احتساب ہوگا ہوگا ہوگا
ہونا بھی چاہیے اس وجینتی مالا نے آرام کے حوض میں بہت نہا لیا اور نہیں نہیں کرتی رہی لیکن اب ہو گا ہو گا ہو گا۔ اس لیے کہ اب اس"گا"، گے، گی خاندان کا یہ آخری فرد بچا ہے ہوگا ولد ہو گا، ہو گی بس گی۔
اور جس طرح ہو رہا ہے اسے نہ صرف ہم تم اور وہ دیکھ رہے ہیں بلکہ سارا عالم دیکھ رہا ہے۔ پورے ستر سال سے یہ عوام نام کالانعام مفت کی کھا رہے ہیں، بیچارے لیڈر کما رہے تھے اور یہ ہڑپ کر رہے تھے سب کچھ نہایت ارزاں آسان اور فراواں۔ یوں کہیے کہ لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کر جو جی چاہا لے کر کھا لیتے تھے، نہ کوئی کمی تھی نہ قلت تھی اور نہ دقت تھی۔ لیکن اب ان کو لگ پتہ جائے گا کہ سیر بلکہ کلو کی کتنی پکتی ہیں، کیسے پکتی ہیں اور "پکاتی" چلی جاتی ہیں کہ محترمہ مکرمہ مبرمہ مہنگائی نے ان کا احتساب شروع کر دیا ہے۔
کتنا کتنا کیسے کیسے سستے نرخوں پر کھایا ہے وہ سب یاد آجائے گا چھٹی کا دودھ سمیت۔ یہ احتساب ضروری تھا کہ اب تک صرف بیچارے لیڈر ہی سارے دکھ بھوگ رہے تھے لیکن اب ان مفت خورے سستا خورے اور آسان خورے عوام کا بھی احتساب بذریعہ مہنگائی شروع ہو چکاہے۔ اور ایسا شروع ہو چکا ہے کہ یہ مجرم جب تک ختم نہیں ہوں گے تب تک ان کا احتساب بذریعہ مہنگائی جاری رہے گا۔ آپ نے فلموں وغیرہ میں دیکھا ہو گا کہ ذہنی مریضوں کو جب شاک دیے جاتے ہیں تو تب تک پاور بڑھایا جاتا ہے جب مریض ہاتھ پیر ڈال کر گردن ٹیڑھی نہیں کر لیتا۔
چنانچہ اب تک نارمل اور کم والیوم کے جھٹکے دیے جاتے تھے لیکن اس کم بخت مریض کا پاگل پن اتنا ہائی فائی کیلبر کا تھا کہ کچھ اثر ہی نہیں ہو رہا تھا اور جب بھی دیکھا جاتا، جلسوں جلوسوں اور دھرنوں پر اتر آتے تھے لیکن اب احتساب ہو گا ہو گا ہو گا۔ اور اس وقت تک ہو گا جب تک یہ اپنے چہرے سے "مکھی" زبان کے ذریعے اڑانا نہ شروع کر دے۔ "زبان سے مکھی اڑانے" کا منظر آپ نے یقیناً دیکھا ہو گا کیونکہ یہ خالص کسانوں اور بیلوں کا ذاتی معاملہ ہے۔
ہوتا یہ کہ جب بوائی کا سیزن ہوتا تھا تو بیلوں کے کام کا دورانیہ بہت بڑھ جاتا تھا بلکہ راتوں کو اوور ٹائم بھی کرنا پڑتا تھا۔ پھر بیلوں کا یہ حال ہو جاتا تھا کہ وہ اپنے چہرے سے مکھیاں اڑانے کے لیے سر ہلانے سے بھی رہ جاتے تھے اور یہ کام زبان سے لینے لگتے۔ کہ جسم کے کسی اور عضو کو ہلانے کی سکت ان میں نہیں رہتی تھی اور اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ مہنگائی کے سخت احتساب کے باوجود عوام پر ابھی وہ گھڑی نہیں آئی ہے۔ باقی صدیقی نے اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔ کہ
پہلے ہربات پہ ہم بولتے تھے
اب فقط ہاتھ اٹھادیتے ہیں
اور اب احتساب کے دوران وہ لمحہ ابھی نہیں آیا ہے لوگوں میں بولنے اور ہلنے جلنے کی سکت ابھی باقی ہے۔ گویا احتساب کو ابھی اور کڑا ہونا چاہیے۔ چلے چلو کہ ابھی تک وہ گھڑی نہیں آئی۔ احتساب بذریعہ مہنگائی کا یہ فارمولا کوئی معمولی یا عام فارمولا نہیں ہے بلکہ اسے ایجاد کرنے میں یہ عوام کالانعام اپنے شور شرابے سے دیوتاؤں کو پریشان کرتے رہے ہیں لیکن پرانے زمانے کے اولڈ فیشن دیوتا لوگ اس کا علاج آفات و بلیات اور قہر وغضب سے کیا کرتے تھے جو چنداں تیر بہدف علاج نہ تھا۔
