سلامتی کو خطرہ
آپ یقین کریں یا نہ کریں ہمیں تو یقین ہوگیاہے کہ ہمارے وزیراعظم سچ کہتے ہیں اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہتے اور یقین بھی کچھ ایسا ویسا بے یقین قسم کا نہیں بلکہ پکاپکا سولڈیقین، جسے اغیار یعنی وغیرہ وغیرہ سو من وزنی ہتھوڑے سے بھی توڑنا چاہے تو نہیں توڑ پائیں گے۔
ہمارا تعلق جس علاقے سے ہے، اس کے لوگوں کے بارے میں کہاوت مشہور ہے کہ ان کا گمان بھی یقین کے برابر ہوتاہے۔ وزیراعظم نے ایک ہی بیان میں ہمارے وہ سارے برے برے شک دور کر دیے جو ہماشما نے آئی ایم ایف کے سلسلے میں ہمارے ذہن میں ڈالے تھے، شاباش، ویری گڈ، آفرین، مرحبا، بدخواہ بھی جل بھن کر سوا ہوجائیں، بلکہ اس بیان کے بعد تو ہم چاہتے ہیں کہ ان کے بہت سارے نام رکھیں اور سب کے ساتھ"اعظم"لگادیں۔
وزیراعظم، باتدبیر اعظم، وژن اعظم، انصاف اعظم بلکہ ریاست مدینہ کی سربراہی کے سلسلے میں کچھ عربی نام بھی رکھیں جو پرانے زمانوں میں دمشق اور بغداد میں مروج رہے ہیں۔
بلکہ یہ ایک طرح سے اردو خاص طور پر کالمی اور چینلی اردو کی اصلاح بھی کردیں۔ یہ تو دنیا جانتی ہے کہ وزیر ہمیشہ باتدبیر ہوتے ہیں، جس کی گواہی سارے یورپ کے بینک بھی دیں گے اور جب اتنے وزیر باتدبیر ہمارا نصیبہ ہیں تو ان کے سربراہ کو"باتدبیر اعظم" کہنا بھی بنتا ہے، خیر باقی تعریفیں ہم اگلے کالموں کے لیے رکھ چھوڑتے ہیں، پہلے یہی بیان جو ہمارے لیے ویسا ہی ثابت ہوگیاہے جیسے جہانگیر کے لیے نورجہاں کا اڑایا ہوا دوسرا کبوتر ثابت ہوگیاتھا۔
فرماتے ہیں کہ قرضے لینا ہمیں پسند نہیں لیکن جب بات ملک کی سلامتی کی ہو تو مجبوراً اس کے پا س جانا پڑتا ہے۔ ہم نے غور سے اخبار کی پوری خبر پڑھی، دوسرے اخباروں سے بھی ٹیلی کیا۔ لیکن سلامتی کے ساتھ یک جہتی کا لفظ نہیں آیاتھا حالانکہ دونوں جڑواں بہنیں ہیں، جب بھی آتی ہیں ایک ساتھ آتی ہیں، جیسے کچھ زمانہ پہلے "بنجمن سسٹرز"آتی تھیں یا آج کل ریاست مدینہ، صادق وامین جڑے ہوئے ہوتے ہیں۔
خیر یہ ذرا بالائی سطح کی باتیں ہیں، اس لیے کہہ نہیں سکتے کہ دوسری بہن کہاں مصروف رہ گئی تھی، امکان ہے کہ کشمیر میں کہیں ہوگی۔ اب اس سوال پر سنجیدگی سے غور اور حوض دونوں ضروری ہوگئے ہیں کہ "سلامتی"پر ہی فوکس کریں کہ کہیں خدانخواستہ ہماری سلامتی کو خطرہ تو لاحق نہیں ہے، ایک خطرے کو تو ہم جانتے ہیں لیکن اس کی طرف سے تو ہمارے خیال میں کوئی خطرہ نہیں کہ وہ خود ناک ناک تک مصیبتوں میں ڈوبا ہوا ہے۔
اب پاگل ہی ہوگا جو ایک اور پنڈورا بکس کھولے اور ایک اور "مسائلستان"کو اپنے سر پر ماردے، ویسے بھی اس سے نبٹنے کے لیے ہماری فوج کافی بھی ہے اور شافی بھی۔ تو پھر کسی اور طرف سے ہماری سلامتی کوخطرہ لاحق ہے اور جس کے لیے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ ویسے تو اس بات پر "تغور و"تحوض"کے لیے ہمارے چینلوں کے پاس ہر ویرائٹی کے اینکر اور تجزیہ کار موجود ہیں، جو دن رات "تجزیے"کرتے ہیں۔
