اُم المہنگائی اور اُم الگرانی
یہ دل پذیر، دل خوش کن اور دل پشوری خبرتو آپ نے بھی سن یا پڑھ لی ہوگی کہ صوبہ کے پی کے یعنی "خیرپہ خیر" جہاں ہروقت ہرکسی کے لیے "خیریت"ہوتی ہے۔ گراں فروشوں کے خلاف"کریک ڈاون"زوروں پر ہے اور یہ غالباً اسی انتظام کا تسلسل ہے جب حکومت نے مہنگائی کے خلاف ایک زبردست قسم کی کمیٹی یا ایسی ہی کوئی چیز بنائی ہوئی تھی۔
اب اس کریک ڈاون میں جو گراں فروش گرفتارکرلیے گئے ہیں وہ یقیناً"سبزی فروش"ہی ہوں گے۔ اور سبزی فروشوں کا شجرہ یقیناً اس"سبزی فروش"سے ملتاہوگا جسے "خان"کے نوکر نے کس کر دوتین طمانچے مارے تھے۔
تفصیل اس تاریخی واقعے کی یہ ہے کہ "خان"نے گوشت کی مہنگائی کا "نوٹس"لیتے ہوئے اپنے نوکرخاص سے کہاتھا کہ جاکر اس قصائی کے دوچار سخت تھپڑلاتیں اور گھونسے رسید کیے جائیں۔ نوکرگیا۔ لیکن قصائی کو دیکھا تو اس کے ہاتھ میں نہایت ہی خطرناک چھرا تھا۔ اور ساتھ ہی اس سے بھی زیادہ خطرناک کلہاڑی پڑی ہوئی تھی۔ اس لیے خان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے نوکر نے حالات کا بغور جائزہ لیا۔ اور قصائی کے پڑوس میں بیٹھے ہوئے "سبزی فروش" پرخان کا حکم نافذکردیا چونکہ اس کے پاس کوئی تیز دھار آلہ نہیں تھا اس لیے اس پرخان کا حکم کچھ زیادہ ہی سختی سے"نافذ"کیا اور خان کو خبردی کہ آپ کا حکم نافذ کردیاگیا۔
اب بھی شاید بلکہ یقیناً خان کا حکم "گراں فروشوں "پرایسے ہی نافذ کیاگیاہوگا۔ یہ تو خیر روایت ہے اور روایت سے بغاوت اچھے لوگ بالکل نہیں کرتے۔ لیکن ہمارے دل میں ایک اور"خیال"نے نہ صرف سر ابھارا ہے بلکہ دُم بھی ہلائی ہے۔ لیکن یہ خیال چونکہ ایک غیرروایتی ہے۔ اس لیے آپ کو اسے غلط سمجھنے کا پورا پورا اختیارہے کیونکہ بہرحال ہم بندہ بشر ہیں اور بندہ بشر بھی اس مشہور طبقے کے۔ جن کو کالانعام کہاجاتاہے اور جب اس طبقے والوں کو ابھی تک انسانوں کا درجہ نہیں ملا ہے تو ان کا خیال کیا اور قیل وقال کیا۔ لیکن پھربھی جب خیال آیاہے اس لیے پیش کرہی دیتے ہیں۔
کوئی غلط سمجھے یا صحیح۔ خیال یہ ہے کہ ہم ہمیشہ سے علماء فضلا اور دانا دانشوروں سے سنتے آئے ہیں کہ پرابلم کی "جڑ"پرجاؤ شاخوں پتوں کے کاٹنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ برائی کو "جڑ"سے کاٹو۔ اور مہنگائی یا گران فروشی کی یہ جڑ تواتنی بڑی اتنی موٹی اور اتنی لمبی ہے کہ جنم جنم کا اندھا بھی اسے دیکھ یا ٹٹول سکتا ہے ویسے دیکھنے یا ٹٹولنے کی بھی ضرورت نہیں کہ یہ "جڑ"خود بخود ہر جگہ اور ہر فرد وبشر تک پہنچ کر اس سے لپٹ جاتی ہے
دیکھ کرتجھ کو چمن بسکہ نموکرتاہے