یہ کم بخت شورہ پشت اور شوربلے کالانعام پھر بھی بچ جاتے تھے اور کچھ عرصے میں تیزی سے بڑھوتری کر کے دیوتاؤں کے آرام میں خلل انداز ہونے لگتے۔ آخرکار خدا رکھے۔ حکیم العالم حاذق الزماں اور طبیب جہاں آئی ایم ایف نے اپنے کلائنٹس کے پرزور اصرار پر تیر بہدف نسخہ ایجاد کر لیا۔ ایجاد تو یہ پہلے بھی ہو جاتا تھا لیکن اس میں قباحت یہ ہوتی تھی کہ کالانعام کے ساتھ ساتھ کچھ خواص یا خواص کے خواص یا کیٹرنگ کو بھی نقصان پہنچ جاتا تھا۔ لیکن پھر مزید تجربات سے اسے اپ ٹوڈیٹ اور فول پروف بنایا گیا۔
وہ اس طرح کہ مہنگائی کو عوام پر چھوڑ دیا جائے لیکن اپنے "خواص" کو بچانے کے لیے لائف جیکٹس وغیرہ بھی دیے جائیں جیسے انکم سپورٹ، نیلے کارڈ، پیلے کارڈ اور رنگ رنگیلے کارڈ۔ یہ نسخہ جو پی پی پی نے بینظیر کا فاتحہ حلوائی کی دکان پر پڑھنے کی صورت میں ایجاد کیاہوا تھا بڑا کارگر ثابت ہوا۔ مہنگائی کے طوفان میں بھی خاص لوگوں کو ان کشتیوں میں بیٹھا کربچا لینے کا طریقہ ایجاد ہو گیا۔ آنے والے "احتساب" میں اس طریقہ بچاؤ میں کچھ اور اضافے بھی کیے گئے یوں مہنگائی کا احتساب صرف کالانعاموں پر مرکوز کر دیا گیا۔ جو بدستور مرکوز ہے اور والیوم کو مزید بڑھایا جا رہا ہے دیکھتے ہیں پاگل کب تک مزاحمت کرتے ہیں۔
ویسے اگر ہم انصاف کی بات کریں اور انصاف کی بات آج کل تو لازمی کہنا چاہیے کہ ملک میں انصاف کا بول بالا ہے چوروں کا منہ کالا ہے اور جتنا کوئی منہ کالا ہے اتنا ہی اس میں مرغن نوالا ہے۔ اور جہاں جہاں مرغن نوالاہے وہاں جو بھی انصاف والا ہے وہ احتساب کا متوالا ہے تبدیلی لانے والا ہے اور نیا پاکستان بنانے والا ہے۔ ہاں تو اگر ہم انصاف کی بات کریں تو یہ کالانعام انتہائی اسٹوپڈ تو ہیں ہی لیکن احسان فراموش بھی ہیں۔ ایک اوپر ستر سال سے لیڈر لوگ ان کو نہایت ارزاں اور سستا سستا سب فراہم کر رہے ہیں۔
سب سے پہلے تو انگریزوں کو بھگا کر ان کی لوٹ مار کو روکا اور وہ جو سرمایہ لے جا رہے تھے وہ ان سے چھین کر عوام کی جھولی میں نہایت دیانت امانت اور ذہانت سے ڈال دیا کہ صادق اور امین ہیں پھر یہاں وہاں سے جو بھی ہاتھ لگا لائے اور عوام کو سستا سستا کھلایا۔ بیس روہے من آٹا، ڈیڑھ روپے سیر چینی، تین روپے سیر چاول، چار سو روپے گھی کنستر اور نہ جانے کیاکیا۔ لیکن یہ عوام کالانعام نمک حرام شکرحرام بجلی حرام پیٹرول حرام سب کچھ سستا سستا ہڑپتے رہے۔
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انتہائی نکمے نکھٹو ہو گئے نظر پٹو ہو گئے چٹنی کے چٹو ہو گئے۔ اس لیے ان کا احتساب ضروری ہو گیا تھا کہ ان کو چیزوں کی سستائی اور مفتائی کی قدر معلوم ہو جائے اور یہ بھی پتہ چلے کہ ان کے لیڈران کرام اور وزیران عظام ان کے لیے کیا کیا دکھ بھوگتے رہے اس لیے اے عوام کالانعام اب ذرا باہر نکل۔ میرا لالا احتساب آ گیا ہے یوم حساب آگیا ہے اس لیے مہنگائی پر شباب آگیا ہے یعنی احتساب ہو گا ہو گا اور ہو گا۔ اور اسی مہنگائی نام کے "یوگا" سے ہو گا۔