جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟
ایرانی مارچ کے مہینے میں نئے سال کا آغاز نو روز کی تقریبات منایا کر کرتے ہیں۔
یہ 2013ء کی بات ہے جب ایران میں نئے سال کا آغاز تھا۔ ایران کا انتہائی اہم فوجی کمانڈر قاسم سلیمانی، عراق ایران جنگ میں حصہ لینے والے اپنے پرانے جنگی ساتھیوں کے ساتھ، ایران عراق سرحدی علاقے میں واقع ایک پہاڑی سلسلے پر موجود تھے۔ یہ سب لوگ ایک پہاڑ کی چوٹی پر موجود تھے اور مارچ کے ابر آلود موسم میں شروع ہوتے ہوئے سال کے خوش کن لمحات سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
ان سب کے درمیان قاسم سلیمانی کی موجودگی ایک طلسم کی طرح چھائی ہوئی تھی۔ فطرتاً کم گو اور سنجیدہ، جنرل سلیمانی اس روز بات کرنے کے موڈ میں تھے۔ ڈھلتی ہوئی رات میں سپیدہ سحر گھل رہا تھا جب جنرل سلیمانی بولے! جانتے ہو کہ ہماری گمشدہ جنت کون سی ہے۔ سب ہمہ تن گوش تھے۔ وہ توقف کے بعد! بولے۔ میدان جنگ ہماری گم شدہ جنت ہے۔ جنت کا ایک تصور یہ ہے کہ وہاں دودھ کی نہریں بہتی ہیں، وہاں سرسبز باغ ہیں۔ حوریں ہیں اور کبھی نہ ختم ہونے والی انتہا درجے کی آسودگی ہے۔ لیکن میرے نزدیک جنت کا ایک تصور یہ بھی ہے کہ میدان جنگ ہو اور میں ایک بے خوف سپاہی کی طرح دشمن کو شکست دیتا رہوں اور ہمہ وقت موت کے ہم رکاب رہوں۔ جنرل ایک سحر آنگیزلہجے میں بولا۔
جنرل سلیمانی کے ان الفاظ کو ایک امریکی جریدے نے اپنے مضمون میں شائع کیا۔ یہ چھوٹا سا جملہ کہ the battle fied is mankind's lost pradise بے حدمقبول ہوا۔ یہاں تک کہ سی آئی اے کے ایک سینئر ڈپلومیٹ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ یہ جملہ جنرل قاسم سلیمانی کی پوری زندگی اور پوری شخصیت کا مکمل پوسٹ مارٹم کر کے رکھ دیتا ہے۔
جنرل سلیمانی کی زندگی ایسی ہی تھی کہ اس نے گھر کی تحفظ بھری زندگی سے زیادہ میدان جنگ کی زندگی کو پسند کیا جہاں موت ہمیشہ جنگجو کے ہم رکاب رہتی ہے۔ وہ اتنے ہی نڈر تھے کہ جتنا آپ داستانوں میں کسی کردار کو مبالغہ آرائی کی حد تک بیان کر سکتے ہیں۔ وہ تین عشروں پر محیط، اپنی جنگجویانہ زندگی کو ایسے گزار کر گئے کہ اب پوری دنیا، ان کی بے خوف اور نڈر شخصیت کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ ان کی رخصتی کا منظر بھی کس قدر داستانوی ہے۔ تین تک عشروں تک وہ امریکہ کیلئے ایک مسلسل اور سخت مزاحمت کا استعارہ بنے رہے۔ وہ جس آگ سے کھیل رہا تھے اس کا یہ انجام یقینی تھا۔ وہ امریکہ کے لئے اس وقت سے ناقابل برداشت ہو چکا تھے جب جارج ڈبلیو بش نے اسے Axis of evil قرار دیا تھا۔ اس کے باوجود کہ اسی کی دہائی سے وہ مسلسل جنگ کے شعلوں میں گھرا رہے۔ موت ان کی زندگی کی حفاظت پر مامور تھی۔ تین سو واقعات ایسے ہوئے کہ وار زون میں ایسی جگہوں پر امریکی حملے ہوئے جہاں ان کی موجودگی کے چانسز ہے۔ مگر بچ گیا۔ تین بار اس کے مرنے کی افواہ خبر بن کر چلی مگر ان کی زندگی تھی تو وہ جنگ کے شعلوں میں گھرا بھی سلامت رہا۔
