چلوکام آگئے ہمارے یہ گدھے
کل ہم نے پشاور کے بازارمیں ایک بہت درد ناک اورالم ناک منظردیکھا، ایک گدھاگاڑی عرف خرولامیں آٹھ دس بوریاں، کچھ کریٹ اورکچھ گٹھڑ بھرے ہوئے اور کئی چیزیں لدی تھیں اورآگے انجن کے طور پر ایک بہت ہی نحیف ونزاردبلاپتلا گدھا جوشاید چالیس کلوگرام ہوگا۔
اپنی دبلی پتلی لرزتی کانپتی ٹانگوں پر اسے کھینچ رہا تھا، گاڑی میں بوریوں کے اوپرجوموٹا سا "خروان "بیٹھا تھا، اس کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا جس سے وہ خرولا کے ایکسیلیٹرکاکام لے رہا تھا، تب ہمیں خیال آیابلکہ بہت سے خیال آئے اورتصورمیں ایسی بہت سی گاڑیاں عرف "خرولے"گھومنے لگے جن میں جتے ہوئے گدھے کی یہی حالت تھی لیکن "خروان" دبلے پتلے نحیف ونزارگدھے پر رحم کے بجائے ڈنڈے برسا رہے تھے بلکہ برسا رہے ہیں۔
آپ بھی تصورکریں تو آپ کوبھی ایسی بہت ساری چھوٹی بڑی گدھاگاڑیاں یاخرولے نظرآجائیں گے، دبلاپتلا انجربنجرگدھا بھی اور اس پر سوار موٹا تازہ "خروان" بھی اوراس کے ہاتھ میں ڈنڈابھی، علامہ اقبال نے کہا تھا۔
رومی بدلے شامی بدلے بدلاہندوستان اوغافل افغان
اورہم اس میں تھوڑی ترمیم کرکے کہیں گے کہ
گھوڑے بدلے بیل بھی بدلے بدلاہرحیوان
لیکن تونہ بدلا ابھی اوگدھے بے زبان
بیلوں کو بھی ٹریکٹرٹرالیوں نے چھٹکارا دلادیا، گھوڑے بھی موٹر وہیکلزکی برکت سے نجات پاگئے بلکہ گائے بھینسوں کوبھی مکتی ملنے والی ہے کیوں کہ انسانوں نے مصنوعی دودھ، گھی اورمکھن بنانا بھی سیکھ لیا ہے لیکن بیچاراگدھا پہلے سے بھی زیادہ عذاب میں مبتلاہوچکا ہے اور وجہ اس کی اچھی کارکردگی ہے۔
مکتب عشق کا دستور نرالا دیکھا
اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یادکیا
یہ بیچارا اپنی محنت اورجفاکشی اور بلا چوں چرا کیے، ہرکام کرنے کی وجہ سے ابھی تک عذاب میں گرفتار ہے بلکہ پہلے سے کئی گنا زیادہ مبتلاہے۔ اگرکوئی ہم سے پوچھے کہ دنیا میں سب سے زیادہ بدنصیب کونسا جانور ہے توہم ذرا بھی پانی پئے بغیرپہلے نمبرپر گدھے کورکھیں گے۔
عوام کالانعام اورشریف شوہرکودوسرے اورتیسرے نمبرپررکھیں گے۔ اگر بیچارے پرصرف یہ "خرولے"کا عذاب نازل ہوتا تو پھر بھی غنیمت تھی لیکن کہتے ہیں کہ "برا دن"جب آتاہے تو اکیلا نہیں آتا، اپنے ساتھ پورے کا پورا خاندان بھی لے کرآتا ہے، بیچارے کی "جان اورکھال"بھی لوگوں کوپسند آگئی۔ سناہے ادھرایک ملک ہے۔
یہ بدقسمت وہاں جاکرناپیدہو جاتا ہے، پھر پاکستان میں اس بیچارے کو تکہ بوٹی بنا کر کھانے کی رسم بھی چل نکلی ہے، کتنے ظلم کی بات ہے گویا تریاق بھی اس کے لیے زہر بن جاتا ہے یا یوں کہیے کہ پسندیدگی بھی اس کے لیے گمشدگی یا موت ہوگئی۔
محبت میں نہیں فرق مرنے اورجینے کا
اسی کودیکھ کرجیتے ہیں جس کافرپہ دم نکلے
یہ بھی سنا ہے کہ اب تو شہروالوں نے کہاوت بھی ایجادکرلی ہے۔ یعنی جس نے گدھے کاگوشت نہیں کھایا، وہ شہر میں پیدا نہیں ہوا۔ گوشت پریاد آیا کہ گوشت کے ساتھ ساتھ اس کی کھال بھی قیمتی ہوگئی ہے خاص طورپر چینیوں کوپاکستانی گدھے بہت پسند ہیں، اس لیے نہیں کہ یہ گدھوں سے بہت زیادہ "گدھے" ہیں بلکہ اس لیے کہ اس کی "کھال"میں کچھ ایساہے جو چینیوں کوبھاگیا۔
ہم نے صرف سرسری طورپرسنا ہے، پوری بات وہ دانا دانشورجانتے ہوں گے جوہر "بات" جانتے ہیں کہ گدھے کی کھال میں ایساکیاہے جو چینیوں کی فیورٹ ہے، صرف یہ سنا ہے کہ اس کی کھال میں کوئی ایسی چیزہے جو خواتین کوخوبصورت اورپرکشش بنانے کی مصنوعات میں استعمال ہوتی ہے اوریہ بات سوفی صد درست لگتی ہے کیوں کہ وہ خود کو پرکشش اور پسندیدہ بنانے پر شوہر حضرات بلکہ گدھوں کی کمائی کو بے دریغ خرچ کرتی ہیں۔ جب کہ شوہر حضرات بیچارے گدھے کا کڑاہی گوشت کھااپنا انتقام لیتے ہیں۔ سب سے بڑاظلم تواس کے ساتھ یہ کیاگیاہے کہ اس کے سینگ بھی نہیں جوکسی حد تک توحقوق کے حصول میں کام آسکتے ہیں لیکن اس معاملے میں بھی بیچارا عوام کالانعام پرگیا۔
ویسے پہلے زمانوں میں اس کے سینگ ہوا کرتے تھے لیکن پھریہ بات چلی کہ گدھا اگر گدھے سے کم گدھا ہو تواس کے سینگ کاٹنے چاہیے، اس لیے بیچارے گدھے اس سے محروم ہوگئے کیوں کہ اس زمانے میں ہر گدھا دوسرے گدھے سے کم گدھا ہوتا تھا، اس کے بعدجب سینگ جاتے رہے تواس کی عقل آئی لیکن اب کیا فائدہ؟ جب آرے کاٹ گئے سینگ۔
اس پیشمانی میں آج ہرگدھاچاہے کتنے بھی پیروں والاہوکوشش کرتا ہے کہ دوسرے گدھے سے زیادہ گدھا ہو اورانسان نے اس کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانا شروع کیا۔ ایک بات جس پرہمیں بہت خوشی اوراطمینان ہے کہ یہ گدھوں کے طفیل سہی چینیوں کوپاکستان پسندآیاہے اوراس سے ہمیں بہت فائدہ ہورہاہے، سوچئے کہ ہمارے ملک کے گدھے اگرنہ ہوتے توہم چینیوں کوکیسے پسند آتے؟
چلواچھاہوا کام آگئے ہیں ملک کے گدھے
وگرنہ ہم کسی کو دوست بنوانے کہاں جاتے