یادوں کے جنازے
جنازے تو ہم ہمیشہ اٹھاتے رہے ہیں بلکہ ہمارے ایک مہربان نے تو باقاعدہ ایک کتاب بھی لکھی ہے جس میں اس نے ان تمام جنازوں کا ذکرتفصیل سے کیاہے جس میں وہ شامل ہواتھا اور باوضو یا بے وضو جنازہ پڑھاتھا۔
ایک جنازہ تو ہم مستقل اٹھائے ہوئے ہیں جس میں کاندھے بھی ہمارے ہیں، پیربھی ہمارے ہیں، چارپائی بھی ہم خود ہیں، امام بھی ہم خود ہیں، مردہ بھی ہم خود اور دعاکرنے والے بھی ہم خود ہی ہیں۔ چنانچہ اس"جنازہ گیری" اور جنازہ برداری نے ہمیں اکسایا کہ اپنی یادوں کے کچھ جنازے بھی اب پڑھ ہی دیں تو اچھاہے، کل کا کیا پتہ کوئی اٹھائے نہ اٹھائے، پڑھے نہ پڑھے بلکہ ایک پشتو کہاوت کے مطابق "موت برحق لیکن کفن میں شک ہے"کہ ملے نہ ملے کہ ایسے کتنے لوگ ہوتے ہیں کہ ان کو کفن دفن اور جنازہ نصیب ہی نہیں ہوتا۔ مرشد نے بھی کہاہے کہ
ہوئے مرکے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اور یہ بھی ہمارے ہاں کہاجاتاہے کہ جب کوئی کسی کے لیے قبرکھودتاہے، جنازے میں شامل ہوتا ہے، فاتحہ پڑھتاہے تو وہ"اس"کا نہیں بلکہ یہ سب کچھ اپنا اور اپنے لیے کرتاہے، سوہم نے سوچا کہ اپنی یادوں کے مردے کسی اور کے ہاتھوں رسوا کرنے سے بہتر ہے کہ خود ہی ان کے جنازے اٹھادیں۔"یادوں کے جنازے"ہماری آپ بیتی کم اور جگ بیتی زیادہ ہے خاص طور پر اس"جگ"کی بیتی ہے جو ہماری ماں تھی اور ہے۔ لیکن افسوس کہ۔ بہت پہلے کوئی سترسال پہلے ہم اس کی آغوش میں سوئے لیکن صبح جاگے تو ہماری اس ماں پرکسی اجنبی نے چھل کیٹ سے قبضہ کیاہواتھا نام اس کا کیا لینا، ہمارے لیے تو "پلندر" (سوتیلاباپ) ہے اور وہ بھی ہمیں "پرکٹا" (سوتیلی اولاد) سمجھتا ہے۔
کوشش تو ہم نے بہت کی کہ اب ماں پر یہ پلندر قابض ہوچکاہے تو ہم بھی اسے پلندر کی جگہ باپ بنالیں لیکن ا س طرف سے ایسا کچھ نہیں تھا۔ صرف "ماں "کے ورثے پرقبضہ کرنا اور اس کی سوتیلی اولاد یعنی ہم پرکٹوں کو غلام بناناتھا کہ ہم کمائیں وہ چھینے اور اپنی "سگی"اولاد کو کھلائے۔ ایسے میں "یادیں " باراتیں تو نہیں ہوسکتیں اس لیے نام رکھا ہے یادوں کے جنازے۔ ایک وجہ اس نام کی یہ بھی ہے کہ حضرت جوش ملیح آبادی جو اردو کی ڈکشنری بھی تھے، پاکستانی بھی تھے اور ہندوستانی بھی، آفریدی پشتون بھی تھے اور ہندی ملیح آبادی بھی تھے، سنی بھی تھے اور اہل تشیع بھی۔ یعنی ہر ہر اینگل سے ٹوان ون تھے، اس لیے ان کی یادیں باراتیں بھی ہوسکتی تھیں لیکن ہمارے سنگل پیس کی یادیں صرف جنازے ہوسکتی ہیں۔