3 جنوری 2020ء سے پہلے اس گلوبل ویلج کا ایک عام شخص، جنرل سلیمانی کے نام سے واقف نہ تھا۔ آج مگر اس کے نام کا ڈنکا بج رہا ہے۔ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر جنرل قاسم سلیمانی کا نام اور تصویرچھائی ہوئی ہے۔ پرنٹ میڈیا سے لے کر ڈیجیٹل میڈیا تک ہر جگہ جنرل سلیمانی کے بارے میں تحریریں شائع ہو رہی ہیں۔ ایرانی جنرل کی ذاتی اور جنگجویانہ زندگی کے بارے میں جوں جوں پڑھتی گئی میری دلچسپی اور حیرت میں اضافہ ہوتا رہا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی نے کالج اور یونیورسٹی کی روایتی تعلیم کبھی حاصل نہیں۔ غربت کے باعث اسے ہائی سکول سے بھی تعلیم کو خیر باد کہنا پڑا۔ یہ کہانی بھی بہت دلچسپ ہے چلئے اس کے بچپن سے اس کہانی کا سرا پکڑتے ہیں۔ جب وہ 13برس کے تھے۔ تو ان کا غریب کسان باپ، حکومت سے زرعی قرضہ لے بیٹھا۔ اس وقت ایران میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی قاسم سلیمانی کا تعلق کرمان کے ایک پسماندہ پہاڑی گائوں سے تھا۔ وہ بچپن سے ہی حساس اور ذہین تھے لیکن ان کا جی سکول کی روایتی پڑھائی میں کم ہی لگتا تھا۔
یہ 1970ء کا زمانہ تھا جب ان کے والد نے نو سو تومان ایرانی کرنسی قرض لیا جو اس وقت 100 ڈالر کے برابر بنتا تھا۔ اب حکومتی کارندے قرض کی واپسی کے لئے اس کے پیچھے تھے لیکن قرض اتارنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی۔
ان حالات میں 13 سال کے قاسم سلیمانی نے اپنے پسماندہ گائوں کو چھوڑا اور تہران جا کر مزدوری کرنے کی ٹھانی تاکہ باپ پر چڑھا قرض اتار سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 13 سال کے قاسم سلیمانی کو کوئی بھی مزدوری دینے کو تیار نہ ہوتا اوروجہ اس کی یہ تھی کہ وہ جسمانی طور پر بہت کمزور تھے۔ اونچی لمبی قدوقامت بھی نہ تھی۔ پھر بالآخر ان کو ایک سکول کے تعمیراتی ٹھیکے میں مزدوری کرنے کی جگہ مل گئی۔ یوں دو تومان پر انہوں نے مزدوری کرنا شروع کی۔ وہ بچپن ہی سے اپنی دھن کے پکے اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے جان لڑا دینے والی طبیعت رکھتے تھے۔ جلد ہی انہوں نے اپنی محنت اور مستقل مزاجی سے کام کر کے اتنے پیسے جمع کر لئے کہ باپ پر چڑھا ہوا قرض اتار سکیں۔
اسی دوران انہیں کمزور جسم کو مضبوط اورطاقتور بنانے کے لئے ورزش کرنے اور باقاعدہ جم جانے کا شوق بھی ہوا۔ اس کے پیچھے ایک وجہ یہی تھی کہ کمزور جسمانی ساخت اور صحت کی وجہ سے اسے آغاز میں ہی کئی جگہوں پر مزدوری دینے سے انکار ہوا تھااور یہ بات اس کے دل میں کانٹے کی طرح چبھ گئی تھی سو انہوں نے باقاعدہ ورزشوں اور جم کرنے کا آغاز کیا۔
نوجوانی سے جب وہ جوانی کی حدود میں داخل ہوئے تو ان کی میل ملاقات رضا شاہ پہلوی کے مخالف نظریاتی گروپوں سے ہونے لگی۔ پھر انقلاب ایران کے زمانے میں وہ باقاعدہ طور پر پاسداران انقلاب کے ساتھ شامل ہو گئے۔ 1980ء میں جب عراق نے ایران پر حملہ کر کے نئی جنگ کا آغاز کیا تو اس وقت قاسم سلیمانی 22برس کے نوجوان تھے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار قاسم سلیمانی، ایرانی فوجیوں کو پانی پلانے کی خدمت پرمامور ہوئے۔ وہ پورے جذبے کے ساتھ میدان جنگ میں فوجیوں کی خدمت کرتا اور اسے عبادت قرار دیتے تھے۔ (جاری ہے)