جب ازواج بگڑتے ہیں (دوسرا اور آخری حصہ)
عوام تو مرضی سے یا زور زبردستی سے اپنے فرائض اور حکومت کے حقوق دے دیتے ہیں یا ان سے وصول کرلیے جاتے ہیں لیکن حکومت کو یہ احساس تک نہیں کہ اس "معاہدے" یا تبادلے یا اشتراک کی دوسری شرط کیاہے، وہ حقوق دینے اور اپنے فرائض ادا کرنے کے بجائے ادھر ادھر کی باتوں یا نعروں وغیرہ سے عوام کو ٹرخاتی ہے، اگر کچھ دیتی بھی ہے تو بھیک یا خیرات بنا کر اور ہزار ہزار احسان جتا کر بلکہ آیندہ کے "ووٹ بزنس" کی صورت میں دیتی ہے۔
اب اس ایک زوج کے بگاڑ سے دوسرے عوام کے زوج پر جو گزرتی ہے اس سے بگاڑ ہی بگاڑ پیدا ہو گا۔ معاشرے کی ہر ہر سطح پر کہ بگاڑ سے سنوار کبھی جنم لیتی ہی نہیں کہ سنوار اور بگاڑ کا بھی زوج ہوتا ہے اور اس کی پیدائش معاشرے کے زوج سے ہوتی ہے اور اگر معاشرے کا زوج ہی بگڑا ہو تو سنوار کیسے پیدا ہو گا؟ ۔ جس معاشرے میں حقوق و فرائض کا یہ جوڑ غیر متوازن ہو جاتا ہے تو اس سے بھیانک چیز پیدا ہوتی ہے جس کا نام "عدم تحفظ" ہے۔ جب حکومت اپنے حقوق چھین چھین کر عوام کے حقوق نہیں دیتی جو چار ہیں۔
حفاظت، صحت، تعلیم اور روزگار۔ اور عوام محسوس کر لیتے ہیں کہ اس معاشرے یا نظام میں ہمارا کچھ بھی محفوظ نہیں ہے تو وہ خود کو محفوظ کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں کہ جیسے بھی ہوں میں اپنے آپ کو محفوظ کر لوں کہ اس معاشرے میں ہمارا یا ہمارے اہل و عیال کا کوئی تحفظ نہیں ہے، حکومت اپنے ان فرائض کو بھول چکی ہے اور میرے سب کچھ کا تحفظ میں نے اکیلے ہی کرنا ہے تو پھر اس کے سامنے جائز ناجائز غلط یا صحیح روا یا ناروا یا حلال و حرام کی کوئی حیثیت نہیں رہتی، وہ جو قیامت کے لیے کہا گیا ہے کہ نفسی نفسی کا عالم ہو جاتا ہے تو معاشرے میں موجود ہر ہر زوج بگڑ جاتا ہے۔
عورت و مرد، انسان انسان، عقائد و نظریات اور خاص طور پر عورت اور مرد کے ازواج اپنی اپنی راہ چھوڑ کر دوسرے راستوں پر نکل جاتے ہیں، اپنے خواص اور دائرے چھوڑ کر دوسرے کے دائرے میں داخل ہو کر دوسرے کے کام اختیار کر لیتے ہیں۔ مرد اور عورت کا بھی ایک زوج ہے اور اس زوج کا باہم ملن انتہائی اہم کام کی بنیاد ہوتا ہے، انسانیت کی عمارت کے لیے "اینٹیں " فراہم کرنے، بچہ پیدا ہونے کے اور مرد کا کام خاندان یا بچے اور ماں کا پالنا پوسنا ہوتا ہے اور ماں کا کام اس بچے یاکچی مٹی سے اینٹ بنانا ہوتا ہے اور اس میں ایک اچھی اور پکی اینٹ کی خصوصیات ڈالنا ہوتا ہے۔ بچے کو دائیوں آیاؤں کیئر ٹیکروں وغیرہ کے حوالے کر دیتے ہیں۔
ان کو اچھا کھلاتے پلاتے ہیں اور جتنی مادی ضرورتیں ہو سکتی ہیں، وہ پوری کر دیتے ہیں لیکن بچوں کو سب سے ضروری چیز وقت اور توجہ نہیں دے پاتے اور اجرت یا کرائے کے لوگ سب کچھ کر لیں لیکن ماں باپ نہیں بن سکتے اور ان کو بھی اجرت سے کام ہوتا ہے، بچے سے نہیں۔ پھر اسے کرائے اور دولت کی درسگاہوں میں بھیج کر اس کی تعمیرکراتے ہیں وہاں بھی ترجیح صرف پیسہ ہوتا ہے، اس لیے وہ بچے کو ڈاکٹر انجنئیر وکیل افسر ملازم وغیرہ تو بنا لیتے ہیں کیونکہ معاشرے اور نظام تعلیم کی منزل بھی ایک کماو مشین بنانا ہوتا ہے، انسان بنانا نہیں۔