خود بخود پہنچے ہے گل گوشہ دستار کے پاس
امید ہے کہ آپ اس جڑکو بلکہ "مدرجڑ"کوجان پہچان اور مان چکے ہوں گے اس لیے "نام"لینے کی ضرورت نہیں ہے یعنی"نام نہ لینا۔ مردہ باد۔ ویسے بھی اچھی "بیویاں " شوہروں کانام نہیں لیاکرتیں۔ اس لیے ہم بھی"رحمت اللہ" کے بجائے السلام علیکم "بچوں کے ابا"کہیں گے۔ یہ"بچوں کا ابا"بلکہ ساتھ ہی "ماں "بھی ویسی ہی ہمہ گیر"ماں "ہے جیسے "قبض"ام الامراض ہے۔ ضرورت ام الایجادات ہے اور"زر"ام الفسادات ہے یعنی آپ اسے "ام المہنگائی"ام لگراں فروشی اور نرخوں کی ماں کہہ سکتے ہیں جس کے بارے میں میرتقی میرنے کہاتھا کہ
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
بلکہ اس سے بھی تسلی نہیں ہوئی کیونکہ "جگ"میں تو اور بھی بہت کچھ ایسا ہے کہ جدھر دیکھیے ادھر ہی تو ہے چنانچہ میرصاحب نے وضاحتاً فرمایا ہے
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی"عطار"کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اور ہم بھی"اس سے"مہنگائی ختم کرنے کی توقع کرتے ہیں جو تمام مہنگائیوں کی مادر محترمہ ہے۔ جہاں سے مہنگائی کے سارے چشمے پھوٹتے ہیں چھوٹتے ہیں اور سب کچھ لوٹتے ہیں۔"عطار"کے ان لونڈوں میں سے کچھ کے نام جو معلوم ہوئے ہیں بجلی، پیٹرولیم، گیس اور سب سے بڑا ٹیکس ہیں اور یہ سب کے سب "دوا"کی ڈوز اتنی باقاعدگی اور ٹائمنگ سے دیتے ہیں کہ
مریض عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتاگیا جوں جوں دوا کی
اور جب مہنگائی بڑھانے کے اتنے باقاعدہ، مضبوط اور فول پروف انتظامات ہوں توپھر مہنگائی کا بال تک ٹیڑھا نہیں کرسکتا، رہے یہ لوگ یہ کمیٹیاں یہ گراں فروشی کے خلاف کریک ڈاون، کمیٹیاں اتھارٹیاں وغیرہ توبات ہر پھرکر اس شخص کی طرف جائے گی جو تیزپریشر سے بہنے والے پائپ کا پانی اس کے منہ پر ہتھیلی رکھ کربندکرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہ کوشش بھی محض دکھاوا ہوتی ہے مقصود پائپ کوبند کرنا نہیں بلکہ خودکو اور پتے چمن کو شرابور کرنا ہوتاہے کہ جن گملوں پودوں اور پھولوں تک پانی نہیں پہنچتا وہ بھی "سیراب" ہوجائیں۔ ہماری صوبائی حکومت کی یہ "کوشش" بھی اچھی ہے کیونکہ انصاف کے باغ کے بہت سارے پودے پیڑ اور گملے شملے ابھی شرابور نہیں ہوئے ہیں
شب تاریک، ہم موج وگردابی چنیں حائل
کجا داندحال ما سبکساران ساحل ہا
ہمہ کارم زخودکامی بہ بدنامی کشیدآری
نہاں کی ماند آں رازی کہ آں سازند محفلہا
یعنی رات، خونخوارموجیں اور جان لیوا گرداب۔ کنارے بیٹھے ہوئے کیاجانتے ہیں کہ ڈوبنے والوں پر کیا گزرتی ہے۔ اور اس میں "چھپاہوا"کیاہے جو ڈھونڈا جا رہا ہے۔