بھاشا ڈیم: سستی بجلی پیدا ہوگی
وزیراعظم عمران خان نے بھاشا ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کے تحفظ کو یقینی بنانا موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ ڈیمز کی تعمیر سے زرعی ضروریات کیلئے پانی کی دستیابی کے ساتھ ساتھ سستی بجلی کے حصول میں بھی مدد ملے گی۔ تعمیراتی کام میں مقامی سامان اور افرادی قوت کو ترجیح دی جائے۔ اس سے لوگوں کو روزگار کے بھی بڑے پیمانے پر مواقع ملیں گے۔
اس منصوبے کا بڑا مقصد پانی ذخیرہ کرنا اور 4500 میگاواٹ سستی ہائیڈل بجلی پیدا کرنا ہے جبکہ اس سے روزگار کے 16 ہزار پانچ سو مواقع پیدا ہونگے اور ملک میں سیمنٹ اور سٹیل کی صنعتوں کو بھی ترقی ملے گی۔ اس مجوزہ ڈیم میں 64 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہوگی جس سے ملک میں پانی کی موجودہ قلت 12 ملین ایکڑ فٹ سے کم ہو کر 6.1 ایکڑ فٹ رہ جائیگی۔ اسکے علاوہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے تربیلا ڈیم کی زندگی میں 35 سال کا اضافہ ہو جائیگا اور اس سے 12 لاکھ 20 ہزار ایکڑ زمین سیراب ہوگی۔ یہ ڈیم سیلاب کی روک تھام میں بھی مددگار ثابت ہوگا اور ہر سال سیلاب سے ہونیوالے اربوں روپے کے نقصان سے بھی لوگوں کو بچائے گا۔ ایک اور بات بھی اہم ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم جہاں تعمیر ہونے جا رہا ہے وہ بہت اہم جگہ بھی ہے اور یہ دریائے سندھ جہاں سے شروع ہوتا ہے اس کے بالکل قریب ہے۔ یہ علاقہ قراقرم ہائی وے سے چین کے ساتھ جا کر ملتا ہے۔ یہ علاقہ سی پیک کے لیے بھی بڑا اہم ہے۔ اس علاقہ میں جیسے ہی ڈیم بنانے کا اعلان ہوا اچانک وہاں دہشتگردی شروع ہو گئی۔ یہ ایک بہت اہم بات ہے اور سب لوگوں کو اس معاملے پر نظر رکھنی چاہئیے کہ یہ جو واقعات وہاں ہوئے ہیں ان واقعات کا تعلق ڈیم کی تعمیر کو
روکنے کی کوشش سے ہے۔ گلگت کے علاقہ میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے اعلان سے بعد سے ہی فائرنگ کے واقعات ہونا شروع ہو گئے۔ ان واقعات کو دیکھ کر چیف جسٹس نے بھی کہاکہ مجھے یہ کوئی سازش لگ رہی ہے کہ فوری طور پر وہاں گولیاں چلنا شروع ہو گئی ہیں۔ آخر یہ سازش ہے کیا؟ سازش یہ ہے کہ گلگت بلتستان کا وہ علاقہ جہاں دیامر بھاشا ڈیم بننے جا رہا ہے اس علاقے کو بھارت اپنا علاقہ کہتا ہے۔ حالانکہ یہ پاکستان کا علاقہ ہے لیکن بھارت یہاں ڈیم بننے نہیں دینا چاہتا۔ بھارت نے مختلف بین الاقوامی فورمز پر بھی بھاشا ڈیم کی مخالفت شروع کر دی ہے۔
ہمارے ملک میں جیسے جیسے توانائی کی کھپت بڑھی ہے اسکے پیش نظر نئے ڈیمز تعمیر کرکے ہی توانائی کی ضروریات پوری کی جا سکتی تھیں جبکہ نئے ڈیمز کی تعمیر تو کجا، پہلے سے موجودہ منگلا اور تربیلا ڈیم بھی سلٹ جمنے سے ناکارہ ہونے لگے چنانچہ ملک میں توانائی کے سنگین بحران کا آغاز ہوگیا جو ہنوز جاری ہے اور ملک کے عوام گزشتہ 20 سال سے بجلی کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی اذیت برداشت کررہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ نئے ڈیمز تعمیر کئے بغیر ہم لوگوں کو سستی بجلی فراہم کر سکتے ہیں نہ ملک کو توانائی اور پانی کی قلت کے بحرانوں سے نکال سکتے ہیں۔ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے ہی سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لے کر ملک میں نئے ڈیمز کی تعمیر کا خود بیڑہ اٹھایا تھا جس کیلئے انہوں نے مہمند اور بھاشا ڈیمز کی تعمیر کیلئے سپریم کورٹ میں فنڈ بھی قائم کیا جس میں اندرون اور بیرون ملک سے 12، ارب روپے سے زائد کی رقم جمع ہوئی۔ اگر ہم اپنی ضرورت کے دیگر ڈیم بالخصوص کالاباغ ڈیم تعمیر کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس سے نہ صرف ہم توانائی کے بحران سے باہر نکل آئینگے اور عوام کو سستی ہائیڈل بجلی وافر مقدار میں فراہم کرنے اور یہ بجلی برآمد کرنے کی بھی پوزیشن میں ہونگے بلکہ اس سے ہم اپنے دشمن بھارت کے پاکستان پر آبی دہشت گردی کے سازشی منصوبے کو بھی ناکام بنا دینگے۔
گزشتہ دو دہائیوں سے ہمیں توانائی کے جس سنگین بحران کا سامنا ہے اور پانی کی قلت کا مسئلہ بھی ہمارے لئے گھمبیر صورتحال پیدا کررہا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ نئے ڈیمز کی تعمیر پر توجہ نہ دینا ہے۔ اس کے برعکس بھارت نے 1960ء کے سندھ طاس معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے پاکستان کے حصے میں آنیوالے دریاؤں پر بھی دوسو کے قریب چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرلئے۔
نیلم جہلم آبی منصوبہ کی تکمیل سے نیشنل گرڈ کو 8 ارب یونٹ بجلی مہیا کرنے کا ہدف حاصل ہو گیا ہے۔ 969 میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے حامل نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے نیشنل گرڈ کو فراہم کی جانے والی بجلی کی اِس مقدار کی بدولت 80 ارب روپے کا ریونیو حاصل کیا ہے۔ نیلم جہلم پراجیکٹ نے یہ اہم ہدف جولائی اور اکتوبر 2019 کے دوران لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب سے بھارتی گولہ باری کے باوجود حاصل کیا۔ گولہ باری کے نتیجے میں پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی ورکرز کو ان کے تحفظ کے پیش نظر پراجیکٹ ایریا سے نکالنا پڑا۔
نیلم جہلم آبی منصوبہ بلا شبہ انجینئرنگ کا ایک شاہکار منصوبہ ہے۔ جو دشوار گزار پہاڑی علاقے میں تعمیر کیا گیا ہے۔ منصوبہ کا 90 فیصد حصہ زیرزمین تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے چار پیداواری یونٹ ہیں اور ہر یونٹ کی پیداواری صلاحیت 242 اعشاریہ 25 میگاواٹ ہے۔ منصوبے کے پہلے یونٹ سے اپریل 2018ء میں بجلی کی پیداوار شروع ہوئی تھی۔ چاروں یونٹ مکمل اور فعال ہونے کے بعد نیلم جہلم پراجیکٹ نے 14 اگست 2018ء کو پہلی بار اپنی پوری پیداواری صلاحیت کے مطابق 969 میگاواٹ بجلی پیدا کی۔