قرآن اور طبیعات (پہلا حصہ)
سب سے پہلے تو میں جناب امجداسلام امجد کا شکریہ ادا کرنا چاہتاہوں کہ اس تحریرکا باعث ان کا ایک کالم بعنوان "سائنس ومذہب"مطبوعہ ایکسپریس(26 ستمبرہے)
اس موضوع پر میں نے اپنی کئی کتابوں میں بہت کچھ لکھاہے لیکن کتابیں نہ تو ہر شخص تک پہنچتی ہیں نہ اتنی تعداد میں ہوتی ہیں اکثرختم ہوجاتی ہیں اور دوبارہ چھاپنا چھپوانا ایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ اس لیے میں قارئین سے بھی گزارش کروں گا کہ یہ موضوع بہت بڑا ہے اور شاید کئی قسطوں میں چلے اس لیے اخبار کو سنبھال کر رکھیں۔
میں نے اس موضوع کا عنوان بھی بدل کر"سائنس ومذہب"کے بجائے "قرآن اور طبیعات"اس لیے رکھا کہ اس عنوان میں عمومیت تھی جب کہ ہر مذہب اور ہرسائنس کی الگ الگ دنیا ہے اور پھر دوسرے مذاہب کی زیادہ تر تحریریں یا نوشتے "اساطیرالاولون"میں آتی ہیں، وہ اپنے اپنے وقت اور مرحلہ تعلیم کے مطابق نصاب تھے۔ کوئی قبیلے کے لیے کوئی قوم کے لیے کوئی کسی ملک کے لیے۔ پرائمری کا بچہ دورکے اسکول میں نہیں جا سکتاتھا، اس لیے محلے یا گاؤں کے پرائمری اسکول کا نصاب پڑھتارہا۔ اس طرح اس کے بڑے ہونے کے ساتھ درسگاہیں اور نصابات میں بھی وسعت آتی گئی اورجب اس معلم اعظم نے انسان کو مختلف درسگاہوں سے گزار کر "پڑھالکھا"بنایا اور انسان کی رسائی اور پہنچ ایک دوسرے اور ہرجگہ تک ہوگئی۔ تو آخری اور مکمل نصاب جاری کردیا گیا۔
جس کا ثبوت خود اس کے اندر موجودہے۔ اقراء یعنی پڑھ سے مطلب یہ ہے کہ اب انسانیت دوسرے ذیلی نصابوں کے ذریعے لکھی پڑھی ہوچکی ہے دوسرے یہ کہ کسی قوم یا نسل یا ملک کے بجائے خطاب "یا ایھاالناس"یعنی ساری انسانیت سے تھا۔ جسے تعلیمی تکمیل کی یہ آخری ڈگری دی جا رہی تھی۔ ظاہرہے کہ آخری اور بڑی ڈگری دینے کے لیے کوئی خاص الخاص شخصیت اور محترم ترین ہستی ہی بلائی جاتی ہے۔ اور ڈگری دینے کے اور اس ہستی کے خطاب کے بعد تقریب کا اختتام ہوجاتاہے کیونکہ سب سے آخری اور بڑی ہستی کے بعد کسی اور کا آنا یا کچھ بولنا اس بڑی ہستی کی بھی توہین اور اس درسگاہ اور اس تقریب کی بھی توہین ہے۔
سائنس تو زمین کھودنے کاشت وبراداشت کرنے اور کھانا پکانے میں بھی ہے۔ جب کہ طبیعات میں سارے علوم آجاتے ہیں، اسے انگریزی میں "فزکس"کہتے ہیں، اس کے مقابل کا لفظ "میٹافزکس" ہے جس کا اردو ترجمہ "مابعدالاطبیعات" بنتا ہے، طبیعات کا تعلق مادے اور مادیت سے ہے اور وہ چیزیں اس میں مانی جاتی ہیں جو "پانچ انسانی حواس" سے ثابت ہوتی ہیں۔ یا تجربے اور مشاہدے میں آتی ہیں جس کی بنیاد"عقل"پرہے لیکن مابعدالطبیعات" کا تعلق "عقیدے"سے ہے، اس کا مادی یا عقلی یا تجرباتی طور پر پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ محتصر طور پر "یومنون بالغیب" کا عقیدہ ہے۔ جیسے میں نے نیویارک واشنگٹن لندن یادبئی کو خود نہیں دیکھاہے لیکن اس کی موجودگی کے بارے گواہ میری نظرمیں مستند محترم اور سچے ہیں۔