دراصل ان"تجزیہ کاروں " کی اپنی مجبوریاں ہیں، جب وہ سابق نہیں بلکہ لاحق ہوا کرتے ہیں تو ان کو بہت ساری دوسری "مصروفیات" لاحق ہوتی تھیں لیکن اب چونکہ وہ سب کچھ کرنے کے بعد فارغ ہیں، اس لیے ان کو اب یاد آیا کہ اس ملک میں ایک عدد قوم بھی رہتی ہے اور ان کی"خدمت" کرنا ان کا فرض ہے۔ کسی کو دنیا بھر کے غموں سے مالامال کرنا بھی تو ایک طرح سے خدمت ہے۔
غم دیا ہے تو رہے اس کا تسلسل قائم
میری غربت میں کسی شے کی تو بہتات رہے
اصل بات پر آتے ہیں، ہمارے خیال میں ہم یونہی "باہر"تلاش کرتے ہیں، وقت ضایع کررہے ہیں "سلامتی"کو خطرہ"باہر"سے نہیں "اندر"سے ہے اور یہ سیدھی سی بات سب کی سمجھ میں آنی چاہیے۔ گزشتہ پچھترسال کی تاریخ دیکھیے تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ پاکستان کو آج تک کسی بھی "باہر" والے نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا، اس کے اپنے پیٹ کے کیڑوں نے پہنچایا ہے۔
اگر آپ کا خیال مشرقی بازو کے کٹنے تک جارہا ہے تو اسے روک لیجیے، اس کے لیے بھی سارا مرچ مصالحہ پیٹ کے کیڑوں نے بہم پہنچایا تھا۔ رہا یہ باقی "بچ"جانے والا پاکستان تو اسے بھی خطرہ اندر سے ہے، باہر سے نہیں۔ یہ چندسال کے بعد جو نئی "بارات" آکر اسے "لاحق"ہوتی ہے، یہ یونہی تو رخصت نہیں ہوجاتی ہے۔ یہ بھی ایک سیدھی سی بات ہے کہ فرد ہو یا ملک اس کی سلامتی کی بنیاد معیشت ہوتی ہے جس فرد یا ملک کی آمدنی پانچ اور خرچہ "دس" ہو اس کی سلامتی تو کیا، کوئی بھی چیز سلامت نہیں رہتی۔ اس کی شرم، اس کی حیا، اس کی خودی، اس کی عزت اور مستقبل سب کچھ خطرے میں پڑجاتا ہے۔
انسان کے پیٹ میں ہر قسم اور نوعیت کے کیڑے موجود ہوں تو پھر اسے کتنا ہی کھلایے، پلایے، وہ روز بروز کمزور ہوتا چلاجاتا ہے۔ ویسے ہمارے وزیراعظم اور باتدبیراعظم کو پتہ چل چکا ہے کہ سلامتی کو کہاں سے خطرہ ہے لیکن صاف صاف کہہ نہیں پارہے ہیں اور یہی ایک راستہ ان کو دکھائی دیتا ہے کہ قرض ادھارلے کر ان کیڑوں کو کھلایا جائے ورنہ سلامتی کو خطرہ ہے۔
ایک اور سیدھی سی بات، یہ ہمارا ملک جو ہر چیز سے مالا مال ہے، وافر پانی، زمین، جفاکش کسان، قیمتی معدنیات اور ٹیکسوں کی بھی بھرمار اور قرضوں کی بھی۔ یہ سب کچھ جاتا کہاں ہے؟ سالہا سال سے کوئی نیا منصوبہ، کوئی ڈیم، کوئی روزگار اسکیم بھی نہیں آئی ہے۔ صرف بھیک مانگ کر بھیک دیتے ہیں اور عوام کو لوٹ کرلٹانے کا سلسلہ ہے۔ سب کچھ کھلے عام ڈنکے کی چوٹ ہو رہا ہے، ایک وزیراعظم دیانتدار بھی ہو تو اکیلے چنے اور بھاڑ والی بات ہوجاتی ہے۔