جہاں زندوں کی کوئی پوچھ نہ ہو وہاں جنازوں کی کیااہمیت رہ جاتی ہے لیکن ابھی کچھ لوگ ہیں باقی جہاں میں۔ علامہ عبدالستارعاصم ان ہی لوگوں میں سے ہیں چنانچہ انھوں نے ہمارے یہ "یادوں کے جنازے"اٹھانے کا نیک کام اپنے ذمے لے لیا اور اپنے ادارے قلم فاونڈیشن انٹرنیشنل سے چھاپ رہے ہیں۔ اس بے محابا شور میں کہ۔ کتاب کلچر ختم ہو گیاہے۔ اب کتاب کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگائے گا، کتاب مردہ باد الیکٹرانک اور سوشل میڈیا زندہ باد۔ لیکن یہ بھی ہمارے تجربے اور مشاہدے میں شامل ہے کہ جن جن کے "زندہ باد" کے نعرے بہت زیادہ اور بہت زور زور سے لگائے جاتے ہیں، اتنی جلدی یہ نعرے مردہ باد بلکہ برباد میں بدل جاتے ہیں اور ان کا ذکر صرف داستانوں میں رہ جاتاہے یہاں کتنے آئے زندہ باد ہوئے اور مردہ باد ہوکر عدم آباد میں جاآباد ہوئے۔ چنیپٹھورے، سموسے پکوڑے جو صرف خوش وقتی کی چیز تو ہیں کہ "کھانے"کا نہ تو انھیں درجہ حاصل ہے نہ مقام نہ ہی اس کا اثر زیادہ دیر رہتاہے نہ ہی جزو بدن بنتے ہیں۔
فرحت، احساس سیرابی احساس شکم پری لذت اور قوت صرف گھر کے کھانے سے ملتی ہے۔ کتاب گھر کا کھانا اور علم کا خزانہ ہے۔ اور علم اور لیٹریسی میں اتنا اور ویسا ہی فرق ہے جو کتاب اور تختی بلیک بورڈ یا سلیٹ کی تحریر ہوتی ہے جو وقتی طور پر آنکھوں کے سامنے تو آتے ہیں لیکن بہت جلدی مٹ بھی جاتے ہیں۔ پانی یا ہوا پر لکھی ہوئی تحریریں سمجھ لیجیے۔ جب کہ کتاب انسان کے اندر اترجاتی ہے، بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت میں بھی شامل ہوجاتی ہے جسے گھر کی غذا رگ وپے میں سماکر جزوبدن بن جاتی ہے۔ یادوں کے جنازے ہم نے سجاتولیے لیکن اٹھاتا کون ہے کہ یہاں تو سارے تھانیدار کی بیوی کے جنازے والے ہیں، خود تھانیدار کے جنازے کو "ہونہہ"کرکے بھولنے والے لیکن خدا اس مردقلندر علامہ عبدالستار عاصم کا بھلا کرے کہ اپنے ادارے قلم فاونڈیشن کے کندھوں پراٹھوانے کو تیار ہوگیا۔
ہماری یادوں کے جنازے میں کیا ہے؟ تو ا س کے بارے میں بتادیں کہ اس میں وہ ہے جو شاید اس سے پہلے نہ کہیں بولا گیاہے نہ سنا گیاہے نہ لکھا گیا ہے اور نہ پڑھا گیا ہے۔ جو لکھنے کی باتیں ہیں وہ تو اس میں تھوڑی بہت ہیں ہی لیکن جو نہ لکھنے کی باتیں ہیں وہ بھی اس میں بہت ہیں، اسی مہینے میں یہ جنازوں کا جنازہ اٹھنے والا ہے، اس لیے ابھی سے چاہے وضو کرلیں، چاہے تیمم کرلیں یا بے وضو ہی کھڑے ہوجائیں کہ ہمارے ہاں اکثر جنازوں میں زیادہ لوگ بے وضو ہی کھڑے ہوتے ہیں اور کچھ بھی پڑھے بغیر جنازہ پڑھ لیتے ہیں۔ ہم ہرگز برا ماننے والے نہیں کہ خود کو بخشوانا ہمارا مقصود ہی نہیں، ایک ہنگامہ اٹھانا۔
نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیو
بے صدا ہوجائے گا یہ ساز ہستی ایک دن