اب اوپر کے دو دو الگ بیڈ روم نوکروں کے سہارے اور کرائے کی درسگاہوں سے تو وہی مشین نکلے گی جو بنا بنا دیتے ہیں پھر ہم رونا روتے ہیں کہ ڈاکٹر ظالم ہے، انجینئر کرپٹ ہے، وکیل انصاف کا خون کرتا ہے، جج عدل نہیں کرتے، اسی طرح افسر یا کسی بھی کام کے کرنے والے سب کے سب کماو مشین ہوتے ہیں تو ہم ان سے "انسان" ہونے کی توقع کیسے کر سکتے۔ انسان تو ہم نے اسے بنایا ہی نہیں ہے تو انسانی جذبات احساسات اخلاقیات اور ہمدردی و رحم انصاف وغیرہ وہ کہاں سے لائیں گے، جب ہم ان کے اندر ڈالے ہی نہیں ہم نے تو انھیں وہ سکھایا جو ہم نے نظام اور معاشرے سے سیکھا ہے کہ صرف مال وزر اور کمائی ہی ایک حقیقت ہے۔
باقی سب کچھ فضول ہے۔ یعنی ہم نے معاشرے کی عمارت کی یہ اینٹ ہی کجی یا ٹیڑھی میڑھی بنائی ہے تو اس میں اینٹ کا کیا قصور ہے، وہ تو کچی مٹی تھی بنانے والے ہم ہیں، یہ نظام تعلیم ہے یہ معاشرہ ہے اور ہمارا بنانے والا ہمارا طبقہ حکمرانیہ اور اشرافیہ ہے جس نے بنیادی زوج کو ہی بگاڑا ہوا ہے اور عدم تحفظ کا تخفہ دیا ہوتا ہے۔ اور وہ عام طور پرکہتے ہیں کہ دونوں کام نہیں کریں گے تو گھر کیسے چلائیں گے اور ان کے خیال میں "کام" اور گھر چلانے کا مفہوم صرف پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ بچوں کو مادی اور جسمانی وسائل فراہم کرنا ہوتا ہے کیونکہ سر تاسر بگڑے ہوئے ازواج نے ہمیں معاشرہ اور نظام ہی ایسا دیا ہو جو انتہائی حد تک زرپرست مادہ پرست اور غیرہموار ہے۔
جس میں انسان ایک معاشرے ایک ہی شہر بلکہ ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی تنہا اور اپنے ہر ہر تحفظ کا تنہا ذمے دار ہوتا ہے۔ قدم قدم پر حقوق و فرائض کا زوج بگڑا ہوا اور بے میزان ہے غیرمتوازن ہے اور اپنے اپنے کام سے بچھڑا ہوا ہے۔ پھرہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں کرپشن جرائم اور ظالمانہ اور استحصالانہ عوامل کا دور دورہ ہے کہ مقصد و مرام صرف اپنی ذات کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے چاہیے اس کے نتیجے میں کوئی اور تباہی کیوں نہ ہو اسی پیمانے سے آپ معاشرے کے ہر رکن کو بگڑا ہوا دیکھتے ہیں چاہے وہ ایک چور ہو قاتل ہو ڈاکو ہو۔
ڈاکٹر ہو، وکیل ہو انجینئر ہو استاد ہو لیڈر ہو مرد ہو عورت اور بوڑھاہو، افسر ہو ماتحت ہو جب آپ نے اس کے اندر "کماومشین" کو ڈال دیا تو اسی سے انسان ہونے کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔ وہ تو ایک روبوٹ ہے وہی کرے گا جو اس کے اندر ڈالا گیا ہے۔ آپ "تلوار" سے سوئی کا کام کیسے لے سکتے ہیں۔
زہر سے تریاق کیسے کر سکتے ہیں۔ جب آپ نے ایک کماومشین ڈاکٹروکیل انجینئر افسر استاد وغیرہ کی صورت میں بنایا ہوا ہے اور اس کے اندر سے "انسان" کو نکالا ہوا تو اس کے اندر انسان کیسے آئے گا۔ ایک بار پھر اس سلسلے پر نظر ڈالیے سب سے پہلا زوج حکمرانیہ اور عوامیہ کا بگڑتا ہے۔
حقوق و فرائض میں "میزان" قائم نہیں رہتا تو نیچے جتنے بھی ازواج ہیں، یہ بگاڑ ان میں سرایت کرتا چلا جائے گا اور اس عمارت کی پہلی اینٹ تک بات پہنچے گی جس کے معمار عورت اور مرد یا ماں اور باپ اپنے اپنے فطری کام چھوڑ کر دوسرے کے حصے کے کام کر رہے ہیں تو اس زوج کا نتیجہ یا عمارت کی پہلی اینٹ یقیناًکچی ٹوٹی ہوئی یا ٹیڑھی میڑھی ہی نکلے گی، پھر ان اینٹوں سے جس معاشرے کی عمارت بنے گی تو سیدھی ہو ہی نہیں سکتی۔