشہ مضبوط کردار کی لڑکی ہوتی جو اپنی زندگی کی اونچ نیچ اور حادثات میں کبھی ہمت نہ ہارتی اور نہ ہی کسی ہلکی چیز پر سمجھوتہ کرتی، جو اپنے وقار کو ہر حالت میں سلامت رکھتی۔ تنہائیاں میں زارا احمد کا کردار مثالی لڑکی کا کردار ہے۔ ڈرامے کے ہیرو میں وہ ہمیشہ مرد کو مضبوط کردار عورتوں کی عزت کرنے والا برداشت کرنے والا انسان دکھاتیں۔
محبت ان کے ڈراموں کا بنیادی موضوع تھا۔ دو انسانوں کے درمیان محبت کے مختلف زاویوں کو نہایت حساسیت اور خوب صورتی کے ساتھ کرداروں پر آشکار کرتیں، کوئی ہلکا جملہ کوئی ہلکا منظر ان کے ڈراموں میں ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ محبت ہو یا نفرت حسینہ معین کے کردار زندگی سے جڑے ہر جذبے کو تہذیب اور شائستگی سے نبھانا جانتے تھے۔ یہ وہ سنہری دورتھا کہ ہاتھوں میں ریموٹ نہیں ہوتا تھا اور ڈرامہ سارے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جاتاتھا، حسینہ معین اپنے ہر ڈرامے میں ایک خاندانی ملازم یا ملازمہ کا کردار بھی ضرور دکھاتیں جس کو گھر بھر احترام بلاتا اور وہ خاندانی گھریلو ملازم باقاعدہ گھر کے فیصلوں میں شریک ہوتا یہ خاندانی ملازم بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کرسکتا تھا، حسینہ معین شاید وہ واحد لکھاری ہیں، جنہوں نے صرف ڈرامے کے ہیرو اور ہیروئن کے ہی لازوال کردار تخلیق نہیں کیے بلکہ گھریلو ملازمین کے بھی ناقابل فراموش کردار تخلیق کیے جنہیں اپنے وقت کے اہم اداکاروں نے ڈرامے میں ادا کیا۔
ان ڈراموں کو دیکھنے والا زندگی سے وابستہ اچھی اقدار اور عزت و احترام پر مبنی خوبصورت رویوں کو غیر محسوس طریقے سے اپنے اندر جذب کرتا، تفریح کے ساتھ تربیت کاعمل بھی جاری رہتا۔ آج کے ڈراموں کی صورت دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ حسینہ معین کا ڈرامہ ہم بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں، اب ڈراموں کے کردار ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور انتقام کے جال بچھا تے ہیں، خاندانی سیاست میں رشتوں کے گھناؤنے چہرے دکھائے جاتے ہیں، رشتوں کے تقدس کو پامال کر کے محبت کی تذلیل کی جاتی ہے۔ آج کل ڈرامہ ڈائجسٹ لکھنے والی لکھاریوں کے ہاتھوں میں آ چکا ہے، جو کردار لکھاری خواتین اپنے ڈرامہ میں دکھا رہی ہیں، اس میں ہم روتی پیٹتی مار کھاتی سازشیں کرتی اور اپنے خواہشوں کے پیچھے اقدار اور رشتوں کے تقدس کو روندتی ہوئی لڑکیاں دیکھتے ہیں۔ مردوں کے کردار میں بیشتر شیطان صفت عورتوں پہ ہاتھ اٹھانے والے عورتوں کی تذلیل کرنے والے دھوکا دینے والے کردار ہر ڈرامے میں نظر آئیں گے۔ آج کل کا ڈرامہ دیکھ کر لوگ سازشیں کرنا سیکھتے ہیں۔ خاندانی سیاست میں ایک دوسرے کو مات کرنے کے گر سیکھتے ہیں۔ مرد محبت کے نام پر دھوکہ دینا اور رشتوں کو پامال کرنا سیکھتے ہیں۔
حسینہ معین نے پوری ایک جنریشن کو تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہ کر رشتوں کو نبھانا اور محبت کرنا سکھایا، انہوں نے عورت کو وقار اور کردار کی مضبوطی کے ساتھ جینا سکھایا، انہوں نے اپنے کرداروں کے ذریعے بتایا کہ جینٹل مین ہمیشہ عورت کی عزت کرنے والا ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر انہوں نے اپنے نئے پر بہار ڈراموں کے ذریعے ہمارے دلوں کو مہکایا اور ہمارے حس جمالیات کو جگمگایا۔ انہوں نے ہمیں اپنے قلم کے ذریعے ناقابل فراموش حسین یادیں عطا کیں خدا ان کو اپنی دائمی رحمتوں میں ہمیشہ آسودہ رکھے۔ وہ ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