ہاتھی کی بیٹی کا اغوا
راہ چلتے ہوئے اچانک ہم نے گھاس پھوس اور جھاڑیوں میں کچھ حرکت سی محسوس کی توٹھہرکرجائزہ لینے لگے، کچھ تو تھا جو جھاڑیوں میں چھپ چھپ کر حرکت کررہاتھا، کہیں سانپ وانپ نہ ہو۔ ہم ایک جھرجھری سی لے کررہ گئے لیکن پھر دماغ نے کام شروع کیا تو سوچا، اب جنگل جھاڑیوں میں سانپ کہاں۔
پڑوسی ملک کے ڈراموں اور فلموں سے ہمارا یہ خیال پکاہوگیاتھا کہ سانپ وغیرہ"اچھادھاری"بن کر اب شہروں میں جابسے ہیں، جنگل بیابان میں آخروہ کھاتے کیا جب کہ شہروں میں چوہے مینڈک یہاں وہاں سے بہت آتے ہیں جو پکے پکے بلوں میں رہنے والے اچھادھاری سانپوں کا کھاجا بن جاتے ہیں۔
کوئی احمق پاگل یا محض سانپ ہی ہوگا جو جنگل بیابان میں رہ کربھوکا مرے۔ چنانچہ جب سے شہروں میں سریے سمینٹ کے جنگل اگنا شروع ہوئے ہیں، سارے درندے اور خزندے وہاں جابسے ہیں، صرف "پرندے"کہیں چلے گئے کہ شہروں میں آشیانے کے لیے نہ "پیڑ"رہے ہیں نہ باغ نہ چمن اور نہ شاخیں۔ تو پھر یہ کیاہے جوجھاڑیوں اور گھاس پھوس میں ادھر ادھر ہورہاہے، شاید کوئی انسان ہو جوسمینٹ سریے کے جنگلوں اور کبھی شکم سیرنہ ہونے والے درندوں سے بھاگ آیا ہو۔ ہم بھی تو اسی ارادے سے یہاں آئے ہیں کہ
آجا کوئی ٹھکانہ بنائیں کسی جنگل میں
شاید کہیں بچی ہوں ہوائیں کسی جنگل میں
یہاں وہاں ڈھونڈنے کی کوشش کی تواچانک دو ننھی ننھی آنکھیں جھانکتی دکھائی دیں۔ ایک دم جھپٹ کر جھاڑی ہٹائی تو ایک"چوہا"دبکا ہوا تھا۔ ارے تم؟ وہ بولا، ہاں میں ہوں۔ مگر تم یہاں کیاکررہے ہو۔ تمہارے لیے تو شہروں میں بڑے مواقعے ہیں، پکے پکے لگژری بل ہیں، کوڑے کے ڈھیر ہیں، اناج کے بڑے بڑے ذخیرے ہیں اور بلیاں بھی اتنی آرام طلب ہوگئی ہیں کہ چوہے پکڑنے کے بجائے حج پرجاتی رہتی ہیں۔ بولا، تم مجھے کیاسمجھ رہے ہو؟ ہم نے کہا چوہا۔ کیاتم چوہے نہیں ہو؟ بولا، یہی تو برابلم ہے کہ میں چوہا نہیں ہوں لیکن پھربھی چوہے کی زندگی جی رہاہوں۔ اگرچوہے نہیں ہو۔ توپھر کیاہو۔ دکھی لہجے میں بولا، دراصل میں "روپیہ" ہوں؟ ۔ کیا کہا روپیہ۔ کونساروپیہ کیسا روپیہ کہاں کا روپیہ۔ اور بھی گلوگیرہوکر بولا، ہاں ہاں تم ہی کیا، مجھے اب کوئی نہیں پہچانتا۔ کسی کو یاد بھی نہیں۔ کہ
کبھی فتراک میں اس کے کوئی نخچیربھی تھا
ہماری سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ یہ چھوٹا سا بے بضاعت دبلا پتلا اور مارے ڈرکے کانپتاہوا"چوہا"روپیہ بھی ہوسکتا ہے، اس لیے ماننے سے صاف انکارکرتے ہوئے ڈانٹا۔ کہ تم یہ کیا اول فول بک رہے ہو۔ تم اور روپیہ۔ ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے بولا، ہاں یہ چوہا بھی کبھی روپیہ تھا۔ جب لوگ اس کی آرتی اتارتے تھے، صبح وشام پوجا کرتے تھے، دور سے سلام کرتے تھے اور ہرجگہ احترام کرتے تھے بلکہ حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کے اہتمام انتظام اور کام کرتے تھے۔ لیکن افسوس کہ حالات نے میرا کام تمام کردیا، جینا حرام کردیا۔ دام سے بے دام اور نام سے بے نام کردیا۔
