چین سے چین تک
کریم احمد، ریڈیو براڈ کاسٹر ہیں اور ان سے تعارف ریڈیو پاکستان پر ہوا۔ وہ کرنٹ افیرز کے لائیو پروگرام پنجاب آن لائن کے سینئر پروڈیوسر تھے۔ انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری رکھنے والے کریم احمد ایک قابل پروفیشنل اور اپنے کام سے لگائو رکھنے والے تھارو جنٹلمین(Throu gentle man) ہیں جنہیں پنجابی زبان میں بیبے بندے بھی کہہ سکتے ہیں۔
اس پروگرام میں منو بھائی سمیت، نامور، تجزیہ کار اور صحافی شریک ہوا کرتے تھے۔ ہفتے میں دو دن میں بھی یہ پروگرام لائیو کرتی تھی۔ پروگرام کے بعد اکثر چائے کی دعوت بھی ہوئی۔ کریم احمد بہت مروت برتنے والے انسان ہیں۔ ان کی مروت کا اندازہ لگائیے کہ کورونا وائرس کو بھی 137دن اپنا مہمان بنائے رکھا۔ یوں پورے 137دن قرنطینہ میں گزارے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب کورونا کو رخصت کر چکے ہیں اور مکمل صحت یاب ہیں۔ 2015ء میں کریم احمد ڈیپوٹیشن پر چین گئے اور تین برس تک چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کی اردو سروس میں بطور فارن ایکسپرٹ براڈ کاسٹر خدمات سرانجام دیں۔ اس دوران انہیں چین کے سماج کو کئی زاویوں سے پرکھنے اور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔
تین سالہ قیام کے دوران اپنے مشاہدات اور تجربات کو ایک کتاب کی صورت میں یکجا کیا۔ کتاب کا چونکہ لاک ڈائون میں ہی شائع ہوئی، تو اس کی ترویج اور تشہیر کا مناسب بندوبست نہیں کر پائے اس میں شاید ان کے مزاج کا دخل ہو۔ مجھے بھی یہ کتاب لاک ڈائون کے دنوں میں موصول ہوئی تھی جب فاضل مصنف کورونا کا شکار تھے۔ کتاب کا نام ہے "چین سے چین تک"میں عام قاری کو اس لئے یہ کتاب پڑھنے کی ترغیب دوں گی کہ یہ روایتی سفر نامہ بالکل نہیں ہے۔ عموماً تو یہ ہوتا ہے کہ لکھاری 15دن مہینہ، دو مہینے کے سفر کے بعد سفر نامہ لکھتے ہیں۔ یہ اس لئے مختلف ہے کہ اس کے مصنف تین برس تک بیجنگ میں رہے۔ وہاں کے ریڈیو سے متعلق پیشہ ورانہ بندوبست کا خود حصہ رہے، چینی پروفیشنل کیسے کام کرتے ہیں وہاں باس اور ماتحت کا تعلق کیسا ہے۔ دفاتر میں کام پیشہ ورانہ ماحول کیسا ہے سرکار کی طرف، کام کرنے والوں کو کیسی سہولیات دی جاتی ہیں یہ سب کریم احمد نے صرف ایک سیاح کی حیثیت سے مشاہدہ نہیں کیا بلکہ خود اس سارے سسٹم کا حصہ بن کر دیکھا ہے۔ چین کے حوالے سے دیو مالائی سی کہانیاں بھی مقبول رہی ہیں۔ کچھ ایسی باتیں بھی چینیوں کے بارے میں مشہور ہو گئی ہیں جن کا حقیقت سے تعلق نہیں۔ چینی قوم کیسی ہے، وہ رشتے، دوستیاں اور تعلق بنانے میں کیسے لوگ ہیں۔ ان کی پیشہ ورانہ کمٹمنٹس کیسی ہیں۔ سیکھنے کا جذبہ کتنا ہے۔ غیر ملکیوں کے ساتھ ان کا برتائو کیسا ہے۔ یہ سب جاننے کے لئے یہ کتاب پڑھنا ضروری ہے۔۔ یہ سب جاننے کے لئے یہ کتاب پڑھنا ضروری ہے۔
