جانے کے بعد تیری یاد آئی
خداکالاکھ لاکھ شکرہے کہ اب ہم بھی اس قابل ہوگئے ہیں کہ بالکل ویسا ہی لکھ سکتے ہیں جسے پڑھ پڑھ کرہم اکثرجل ککڑے ہوجاتے تھے، جب اڑوس پڑوس اورگلی محلے کے لوگ اپنے بیرون ملک کے دوروں اور وہاں اپنے اعزازمیں ہونے والی تقریبات اور غیرممالک میں اپنے فینز اورعقیدت مندوں کا ذکر کرتے تھے توہم مارے رشک کے خود اپنے آپ سے الجھ جاتے تھے کہ تم بھی خود کو بڑا تیس مارخان سمجھتے ہو لیکن نصف صدی قلم گھسانے کے باوجود اپنا کوئی ایک فین بھی بیرون ملک پیدا نہیں کرپائے لیکن اب ہم بھی اتنے توہوگئے ہیں کہ ان کے "نقاروں "کے جواب میں اپنا "برغو" بچاسکیں۔ خوشحال خان خٹک نے ایک شعرمیں کہاہے کہ
کہ مغلوکہ ہرسو راتہ ڈنگ ڈنگ دے
زہ ہم خہ یم ھم"برغو"ترسنگ دے
(کیاہواکہ مغلوں کے نقارے ڈنگ ڈنگ بچ رہے ہیں، میں بھی اچھاہوں، میری بغل میں اپنا "برغو" ہے) برغووہ چھوٹا سابگل ہوتاہے جو کسی جانورکے سینگ کابناہوتاہے اورہندیوں کی سنکھ کی طرح بجایا جاتا ہے۔ اب اس کاکیاجائے کہ ہم اصل بات شروع کرناچاہتے ہیں لیکن یہاں وہاں سے کہانیاں دم ہلانے لگتی ہیں۔ پشتوکا ایک شاعرتھا جو شاعرسے زیادہ شاطر اور نوسربازتھا۔ اﷲ اب اس پر رحم کرے، اگراس نے کسی کو رحم کے لائق چھوڑاہوتو۔
جب حیات محمد خان شیرپاؤکی بم بلاسٹ میں موت ہوگئی توحکومت نے اے این پی والوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی تو شاعر موصوف ہمارے پاس آکربولا کہ فلاں پولیس افسرسے تمہارے تعلقات ہیں، اس سے کہوکہ مجھے بھی گرفتارکیاجائے لیکن ذرا باعزت طریقے سے۔ باوجودہماری کوشش کے اس نے وجہ نہیں بتائی لیکن رازتب کھلا جب وہ تین دن جیل میں گزار کر آیا اورایک مہینے بعد اس کامجموعہ کلام منظرپرآگیا، لگ بھگ ڈیڑھ سوغزلوں اونظموں کے نیچے (پشاورسینٹرل جیل) لکھاہواتھااوراب اصل کہانی کہ ہمارابرطانیہ میں ایک فین پیداہوگیاہے اوراکثرفون کرکے حال چال پوچھتاہے اوراپنی دوچار ناقابل برداشت، ناقابل سماعت اورناقابل اشاعت غزلیں سنایاکرتاہے، اس دن غزلوں کے بعد بولاکہ اگریہاں سے کوئی چیز چاہیے توبتائیں۔ عرض کیاجوکچھ ہمیں چاہیے وہ تو تم بھیج نہیں سکوگے، اس لیے بتانے سے کیافائدہ؟ بولا، آپ بتائیں کیا چاہیے؟ ہم نے کہا، تھوڑا سا برطانیہ یہاں بھیج دو۔ بولا، اگریہ میرے بس میں ہوتا توخود یہاں جھک مارنے کیوں آتا۔
اگرآپ نے محبوب کی پرانی فلم آن دیکھی ہوتو اس میں ایک شہزادی "نادرہ"تھی جوہماری شہزادی "نادرا"سے بھی زیادہ نک چڑھی اورمغرورتھی۔ وہ دلیپ کمارکوگھاس تک نہیں ڈالتی تھی لیکن بعد میں اپنے کیے پر پشیمان ہوکرگاتی پھرتی تھی کہ
