وجر، وزر، وزیر
پچھلے دنوں لفظ "وزیر"پر کچھ بات ہوئی تھی اورہم بڑے خوش ہیں کہ اس پر ایک دوست نے کہاہے کہ ہم نے ایک استاد سے سنا تھا کہ "وزیر"عربی لفظ ہے، پہلی خوشی تو اس بات کی ہے کہ ہماراکالم اتنی توجہ اور گہرائی سے پڑھاجاتاہے اوردوسری خوشی یہ کہ اس لفظ پر اب ایک اورجہت سے بھی بات ہوجائے۔
ان کے استاد محترم بالکل ٹھیک کہتے تھے۔"وزیر" ایک لحاظ سے عربی کالفظ بھی ہے، اس کامادہ "ابوزر" (وزر) ہے، بنیادی طورپر لفظ"وزر" کے معنی بوجھ کے ہیں جس سے اصطلاحاً "ذمے داری "کے معنی بھی لیے جاتے ہیں لیکن یہ لغوی اوربنیادی معنی نہیں ہیں، اصطلاحی ہیں جیسے ہم "سر" سے بڑے لوگ یا "راس" سے "رئیس" شیرسے بہادر اورشاہین سے تیزکے معنی لیتے ہیں۔
"وزر"سے عربی لغات میں وزن اوربوجھ کے معنی مراد ہیں بلکہ بنیادی طورپر بہت بڑے"پہاڑ" کو وزن کی نسبت سے"الوزر" کہاجاتاہے۔ اسی وزرسے اردولفظ وزن، اوزان، ارزاں بھی بنے ہیں اورموزوں، میزان وغیرہ بھی۔ اب اصل لفظ"وزیر" کی بات کرتے ہیں، ہم نے یہی توکہاتھا کہ ہندی دیوتا"اندر" کا مخصوص ہتھیار"وجر" ہے جس سے بجر اوربجلی کے الفاظ بنتے ہیں اوراسی سے سنسکرت "ود"اورپشتو وژ (قتل)کے الفاظ مشتق ہیں جس کامطلب یہ بنا کہ وجرکو استعمال کرنے والا "وجیر"(مارنے والا) ہوا اوروجر کے معنی آلہ قتل یاہتھیارہوئے۔
اوراب عربی میں بھی دیکھیے تو وزر، اوزار، ہتھیا وہی معنی لیے ہوئے ہیں۔ گویاآریائی زبان اورسامی زبان دونوں میں اشتقاق کاسلسلہ چل کر "ہتھیار"یاآلہ قتل پرٹھہرتا ہے۔ اس کی وجہ بھی بتادیں کہ بہت اوپرجاکر آریائی اورسامی زبانوں کامآخذبھی ایک ہی ہے، دونوں کاتعلق سفید کاکشی نسل سے ہے، دونوں کسی زمانے میں ایک ہی سرچشمے سے نکلے ہیں، وہ سرچشمہ بھی ہمیں معلوم ہے لیکن بات لمبی ہوجائے گی جس کی ایک کالم میں گنجائش نہیں ہے، صرف اتنا ہی بتاناکافی ہے کہ لفظ کاکشی کے معنی کیاہیں۔
دنیا میں اس وقت تین بڑی نسلیں ہیں۔ زردمنگولی یاطائی نسل یعنی "نسل اصغر"دوسری نسل ابیض یعنی سفید کاکشی نسل اورتیسرا"اسود" یاسیاہ فام افریقی نسل اوران میں دوبڑی نسلوں کاتعلق ایشیا بلکہ وسطی ایشیااوراس پہاڑی سلسلے سے ہے۔
یوں تو علمائے تاریخ ولسانیات "کاکیشیا" کا اطلاق پورے وسطی ایشا پر کرتے ہیں اورمشہورومعروف داستانی پہاڑ "کوہ قاف"بھی روسی ریاست کاسکستان میں واقع ایک پہاڑسمجھتے ہیں لیکن یہ غلط فہمی ہے۔
ان سب کاسک، کاسین وغیرہ کا ماخذ لفظ "کس"ہے جواس سلسلے کوہ کانام ہے جو برما سے شروع ہوکر ایران میں کوہ بابا پرختم ہوتا ہے اوراس کی ایک شاخ خیبرپر ہے جو مڑکر سندھ اورکیرتھرتک چلی گئی ہے جو چین اورہندوستان کوالگ کرتی ہے جس کے ایک طرف زرد منگولی نسل ارتقاپذیرہوئی ہے اور دوسری طرف سفیدکاکشی نسل پیدا ہوئی، اس پہاڑی سلسلے کا قدیم نام"کس"تھا جوکش بھی بولاجاتا ہے، اس کے ایک سرے پر برہم پتراکے قریب بھی کھاسی پہاڑ اورکھاسی قوم آباد ہے اوردوسرے سرے پر بلوچستان میں بھی "کسی غر"اوکاسی لوگ موجود ہیں اوردرمیان میں بھی کاش میر، کاکشیر، کاشغر، ہندوکش وغیرہ میں لفظ کس یاکش موجودہے۔
لفظ "کس"اب بھی پشتو میں انھیں معنی میں موجودہے، وہ اونچی جگہ جہاں سے پانی نیچے بہتا ہو چنانچہ "کسوڑہ"بمعنی ہتھیلی کاسہ (پانی کابرتن) اورکس یاکش بمعنی مخزن اب بھی زبانوں میں موجود ہیں، فارسی میں جیب کو "کسیہ"کہتے ہیں، پنجابی میں کھیسہ کہا جاتا ہے۔
فارسی میں "کوہ" سے "قہہ"پھر قہہ سے "قو" قاز اورقاف بن گیا جیسے یونانیوں نے قوقازیہ یا کاکیشا کر دیااورتاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس مخزن ومعدن سے ہمیشہ انسانوں کے خروج نکلے اورپھیلتے رہے ہیں چنانچہ سامی اقوام بھی اسی سرچشمے سے نکلے ہیں اوراگر زبانوں میں کچھ اشتراک نظرآتا ہے تو وجیراور وزیربھی اسی اشتراک کاثبوت ہیں، یہ بھی دوبارہ عرض کردیں کہ عربی لفظ "وزر"تمام عربی لغات میں بہت بڑے پہاڑکو کہا جاتاہے۔
ویسے بھی لفظ"وزیر"ان معنی میں کبھی عربی زبان میں مستعمل نہیں رہاہے جن معنی میں اردو، فارسی میں ہے، عربی میں اس وزیریعنی منسٹریا منتری کوصدرکہا جاتا ہے اوروزیراعظم۔ اورجس"صدر"کو ہم "صدر" (پریزڈنٹ) کہتے ہیں، اسے عربی میں "رئیس" کہتے ہیں۔
مطلب یہ کہ کل ملاکراورہرطرف سے اشتقاق کے مطابق وزیرکے معنی "ہتھیار"کے بنتے ہیں جسے حکومت یا بادشاہ عوام کے خلاف استعمال کرتا ہے جہاں تک خود لفظ اوزار اورہتھیارکامعاملہ ہے تواپنی ذات میں یہ الفاظ برے نہیں ہیں بلکہ اس کااستعمال ہی ان کومعنی دیتاہے جیسے ہتھوڑا، بیلچہ، کدال، درانتی، چھری، چاقو قینچی یہاں تک کہ اینٹ پتھرسے لوگ قتل بھی کر ڈالتے ہیں۔ آخری خلاصہ یہ کہ کوئی بھی چیزاچھی یابری نہیں ہوتی بلکہ انسان یعنی اس کا استعمال کرنے والاہی اچھایابراہوتاہے۔