جب ازواج بگڑتے ہیں
درحقیقت نہ ڈاکٹربرے ہوتے ہیں نہ وکیل، دونوں اچھے خاصے شریف اورپڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں لیکن جب ازواج بگڑتے ہیں تو اچھی چیزیں بھی بری بن جاتی ہیں، عام طور پر ازواج کا مطلب نر ومادہ یا مرد وعورت لیا جاتاہے لیکن "ازواج"کاجائزہ اتنا وسیع ہے جتنی یہ کائنات ہے کیونکہ رب جلیل نے فرمایاہے کہ"پاک ہے وہ ذات جس نے سب کچھ "کلہا" ازواج یعنی جوڑوں میں پیداکیا ہے چاہے وہ زمین سے اگنے والی ہوں یا تمہارے نفس کے اندرہوں یا وہ جن کے بارے میں تم نہیں جانتے (یٰسین)۔
پہلے تو "کلہا"کالفظ ساری کائنات ومخلوقات کا احاطہ کردیتاہے لیکن اس زمانے کے انسان کی ذہنی استعداد کے مطابق تھوڑی سی تشریح بھی کردی ہے کہ زمین میں یا تمہارے اندر یا جن کو تم نہیں جانتے۔ پھرکہاہے "ہم نے ہرچیز جوڑوں میں پیداکی تاکہ تم ہدایت اور فہم حاصل کرو (الزاریات)پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ہرمقام پر کائنات کہکشاؤں اور ایٹم تک میں "جوڑے"کارفرما ہیں، خود کائنات کی پیدائش ایک ذرے کے پھٹنے اور انتشار وارتکاز کے زوج سے ہوئی ہے پھر پوری کائنات میں سب سے بڑا زوج "مادے اور توانائی"کاہوتا ہے۔
جہاں کہیں کسی بھی چیز میں دیکھیں منفی اور مثبت کا زوج ملے گا، زمین وآسمان، اندھیرا اجالا، سیاہ وسفید اچھا برا، خیر وشر، موت وحیات، میٹھا کڑوا، اونچا نیچا، دائیں بائیں، مشرق ومغرب، اوپر نیچے مطلب یہ کہ ایسی کوئی شے وجود نہیں رکھتی جس میں منفی ومثبت ایک دوسرے کے مقابل نہ ہوں، دو ہاتھ، دو پیر، دو آنکھیں، دو کان یہاں تک کہ دل میں بھی دو کواڑ اور دماغ میں بھی دائیں بائیں حصے۔ اور یہ دونوں ویسے ہی نہیں بلکہ ان دونوں کا اشتراک ہی کسی پیدائش، کسی حرکت اور کسی بڑھوتری کے لیے لازم وملزوم ہوتاہے۔ اس حقیقت کا اظہار قرآن نے تو چودہ پندرہ سوسال پہلے کیاتھا لیکن طبعیات نے ابھی چند سال پہلے اس پرمہرتصدیق ثبت کی۔
(1928)میں ایک نوبل انعام یافتہ سائنس دان پال ڈیرک نے پہلی بار انکشاف کیا کہ ہرمخلوق کا ایک مقابل، منفی یا متضاد ہوتاہے۔ اور یہ زوج یامنفی مثبت صرف زندہ یا متحرک چیزوں میں نہیں ہوتے بلکہ دکھائی نہ دینے والے ذہنی روحانی اور نفسی چیزوں میں بھی ہوتے ہیں مثلاً ہم دل ودماغ یا منفی مثبت سوچ کی بات کرتے ہیں عقائد ونظریات میں بھی ہوتاہے جسے عقل طبعیات ومابعدالطبعیات۔ انسان کے زوج پرمبنی ہے۔ اکیلی اکیلی چیز کچھ بھی نہیں اگر آواز ہے اور کان نہیں تو کچھ بھی نہیں اگر ہوا میں ریڈیو ٹی وی، موبائل وغیرہ کی لہریں ہوں اور ان کو ریسوکرنے والے آلات نہ ہوں تو ہونے کے باوجود نہ ہونے کے برابر ہیں۔
یہ ازواج ہی ہیں جو کسی لاشے کو مل کر "شے"بناتے ہیں۔ ایک نر ومادہ کتنے ہی طاقتور اور مکمل کیوں نہ ہوں اکیلے کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ قرآن اور طبعیات کے مطابق ایسی کوئی چیز نہیں جس کا جوڑا نہ ہو اور پھر ان جوڑوں کے اشتراک اور ملن سے تخلیق وتکوین ارتقاء وترقی کا سلسلہ آگے بڑھتاہے لیکن "ہر ہر زوج"کایہ اشتراک ایک خاص اور معروف طریقے سے مشروط ہوتا ہے اور اگر دونوں اس مقررہ اور معروف طریقے پر ملیں یکجا ہوں تو نتیجہ آبادی کی صورت میں نکلے گا اور اگرغلط طریقے پر ملیں یا ایک زوج ٹوٹ جائے تو نتیجہ تباہی وبربادی ہوگا۔
بجلی کی منفی ومثبت تاریں اگرمعروف طریقے پرکسی بلب آلے یا مشین میں ملیں تو فائدہ لیکن اگر براہ راست ملائے جائیں تو تباہی اور اس کی سب سے بڑی مثال "ایٹم"ہے۔ ایٹم بم میں ایٹم کے اندر کا پروٹرون اور نیوٹرون غلط طریقے سے توڑا جاتاہے جو تباہی کے سوا اور کچھ نہیں پیداکرتا۔ کچھ ایٹمی توانائی کے "فوائد"بھی بتاتے ہیں لیکن یہ فوائد بھی نقصان ہی کے پیٹ سے نکلتے ہیں۔"تم کیا جانو"حطم"کیاہے، اللہ کی آگ ہے چور چور اور ریزہ کرنے والی(الھمزہ)۔ اب آتے ہیں انسانی معاشرے اور نظام میں جوڑے ٹوٹنے یا اپنا اپنا کام چھوڑ کر دوسرے کام میں مداخلت کے بھیانک نتائج۔ انسانی معاشرہ جس زوج پرقائم ہے وہ "حقوق وفرائض"کا جوڑ اور زوج ہے جب کوئی اپنے حقوق تو لیتاہے اور فرائض ادا نہیں کرتا تو وہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے جو ہمارے معاشرے کی رگ رگ اور نس نس میں سرایت کرچکی ہے۔ معاشرہ کو تشکیل دینے والا اور چلانے والا زوج حکومت اور عوام کا ہوتاہے۔
اگرحکومت اور عوام اپنے اپنے حقوق کے ساتھ فرائض بھی ادا کریں تو کوئی بگاڑ نہیں ہوگا اور معاشرہ حقوق وفرائض کے ان دو پہیوں پر آرام سے چلتا رہتاہے لیکن اگر ایک پہیہ چھوٹا اور دوسرا بڑا ہو، ایک چلے دوسرا نہ چلے ایک ٹوٹا ہو دوسرا سالم ہو تو گاڑی نہیں چلے گی۔ ہمارا معاشرہ ایسا ہی ہے حکومت یا اشرافیہ کو اپنے حقوق تو معلوم ہیں بلکہ یہاں وہاں کی دوسری حکومتوں کو دیکھ دیکھ کر کچھ زیادہ معلوم بھی ہیں اور وصول بھی کرتی ہے لیکن ان حقوق کے بدلے میں اسے معلوم ہی نہیں کہ اس کے کچھ فرائض بھی ہیں۔
(جاری ہے)