جلنے والے جلا کریں
جلنے والے جتنا چاہے جلا کریں بلکہ اگر بُھننا چاہیں تو بُھنا بھی کریں، حکومت ہمارے ساتھ ہے یعنی جب سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا۔ ان دنوں ہم پھولے نہیں سما رہے ہیں بلکہ فخر سے سینہ گز بھر کا اور کلیجہ فٹ بھرکا ہو گیا ہے کہ ہمارا یہ وطن عزیز ہر چڑھتے دن اور ڈوبتی رات کے ساتھ اور اسلامی اور دینی ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے صرف اسلامی تھا پھر اسلامی تر اور آج کل ترترین ہو گیا ہے۔ بہتر سے بہتر اور بہتر سے بہترین ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے اسلامی قلعہ تھا، پھر اسلامی جمہوریہ ہو گیا اور اب ریاست مدینہ بن گیا ہے ع
رفتہ رفتہ وہ مری ہستی کا ساماں ہو گئے
پہلے جان پھر جان جاں پھر جان جاناں ہو گئے
دن بدن بڑھتی رہیں اس حسن کی رعنائیاں
پہلے گل پھر گل بدن پھر گل بداماں ہو گئے
ہمیں معلوم ہے کہ ہماری اس دن دگنی رات چوگنی ترقی سے کچھ جلنے والے اور منفی تنقیدیے جل تھن رہے ہیں، پہلے سے عربی واٹر، مدینہ واشنگ مشین، مکہ کولا، اقصیٰ اسکول، فاران کالج، قرطبہ، الحمرا، باب مدینہ ماڈل اسکول وغیرہ پر جلتے بھنتے تھے۔ عجوہ کھجور، کلونجی وغیرہ پر ناک بھوں چڑھاتے تھے، اب تو جل بھن کر راکھ ہو گئے ہوں گے کہ رفتہ رفتہ پورا ملک ہی ریاست مدینہ بن گیاہے۔
آپ تو نزدیک سے نزدیک تر آتے گئے
پہلے دل پھر دلربا پھر دل کے مہماں ہو گئے
اب کیا کریں گے کہ چپے چپے پر دین ہی دین، اسلام ہی اسلام اور عقیدت ہی عقیدت کا دور دورہ ہے۔ ہر بات اور ہر کام دین سے شروع ہوتا ہے اور دین پر ختم ہوتا ہے۔ کھانا پینا اوڑھنا بچھونا سب کا سب دینی ہو گیا۔ اور اس بات سے تو سارا شک و شبہ جاتا رہا کہ "شوبز" پر بھی تقدس کا تقدس چھایا ہوا ہے۔
تجارت صنعت تعلیم اور صحت کے شعبہ جات کو دیکھیں ایسا کوئی کلینک نہیں اسکول نہیں، پراڈکٹ نہیں دکان نہیں جن کے اوپر تقدس کی چھتر چھایا نہ ہو۔ اس دن ہمارے ایک جاننے والے نے اپنے پرائیوٹ اور ماڈل اسکول کی تقریب میں آنے کی دعوت دی اور یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم اس کے اسکول کے لیے بلکہ سسٹم آف ایجوکیشن کے لیے کوئی اچھا سا نام تجویز کریں۔
ہم نے تعلیم اور علم کے حوالے سے چند نام بتا دیے لیکن اسے پسند نہیں آئے۔ اتنے میں ایک چائے والا چائے لے کر آ گیا تو اس نے بھی یہ بحث سنی۔ اور پھر بولا، ہمارے ہوٹل کا نام رکھ دیجیے۔ پوچھا تو ہوٹل کا نام "بسم اللہ" معلوم ہوا۔ اس اسکول بلکہ ایجوکیشن سسٹم کے بانی نے فوراً اوکے کر دیا۔ اس سلسلے میں ان عاملوں کاملوں اور پروفیسروں کی دینی خدمات، ایمانی جذبات کو ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا جن کے پاس موجودہ زمانے کے ہر مسئلے اور عارضے کا علاج تو موجود ہے لیکن آنے والے زمانے میں متوقع طور پیدا ہونے والے مسائل کا "ھوالشافی" بھی موجود ہے۔
خاص طور پر وہ عامل وغیرہ ہیں اس دعوے کے ساتھ کہ کون کہتا ہے مسائل حل نہیں ہوتے، پھر نیچے وہ تمام مسائل بیان کیے گئے ہوتے ہیں جو وہ حل کرتے ہیں۔ وہ بھی کچھ پڑھے بغیر۔ مثلاً دشمن کا بیڑا غرق کرنا، لڑکی کو اپنے پیچھے بھگانا۔ سوتن کو لوٹن کبوتر بنانا، لڑکے کو اپنی طرف راغب کرنا، بیاہتا عورت کو کنوارے کے ساتھ بھگانا، مقدمات میں جیتنا، راتوں رات دولت مند بن جانا، ہر بیماری سے چھٹکارہ، کاروبار میں دن دونی رات چوگنی ترقی کرنا، الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی، کسی بھی مرض کو بغیر علاج کے ٹھیک اولاد نرینہ پیدا کرنا چاہے سائل کنوارا یا کنواری ہی کیوں نہ ہو۔
ہم تو کبھی کبھی طیش میں آ کر اپنے آپ کو تھپڑ ٹھڈے مکے لاتیں تک مارنے لگتے ہیں کہ ہم بھی بہت کچھ پڑھتے ہیں لیکن کبھی ایسی کوئی چیز ہاتھ نہیں لگی جس سے ہم بھی ناممکن کو ممکن بنادیں۔ شاید ہم ہی نالائق اور اناڑی غوطہ خور ہوں جو اس سمندر میں سے وہ موتی نہیں برآمدکر پائے جو ان لوگوں کے ہاتھ لگے ہیں اور اب کوڑیوں کے مول بیچ رہے ہیں۔ ایک عامل نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ وہ جن اور بھوت وغیرہ کو بھی طلب فرما سکتے ہیں اور ان سے کان پکڑوا سکتے ہیں جنوں پریوں کو تگنی کا ناچ نچوا سکتے ہیں۔
ہمیں ان سے کوئی برابلم نہیں بلکہ ایک طرح سے فخر ان پر کرنا چاہتے ہیں کہ ریاست مدینہ میں یہ سب کچھ زور وشور سے جاری ہے جن کا مجموعی فائدہ ریاست مدینہ کو پہنچ رہا ہے بلکہ عوام کو الو بنانے کا فن جانتے ہیں اور اپنی دنیا کو سنوارنے میں مصروف ہیں۔ جلنے والے اگر جلتے ہیں تو جلا کریں بلکہ جھونگے کے طور پر راکھ بھی بن جائیں تو ہمیں کیا پروا۔ حکومت ہمارے ساتھ ہے۔
پیار جب حد سے بڑھا سارے تکلف مٹ گئے
آپ سے تم، تم سے توُ پھر "توُ" کا عنواں ہوگئے