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش ونگارطاق نسیاں ہوگئیں
بلیاں اور بلے مجھ پر پل پڑے اگرصرف بھوک مٹانے کی بات ہوتی تو وہ توہم ایک زمانے سے قبول کیے ہوئے ہیں۔ پرانے زمانے کی اولڈفیشن بلیاں ایک دو چوہے کھاکرآرام سے لیٹ جاتی تھیں، پھرکہیں بھوک لگتی توہمارے درپے ہوجاتیں۔ پیٹ بھرجائے تو تجوری اور تجوری بھرجائے تو پھر بینک کھاتے چلے جاتے ہیں، پکڑتے چلے جاتے ہیں کہ ان کی بھوک کا نہ کوئی اور ہے نہ چھوڑ۔ اور نہ ہی کوئی ٹارگٹ اسکور۔"رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور"
بے اعتدالیوں میں سبک سب سے ہم ہوئے
جیتنے زیادہ ہوگئے اتنے ہی کم ہوئے
اب تم ہی بتاؤ ہمارے لیے اور چارہ کیارہ جاتاہے سوائے فرار ہونے اور بھاگنے کے۔ لیکن اب تو تم جنگل میں ہو۔ یہاں بلیاں بلے کہاں۔ بولا، تم جوہو؟ پہلی مرتبہ ہم پر کسی نے بلی یا بلا ہونے کا الزام لگایاتھا جوہمیں ہرگز قبول نہ تھا کہ ہم تواندر باہر اوپر نیچے آگے پیچھے اور دائیں بائیں ہر طرف سے "چوہے"ہی تھے اور یہ بات سارے دکانداروں زمام داروں اور چوبداروں کوبھی معلوم تھی اور وہ ہمارے ساتھ وہی سلوک کرتے تھے جوبلی چوہے کے ساتھ کرتی ہے، اس لیے پرزور الفاظ میں تردید کرتے ہوئے کہا۔ ہم بلی نہیں ہیں۔ لیکن لگتے تو بلی جیسے ہو۔۔۔ یہی تو سارا برابلم ہے کہ ہم بلی جیسے لگتے ہیں لیکن ہیں نہیں۔ اس لیے تو "کتوں " سے بھاگتے پھرتے ہیں کہ وہ بھی ہمیں بلی سمجھتے ہیں۔
اس لیے میں بھی تمہاری طرح فراری ہوں، فرق اتنا ہے کہ تم بلی سے بھاگے ہو اور میں کتوں سے۔ کتاوہ جانور ہے نا جس کی وفاداری مشہورہے؟ اس نے پوچھا اور ہم نے بتایا کہ جھوٹ ہے، سب کچھ۔ بچارا کتا بھی ایک جانور ہے لیکن انسانوں کی "صحبت بد"میں رہ کر ان جیسا ہوگیاہے، اس لیے تو انسان کتوں کوپسند کرتاہے، انھیں پالتا پوستاہے، سینے سے لگاتاہے اور"وفاداری"کا تمغہ دیتاہے حالانکہ یہ "وفاداری" اس نے انسان سے ہی سیکھی ہے۔ لقمے کے لیے اپنوں پر بھونکنا اپنوں کو کاٹنا اپنوں سے لڑنا اور اپنوں سے غداری کرنا۔
باتوں باتوں میں ہم بھول گئے تھے کہ وہ چوہا ہے ہی "روپیہ" ہے یاد آیا توپوچھا مگرتم نے اپنے آپ کو روپیہ کہاہے۔ بولا، ہاں ہوں توروپیہ لیکن بن گیا ہوں چوہا۔ اور جنگل آیا ہوں، شہری بلی سے بھاگ آیا ہوں۔ لیکن جنگل میں کیوں چھپتے پھرتے ہو؟ بولا، ایک اور خطرہ بھی میرے لیے پیدا ہوگیا ہے بلکہ پیدا کیاگیا ہے، ان کم بخت میرے دشمنوں دو ٹانگوں والے بلی بلیوں نے مجھ پر الزام لگایاہے کہ میں نے ہاتھی یعنی ڈالر کی بیٹی کو اغوا کیاہے۔