اس لیے ان کی باتوں کو میں مانتاہوں۔ ورنہ مشاہدے کی رو سے میں نے یہ شہر یا ممالک نہیں دیکھے ہیں یا میں نے اپنے اجداد کو نہیں دیکھاہے لیکن بتانے والے ذرایع میری نظر میں معتبر ہیں اس لیے مانتا ہوں۔ یوں دونوں علوم یعنی عقل اور عقیدہ یا طبیعات و مابعدالطبعیات دونوں کو بڑے مضبوط اور ناقابل تردید ذرایع کی حمایت حاصل ہے۔ میں کسی ایک کو بھی رد نہیں کرسکتا۔ کیونکہ رد کرنے کے لیے دوسرے کو جھٹلانا اور غلط ثابت کرناہو گا۔ اس معاملے میں "علماء" کا نظریہ یہ ہے کہ اگر کسی کو قرآن اور طبیعات یا سائنس اور حیاتیات میں تضاد نظرآئے تو ایک دم فیصلہ کرکے کسی ایک کو"غلط"ہونے کا فتویٰ نہیں دینا چاہیے بلکہ یہ سوچ کردوبارہ سہ بارہ غور کرنا چاہیے کہ شاید مجھے کسی ایک کو سمجھنے میں کوتاہی ہوئی ہو۔
اس سلسلے میں ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم آدھے ادھورے علم سرسری معلومات اور سنی سنائی باتوں کو لے کر فتوے جاری کرتے رہتے ہیں کوئی طبیعات کو جھوٹا قراردیتاہے اور کچھ لوگ دین ہی سے برگشتہ ہوجاتے ہیں جو طبیعات اور قرآن دونوں کے نہ سمجھنے کا شاخسانہ ہوتاہے۔ اس سلسلے میں دونوں علوم طبیعات اور قرآن کے بارے میں بہت کچھ جھوٹ افترا اور الزامات بھی کارفرما ہوتے ہیں مثلاً ہم ایسا بہت کچھ مانتے ہیں جو قرآن کے بجائے اسرائیلیات یا دوسری خرافات ہوتی ہیں اور قرآن سے ان کا ذرا سا بھی تعلق نہیں ہوتاہے بلکہ متضاد ہوتا ہے۔
یہاں تک کہ دو دو پیسے کمانے والے جاہل مطلق اور بے عقل قسم کے عامل کامل ماہر پروفیسر ماہر علمیات وتعویزات بھی اپنے سارے دھندے کو قرآن سے منسوب کردیتے ہیں اور عوام میں جہالت اور بددلی پھیلاتے ہیں۔ کون کہتاہے کہ کلام اللہ میں اثر نہیں۔ اور پھر ان تمام کاموں کی تفصیل ہوتی ہے جو قرآن سنت الہیٰ اور فطرت سب کی رو سے ناجائز اور ناممکن ہوتے ہیں۔ اسی طرح طبیعات کے بارے میں بہت کچھ محض فرضی اور بے بنیاد ہوتاہے۔
مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ کی ہستی کو طبیعات یا گارڈ پارٹیکل دریافت کرلیا گیاہے لیکن پھر خاموشی کا مطلب یہ ہے کہ۔ ہنوزدلی دوراست۔ یہ تلاش یہ کھوج یہ کوشش یہ اتنی عرق ریزی اور محنت ومشقت اور اخراجات اس لیے کی جارہی ہیں کہ اصولی طور پریہ مانتی ہے کہ کوئی نہ کوئی عظیم قوت یا سپریم پاور ایسی ضرورہے جو اس پورے نظام کائنات اور سلسلہ تخلیق وتکوین کے پیچھے کارفرما ہے لیکن اس طرح نہیں مانتی جس طرح مذاہب مانتے ہیں اور اس سے مختلف عقائد منسوب کرتے ہیں۔ اور یہ تو ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ اس ہستی اس قوت کو مکمل طور پر سمجھنا انسان کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ وہ اتنی بڑی عظیم اور اتنی قدیم ہے کہ انسان تو کیاپوری کائنات بھی اس کا احاطہ یا ادراک یا تصور نہیں کرسکتی کیونکہ یہ سب کچھ بہرحال "جزو"یا اجزا ہیں اور "اجزا"کے لیے "کلُ" کا احاطہ کرنا ادراک کرنا اور اس کا مکمل طور پر جاننا غیرممکن ہے۔ اس سلسلے میں کسی کا ایک شعر کسی حدتک صورت حال کو واضح کرتاہے کہ:
ہر تخئیل سے ماوراہے توُہر تخئیل میں ہے مگر موجود
ترا ادراک غیرممکن ہے عقل محدود توُہے لامحدود
(جاری ہے)