جانے کے بعد تیری یاد آئی
کچھ ایساہی حال ہمارا بھی برطانیہ کی جدائی اور ودائی پرہواہے، پشتو میں ٹپہ ہے کہ
اول مے فکر درتہ نہ وو
اوس مے دزڑہ ستنے کگے درپسے دینہ
یعنی میں نے پہلے تمہارا کوئی خیال نہیں کیا لیکن اب میرے دل کے سارے "ستون" تمہاری طرف جھکے ہوئے ہیں۔ لو دورسے وہ کفن چوراوراس کے بیٹے کاقصہ بھی دم ہلانے لگاہے لیکن لعنت ہوکفن چورپر بھی، اس کے بیٹے پر بھی اوران لوگوں پر بھی جو باپ کو دعائیں دینے لگے تھے حالاں کہ ان ہی میں ہم خود بھی ہیں کہ جس برطانیہ یاانگلینڈ عرف (یو کے)کوہم نے دھکے دے دے کرنکالاتھا، اب اسی کے پاس جانے کے لیے دین، ایمان ملک، عزیز رشتے دار سب چھوڑ رہے ہیں۔
جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کے آزاد آرزو کرتے
آرزوتو ایک طرف اپنی آبروتک بیج رہے ہیں۔ ایک اورکہانی نے دم ہلانا شروع کردی، کارل مارکس کے ساتھ فریڈرک اینگلزکی ایک کتاب ہے "خاندان، ملکیت اورریاست" جیسا نام ہے غالباً اس میں لکھا ہے کہ کسی جگہ ایک گاؤں آباد تھا جہاں جنگل سے وحشی آکر لوگوں کولوٹتے تھے۔ صرف یہی ایک واقعہ نہیں بلکہ اگلے زمانے میں ساری دنیاکایہی حال تھا کہ ڈاکو، لٹیرے آکربستیوں کو لوٹ لیتے تھے چنانچہ بستی کے لوگوں نے اپنی حفاظت کے لیے محافظ رکھ لیے لیکن پھران محافظوں کے اخراجات، معاوضے اور خدمات کے اخراجات اتنے بڑھ گئے کہ بستی کے لوگ ان "محافظوں " سے تنگ آکر وہاں سے بھاگ کر اوران وحشیوں اور لٹیروں کے ہاں پناہ لینے لگے۔
ہمارے یہ بھگائے ہوئے سفید فام اورنیلی فام ڈاکوبھی ہماری دولت لوٹ کر لے جاتے تھے سوہم نے ان کوبھگا دیااورکمال بہادری اورحریت سے ان سے آزادی حاصل کی لیکن درمیان میں غلطی سے نہ جانے کیا مسٹیک ہوگئی کہ آزادی ان کومل گئی جوشریک سفرتھے ہی نہیں بلکہ ان سفید فاموں اورنیلی فاموں کے جوتے پالش کرنے میں لگے ہوئے تھے، سفید فام اورنیلی فام بڑے کائیاں لوگ تھے۔ انھوں نے بھی اپنی دشمنی ہم سے خوب خوب نکالی، اپنی جلد کارنگ ان پالشیوں، مالشیوں میں انجیکٹ کرگئے۔
گرنے کے بعد ہوش میں آئے توکیا
پہلے سے نہ سوچاتھا انجام اپنی اس حرکت کا۔ اوراب ہوش میں آئے ہیں تو ان کم بختوں نے اپنے قریب پھٹکنا بھی مشکل کردیا ہے، اگر درمیان میں یہ پاسپورٹ ویزے کی دیواریں نہ ہوتیں توآج ہم وہاں بیٹھ کر ان کی غلامی پر پھولے نہ سماتے۔
تمہارے "ملک" کاموسم بڑا سہانالگے
میں ایک شام چرالوں اگر برانہ لگے