اور شہر چپ رہا
ہمارے اندر مفادات، خوف اور خدشات کے بہت سے فلٹر لگے ہوتے ہیں۔ زندگی کے معاملات، باتیں، اتار چڑھائو، حتیٰ کہ سماجی ایشو بھی اسی فلٹر سے گزر کر ہماری سوچ کی ورکشاپ تک پہنچتے ہیں اور پھر اس کے مطابق ہم اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ جو مسائل، جو سانحے، جو حادثے ہماری زندگیوں سے مطابقت نہ رکھتے ہوں، ہمارے نظریات کے مطابق نہ ہو، وہ ہم پر اپنا کم اثر چھوڑتے ہیں۔ جبکہ وہ مسائل اور ایشو جو ہماری زندگیوں سے جڑے ہوں۔ یا مستقبل میں ہمیں ان سے متاثر ہونے کا خدشہ لاحق ہو، اس پر ہم اپنا شدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہ سب فطری انداز سے ہوتا ہے۔ کبھی آپ نے دیکھا کہ بستی ساری سیلاب میں ڈوبی ہوئی ہو اور شہر کا حکمران ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر کئی سو فٹ کی بلندی سے غریبوں کے مسائل کا جائزہ لے رہا ہے۔ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر ڈوبے ہوئے شہر کا نظارہ کرنے والا کبھی بھی تکلیف اور دکھ کی اس سچائی کو محسوس نہیں کر سکتا جو اس تکلیف سے اپنی زندگیوں پر سہنے والے سہہ رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ اہل اقتدار یہ جانتا ہے کہ سیلاب میں ڈوبنا عوام کا نصیب ہے۔ خواص کے محلات تک ایسے سیلاب نہیں آیا کرتے۔
موٹر وے پر خاتون کے ساتھ جنسی درندگی کے واقعے نے بہت طاقت کے ساتھ اس سماج کو ہلا دیا ہے۔ حالانکہ ریپ اور زیادتی کے واقعات اس ملک میں روز ہوتے ہیں۔ کسی بھی اخبار کے اندر شہر کی خبروں کا صفحہ نکالیں۔ آس پاس کے شہروں، دیہاتوں، مضافات کے گائوں گوٹھوں کی کئی ایک خبریں ایسے سانحات پر ہوتی ہیں۔ گھر میں گھس کر ڈکیتی اور خاتون سے زیادتی۔ دیہاتوں میں بااثر افراد غریب مزارعوں کی بہو بیٹیوں کو روندنا اور کچلنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ روز آنے والے ان خبروں نے سماج میں وہ ہل چل پیدا نہیں کی۔ جو موٹر وے پر ہونے والی بربریت نے کی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون امیر طبقہ سے تعلق رکھتی ہے پھر اس کے پاس فرانس کی شہریت بھی ہے۔ اس سے حادثے کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ موٹر وے پر گاڑیوں میں سفر کرنے والا ملک کا پڑھا لکھا اور خوشحال طبقہ ہے۔ روزانہ سینکڑوں خواتین بھی اکیلے اور فیملی کے ساتھ موٹر وے پر سفر کرتی ہیں۔ موٹر وے شاہراہ کو محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ سو جب اس محفوظ شاہراہ پر جس پر پڑھا لکھا خوشحال طبقہ سفر کرتا ہے وہاں ایک مسافر خاتون کے ساتھ شرمناک سانحہ ہوتا ہے تو اس پر پورے ملک میں بھر پور احتجاج کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ لاہور کے لبرٹی چوک میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی چھوٹی بڑی سبھی تنظیمیں پلے کارڈ اٹھا کر احتجاج کرتی ہیں۔ کراچی، اسلام، پشاور، کوئٹہ، بہاولپور، ملتان غرض کہ چھوٹے بڑے شہروں میں عورت سے زیادتی کے خلاف احتجاج کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ارکان اسمبلی، خواتین سیاستدان، مختلف تنظیموں کے نمائندے احتجاج میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ کیا حکومتی پارٹی کی سیاسی خواتین اور کیا اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاستدان عورتیں۔ سب سراپا احتجاج ہیں۔ سب کا مطالبہ ہے کہ مسافر خاتون کے ساتھ زیادتی کرنے والے مجرموں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ سب سوال کرتے ہیں کہ عورت محفوظ کیوں نہیں ہے۔؟ سوشل میڈیا پر عوام اور خواص، بھی سراپا احتجاج ہیں۔ سوال کرتے ہیں کہ خواتین کے لئے یہ معاشرہ اتنا غیر محفوظ کیوں بنا دیا گیا۔
وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ سوال و جواب کی خصوصی نشست رکھی جاتی ہے اور بات اس موضوع کے گرد گھومتی ہے کہ معاشرے میں دندناتے پھرتے ان جنسی درندوں کو کب اور کیسے لگام ڈالی جائے گی۔ ایک سانحہ پوری طاقت کے ساتھ سماج کی ٹھہری ہوئی جھیل میں ایک بھاری پتھر کی طرح گرتا ہے اور لہروں کے دائرے بنتے چلے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر لگے ہوئے مفادات اور خدشات کے فلٹر سے جب یہ سانحہ گزرتا ہے تو ہمیں شدید عدم تحفظ سے دوچار کر جاتا کیونکہ اس سانحے کا شکار ہونے والی اس خاتون سے ہماری زندگیاں مطابقت رکھتی ہیں۔ ہم اس حادثے سے خود کو Relateکر سکتے ہیں۔ اسی لئے امیر، پڑھی لکھی فیشن ایبل۔ خوشحال گھرانوں کی خواتین اس سانحے پر چیخ اٹھتی ہیں۔
حکومتی اور حزب مخالف سے تعلق رکھنے والی سیاستدان خواتین سراپا احتجاج ہو جاتی ہیں۔ وہی بات کہ اس سانحے سے ہم خود کو Relateکر رہے ہیں۔ بس اتنی سی بات ہے سماج کی بیداری اور مظلوم کے لئے آواز اٹھانے جیسے عظیم کاموں سے ہمیں کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ورنہ اسی شہر لاہور میں سرکاری یتیم خانہ میں رہنے والی لاوارث لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسگی پر آواز اٹھانے والی افشاں لطیف کے ساتھ کوئی کھڑا نہیں ہوا۔
اس شہر لاہور میں سرکاری یتیم خانے میں رہنے والی 57لاوارث لڑکیاں کہاں ہیں؟ سرکاری فنڈ سے ان کی رہائش اور خوراک کے اخراجات ادا ہوتے ہیں۔ ان کا اب کچھ اتا پتا نہیں ہے۔ وہ کہاں گئیں۔ کس حال میں ہیں۔؟ یتیم لڑکیوں کی وارث حکومت پاکستان تھی۔ اس کا جواب پنجاب حکومت دے۔ اس کے کرتا دھرتا دیں کہ 57لڑکیاں کہاں اور کس حال میں ہیں۔ میرا قلم یہ سوچ کر کانپ جاتا ہے کہ غائب کی جانے والی لڑکیاں جنسی درندوں کے اس معاشرے میں کس حال میں ہوں گی۔؟
اس شہر میں ایک لاوارث لڑکی کو بھوکا پیاسا رکھ کر مارا گیا۔ وہ تین سال کی عمر میں یتیم خانے میں آئی اور بچپن سے جوانی تک۔ ان گنت جنسی درندوں کے ہاتھوں پامال ہوئی۔
ممتاز اینکرز اور ان کے پرائم ٹائم پروگرام چپ رہے ان کے لئے لبرٹی چوک میں پلے کارڈ اٹھا کر کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ وزیر اعظم نے ان کے لئے کوئی بیان جاری نہیں کیا اور ہم شہر کی پڑھی لکھی خوشحال عورتیں، ایوانوں میں بیٹھی ہوئی سیاستدان عورتیں بھی اس لئے ان کے لئے سراپا احتجاج نہ ہو سکیں کہ ہم ان لاوارث یتیم اور روندی ہوئی لڑکیوں کے ساتھ خود کو Relateنہیں کر سکے!اس لئے شہر چپ رہا۔ !