کیا واپسی ممکن ہے؟
ملک میں سیاسی معاملات جس شکستگی کی طرف پہنچ چکے ہیں، اس نے ملک کو ہر لحاظ سے پامال کر ڈالا ہے۔ جہاں تک معاشی عدم استحکام کا تعلق ہے وہ گزشتہ دو ڈھائی سال سے اس پاتال میں جا چکا ہے کہ عملی طور پر ملک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ قیامت یہ بھی ہے کہ ان ناگفتہ بہ معاملات سے باہر نکلنے کی تدبیر، نہ کسی ادارے کے پاس ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے پاس۔ ہرگز یہ نہیں عرض کروں گا کہ وطن عزیز کو واپس ترقی کی پٹڑی پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ مشکل کام ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ دنیا کے متعدد ممالک اس قیامت سے نکل کر اپنی تنزلی کو ترقی میں بدل چکے ہیں۔
ان میں جاپان، ویتنام، چین، بنگلہ دیش اور ہندوستان قابل ذکر ہیں۔ کسی مدبر سے بحث فرما لیجیے، آپ کو مشکلات تو ضرور بتائے گا مگر ان کا حل پوچھا جائے تو مکمل خاموشی معلوم پڑے گی۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی ہوئی نا امیدی کا ذکر نہیں کر رہا کیونکہ بہرحال سوشل میڈیا پر احساس ذمے داری کا مظاہر ہ نہیں کیا جاتا۔ لیکن موجودہ دور میں ابلاغ کا موثر ترین ہتھیار یہی ناقص سوشل میڈیا ہے۔ نہ اس کو بند کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ طرز حکمرانی میں سوشل میڈیا پر پابندی لگانا ناپختگی کی دلیل ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اکابرین حد درجہ غیر روائتی مسائل کو روایتی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس میں ناکام ٹھہرے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ایک معتبر پاکستانی سیاست دان تشریف لائے تو سیاسی باتوں میں مجھے مجبوراً الجھنا پڑا۔ پوچھا کہ موجودہ وزیراعظم کے سعودی عرب کے سرکاری دورے کے وہ عملی نتائج کیوں سامنے نہیں آئے جو کہ متوقع تھے اور جن کے لیے وعدے وعید بھی کیے گئے تھے۔ وہ شخص موجودہ سسٹم کے حد درجہ نزدیک ہے اور اندرون خانہ معاملات کو سمجھتا ہے۔
کھل کر کہنے لگا کہ سعودی عرب میں ہمارے وفد کی روایتی مہمان داری تو بھرپور طریقے سے کی گئی۔ مگر سعودی اکابرین نے دورے سے تھوڑا عرصہ پہلے جو معلومات ہمارے سیاسی نظام کے متعلق حاصل کی تھیں۔ ان کی روشنی میں انھیں موجودہ حکومت پر کسی قسم کا کوئی اعتماد نہیں تھا۔ بلکہ وہاں تو یہ سوچ پختہ ہو رہی تھی کہ اس حکومت کی جڑیں عوام میں موجود ہی نہیں ہیں۔ ان پر اعتماد کرنا قدرے مشکل ہے۔
اس انکشاف پر کافی حیرت ہوئی کیونکہ بہرحال یہ بات کرنے والا شخص موجودہ نظام میں حد درجہ اہم ہے۔ اب یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ جب ہمارے اکابرین ہر معاشی معاملہ پر مشکلات سے دو چار ہو رہے ہیں۔ تو پھر اس سسٹم کو برقرار رکھنا کس کے فائدے میں ہے۔ یہ عرض کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ہمارے عسکری معتبرین پوری قوت کے ساتھ، اس نااہل ٹیم کو کامیابی سے سرخرو کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن یاد رکھئے اپاہج انسان اولمپک کی سو میٹر ریس میں اول نہیں آ سکتا۔ امریکی ذرایع ابلاغ کے معتبر جریدے بار بار یہ لکھ رہے ہیں کہ یوکرین کی جنگ میں پاکستان یوکرین کی دفاعی مدد کر رہا ہے۔
یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور ہمیں بھیک کے طور پر چند کوڑیاں عطا کر رہی ہے۔ جس کی بدولت معاملات آہستہ آہستہ رینگ رہے ہیں۔ مگر اب امریکی سیاست دان بھی ہمارے ملک کی موجودہ صورتحال سے گھبرا گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، عدالتی نظام کا بکھرنا اورسیاسی معاملات خراب ہیں، امریکی نمایندگان کے لیے بھی آزار کا باعث ہے۔ جس کا اظہار امریکی سیاسی اداروں میں مختلف تحاریک کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ اس کا مطلب کیا ہوا کہ ہماری معاشی شہ رگ جو ناگفتہ بہ صورت حال میں ہے، مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔
دوبارہ عرض کروں گا کہ ہمارے ملک میں کسی سیاست دان میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ وہ اس غیرمعمولی صورتحال سے نبٹ سکے۔ سیاسی اور غیر سیاسی معززین کو اس سارے معاملے کا بخوبی ادراک ہے۔ پاکستان تو فقیر بن چکا ہے مگر غیر ملکی امداد حاصل نا ہونے کا غصہ عوام کے اوپر نکالا جا رہا ہے۔ راولپنڈی کے ایک مشہور سیاست دان نے عید کے تین روز، مسلسل انٹرویوز میں ریاستی جبر کی بھرپور حکایت پیش کر دی ہے۔ یہ تمام انٹرویوز ہر سطح پر دیکھے گئے ہیں۔
میرا کسی سیاسی جماعت یا مذہبی گروہ کی طرف میلان نہیں۔ خان صاحب کے دور میں ان کی پالیسیوں کے خلاف لکھتا رہا ہوں۔ یہ نقطہ شعوری طور پر سمجھا جا چکا ہے کہ ناقص ترین وفاقی کابینہ اور کرپٹ ترین وزراء اعلیٰ اور ان کی ٹیم نے عمران خان کو ناقابل تلافی سیاسی نقصان پہنچایا ہے۔ یہ تو خوش قسمتی ہے جو اسے حکومت سے باہر نکال دیا گیا۔ جس کی بدولت وہ سیاسی طور پر حد درجے مضبوط ہوگیا ہے۔ اگر خان صاحب کی حکومت مسلسل پانچ سال چلتی رہتی تو 2024کے الیکشن میں وہ دس بارہ سیٹوں کے سوا حاصل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا۔
پر جن لوگوں کو ملک کی گردن پر سوار کیا گیا، ان کے سامنے خان صاحب اور ان کی تمام غلطیاں ماند پڑ گئیں۔ آج آپ کسی سے پوچھیں وہ آپ کو عمران خان کے زمانے کا کوئی بھی نقص نہیں بتائے گا۔
بلکہ اس کے متضاد پی ٹی آئی سے ناروا سلوک کی بات کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ سندھ کے ایک سیاسی لیڈر نے سچی بات کی تھی کہ عمران خان کو حکومت سے باہر کرنا، اس کے لیے خوش قسمت ترین لمحہ بن چکا ہے۔ آج وہ سیاسی دیو بن چکا ہے۔ اس کلیے کو نہیں مانتا کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ بلکہ یہ عرض کروں گا کہ ہر سیاست دان کی ذاتی تاریخ میں، اپنی غلطیاں اور اپنی اچھائیاں شامل ہوتی ہیں۔ موجودہ حکومت کے اہم وزراء کا یہ کہنا کہ وہ تو حکومت لینا ہی نہیں چاہتے تھے۔
سیاست دانوں کا اچھا یا برا ایجنڈا جو بھی ہو، اس کو شرمندہ تعبیر کرنا صرف اور صرف بیوروکریسی کی ذمے داری ہوتی ہے۔ پنجاب کی بیوروکریسی ہی وفاقی سطح پر اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ بات جاننے والے بخوبی سمجھتے ہیں۔ مگر اب بیوروکریسی سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہو چکی ہے۔ اس میں ہر طرح کے گروہ بن چکے ہیں۔ جن کا اچھی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ موجودہ بیوروکریسی میں علاقائی بنیادوں پر بھی تفریق نظر آتی ہے۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے افسران کسی صورت میں پنجاب میں نہیں آنا چاہتے۔ اور وہ بابو جن کا تعلق پنجاب سے ہے وہ اپنی جگہ سے ہلنا نہیں چاہتے۔
اس کمزوری کا فائدہ سیاست دانوں نے اٹھایا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کا رویہ یہی رہا ہے کہ وہ دو چار بابوؤں کو اپنے حلقہ ارادت میں شامل کر لیتے ہیں اور اس کے بعد انھیں کے ذریعے دیگر سرکاری ملازمین سے کام لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ پینتیس سالہ پرانی پالیسی بھی فیل ہو چکی ہے۔
جوہری معاملہ یہ بھی ہے کہ اب ادارے سینئر بابوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں اور انھیں من مانی نہیں کرنے دی جاتی۔ مگر پھر بھی تجربہ کار اور جہاندیدہ بابو کہیں نہ کہیں نقب زنی میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس کا مداوا کسی کے پاس نہیں ہے۔ لوگ، سیاستدانوں کی بیرون ملک جائیدادوں کا ذکر تو کرتے ہیں مگر سرکاری بابو بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔
ان کے مالی مفاد بھی تمام براعظموں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ آج سے چالیس سال پہلے کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بیوورکریٹ آج مالیاتی طور پر جن بن چکے ہیں۔ اب انھوں نے اپنی مرضی کی سیاسی چھتری کی چھاؤں میں زندہ رہنا سیکھ لیا ہے۔ جب ادارے، سیاست دان اور بیوروکریسی عملی طور پر غیر فعال ہو جائیں تو ملک کا کیا مستقبل ہوگا۔ اس کا جواب ڈھونڈنا بالکل مشکل نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ مہلت ختم ہو چکی ہے۔ اگلے معاملات پر کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