عموماً سفر ناموں میں زیب داستاں کے لئے بہت کچھ بڑھا دیا جاتا ہے یوں ایک ہفتے کا سفر جب سفر نامے میں ڈھلتا ہے تو پانچ چھ سو صفحات کی کتاب لکھی جاتی ہے۔ یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ تین برس کا قیام اور کتاب صرف 255صفحات پر مشتمل جو کہ میرا خیال ہے تھوڑا سا مزید اضافہ اس میں کیا جا سکتا تھا کیونکہ واقعات اور مشاہدات بہت دلچسپ ہیں۔ آسان پیرائے میں بیان کئے گئے ہیں اور میرے جیسا قاری ضرور چاہتا ہے کہ کچھ واقعات کی جزئیات بھی بیان ہونی چاہئیں تھیں۔ موجودہ عالمی تناظر میں چین کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور عالمی بندوبست میں چین کا بڑھتا ہوا کردار اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اس حیرت انگیز قوم کے بارے میں زیادہ سے جانیں۔
پاکستان کے ساتھ چین کے روابط ایسے ہیں کہ اب یہاں سکولوں میں بچوں کو چینی زبان بھی سکھائی جا رہی ہے۔ پاکستانی اور چینی شادیوں کا بھی رواج چل پڑا ہے سی پیک کے بعد تو چین کا عمل دخل پاکستان میں اور بھی زیادہ ہو جائے گا۔ چین سے چین تک یہ سفر نامہ مشاہدات اور واقعات سے بڑھ کر ایک ایسے آئینے کی طرح ہے جس میں ہم جدید اور ابھرتے ہوئے چین کا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس آئینے میں ساتھ ساتھ ہم اپنی کوتاہیوں اور بطور قوم اپنی خامیاں بھی دیکھنے لگتے ہیں۔ مثلاً جب کریم احمد چائنا ریڈیو انٹرنیشنل بیجنگ کے بارے میں ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ ریڈیو سٹیشن کئی فلور پر مشتمل ہے اس میں پنج ستارہ ہوٹلوں جیسا کیفے ٹیریا موجود ہیں، کھانے کے اوقات میں شاندار بوفے کا انتظام ہوتا ہے، اس کے ایک فلور پر ایشیائی زبانوں کی ریڈیو نشریات ہوتی ہیں کل 66زبانوں یہاں سے پروگرام نشر ہوتے ہیں توہم پڑھتے ہوئے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ مجھے ریڈیو پاکستان لاہور کے درودیوار یاد آتے ہیں، پرانا فرنیچر، قدیم ماحول، ایسا لگتا ہے کہ ریڈیو جدید وقت سے بہت پیچھے رہ گیا اور اسے نئے زمانے کے تقاضوں کیساتھ ہم آہنگ نہیں کیا جا سکا۔ بیجنگ میں واقع ایشیا کی سب سے بڑی لائبریری کا احوال بہت دلچسپ ہے، اس ڈیجیٹل دور میں بھی چین میں کتاب پڑھنا چینیوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ اس باب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ چین کی ترقی کا راز کیا ہے اردو سے شناسائی حاصل کرتا چین۔
بہت دلچسپ باب ہے اردو سروس میں کام کرنے والے چینی براڈ کاسٹرز نے اپنے نام بھی اردو زبان میں رکھ لئے ہیں۔ سنگ ہان ین کا اردو نام صابرہ ہے۔ چُوشی کا اردو نام۔ سلیمہ ہے اردو سروس کی انتظامیہ سربراہ چائو چھیائو ہیں جو اپنے اردو نام مہوش سے بلایا جانا پسند کرتی ہیں۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ چینی لوگ اپنے کام سے کسی قدر لگائو رکھتے ہیں۔ نئی چیزوں کو سیکھنا اور پھر اس میں شاندار مہارت حاصل کرنا چینی لوگوں کی فطرت کا حصہ ہے۔ جدید چین کے خدوخال کیسے ہیں۔ چینی قوم میں ایسی کون سی عادات پائی جاتی ہیں کہ اس وقت ان کا شمار دنیا کی محنتی ترین قوم میں ہوتا ہے۔ زندگی کے کم و بیش ہر شعبے میں ترقی کی شاندار مثالیں قائم کر کے چینیوں نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ کریم احمد کا شکریہ کہ انہوں نے اپنے مشاہدات کو کتاب کی شکل میں یکجا کیا۔ کتاب پڑھے جانے سے تعلق رکھتی ہے کیونکہ اس میں سیکھنے والوں کیلئے بہت کچھ ہے۔