خفیہ معاہدے ملک کھا جاتے ہیں
1491 فرڈینینڈ اپنی کامل قوت اور قلعہ شکن توپ خانے کے ساتھ غرناطہ کے سرسبزو شاداب شہروں اور دیہاتوں کو تاراج کرتا ہوا، قلعہ کے سامنے نمودار ہوا۔
چونکہ غرناطہ کے عقب میں جبل البشارات واقع تھالہٰذا فرڈینینڈ پورا محاصرہ نہ کر سکا مگر جب موسم سرما شروع ہوا اور برف باری نے پہاڑی راستے بند کر دیے، غلے کی قلت ہوئی، تو عرب لوگ سخت سردی اور برف باری کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں البشارات کی طرف ہجرت کر گئے۔ جو قلعہ میں رہ گئے انھوں نے سلطان سے عرض کی: "فاقوں مرنے کے بجائے ہم لڑکر مرنا پسند کرتے ہیں، گودشمن تعداد میں زیادہ ہیں لیکن ہمارے حوصلے بلند ہیں، صرف تائید الٰہی ہمارے شامل حال رہنا چاہیے۔
سلطان ابو عبداللہ محمد نے اپنے وزراء اور امرائے سلطنت سے مشورہ کیا۔ سب کی یہی رائے تھی کہ " اگر جنگ میں ناکام ہوئے تو کافر ایک مسلمان کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گے، بہتر یہ ہوگا کہ ایسی شرائط پر صلح کی جائے جس سے مسلمانوں کے جان و مال کو نقصان نہ پہنچے"۔ سلطان نے اس رائے سے اتفاق کیا، اور ابوالقاسم عبدالملک کے ذریعے سے فرڈینینڈ کو صلح کا پیغام بھیجا۔ نتیجتاً 1492کے اوائل میں صلح نامہ پر دستخط ہو گئے۔
ادھر مسلمان رعایا جنگ پر اصرار کر رہی تھی، لہٰذا معاہدے کو انتہائی خفیہ رکھا گیا۔ اس خفیہ معاہدے کے تحت غرناطہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کے کنٹرول سے نکل گیا۔
مسلمانوں کا آپس میں نفاق، دشمنوں کا یکسوئی سے اسپین پر جارحیت، رعایا کی مایوسی، حکمرانوں کی کمزوری اور بزدلی نے اسپین پر آٹھ سو برس قدیم مسلم اقتدار کا خاتمہ کردیا۔ یہ زخم آج بھی تازہ ہے۔ مگر اب کچھ بھی نہیں کیاجا سکتا۔ آج سے چھ سو برس پہلے کی تاریخی حقیقت آج نئے انداز سے ہمارے سامنے ہے۔ اور اس پر کسی قسم کی غیر متعصب بحث ممکن نہیں۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دنیا بھر مسلمانوں کی موجودہ تعداد ڈیڑھ ارب سے زیادہ ہے۔ پچاس سے زیادہ مسلم ممالک کراہ ارض پر موجود ہیں۔ مگر ان میں سے ایک ملک بھی اتنا طاقتور نہیں کہ عالمی طاقتوں کے جائز یا ناجائز تسلط سے آزاد ہو۔ کسی مسلمان حکمران میں اتنا دم نہیں کہ اپنے عوام کی حقیقی ترقی کو فروغ دے سکے۔
یہ درست ہے کہ مشرق وسطی اور خلیجی عرب بادشاہتوں نے اپنے لوگوں کو خوشحال بنایا ہے لیکن ان میں سے ایک ملک بھی جدید علوم، انسانی حقوق، آزادی اظہار اور جمہوری نظام کا حامل نہیں ہے۔ شاہی خاندان، جو سلطنت برطانیہ کے لگائے ہوئے پودے ہیں، اب تک راج کر رہے ہیں، کسی میرٹ کے بغیر۔ مگر ایک حیرت انگیز بات اور بھی ہے۔ وہ اصل معاہدے جو تاج برطانیہ اور چند مسلم خاندانوں کے درمیان طے پائے تھے، تاحال خفیہ ہیں۔ یعنی لوگوں کو آج تک یہ معلوم نہیں کہ ان ممالک میں سات دہائیوں سے مسلط حکمران خاندان کیسے اقتدار پر قابض ہوئے۔
پاکستان میں بھی خفیہ معاہدے قیامت ڈھاتے آرہے ہیں۔ قیام پاکستان سے تین چار برس پہلے سے لے کر ساٹھ کی دہائی تک کے کئی معاہدوں کی اصلیت تاحال سامنے نہیں آئی۔ قیام پاکستان کے بعد برسراقتدار آنے والے حکمرانوں نے بھی اپنی دولت کو قوم سے خفیہ رکھا۔ حالیہ صورت حال بھی ایسی ہی ہے۔
اندازہ کیجیے، پاناما لیکس نے دنیا کے حکمرانوں کے جرائم، مالی کرپشن، دولت کے متعلق وہ معلومات فراہم کیں جو مکمل طور پر خفیہ تھیں، پاکستانی عوام پہلی بار آف شور کمپنیوں کے سیکریٹ نظام کے بارے میں علم ہوا، انھیں پہلی بار پتہ چلا کہ ہمارے حکمران جن میں وزراء اعظم، صدر، ریٹائر جنرلز، کئی سیاسی اور غیر سیاسی کردار اپنی ناجائز دولت کماتے ہیں اور پھر کس طرح چھاتے ہیں۔ پاناما لیکس صرف ایک معمولی سی مثال ہے۔
مجھے صرف اور صرف اپنے ملک کی فکر ہے۔ ذہن میں متعدد سوالات ہیں، جن کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ وطن سے محبت میرے خون کے ہر قطرے میں شامل ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ میں پاکستان کی زبوں حالی کی بنیادی وجوہات تلاش کرنے کی کوشش کروں، یہ کوشش چاہے کامیاب ہو یا ناکام لیکن کوشش ضرور کررہا ہوں۔ جہاں تک ریاستی اداروں کا تعلق ہے، طالب علم انھیں ہمیشہ مضبوط تر دیکھنا چاہتا ہے۔ مگر میں کیا کروں، کہ میں صرف ادب ہی کاخوگر نہیں بلکہ ایک تجزیاتی ذہن رکھتا ہوں۔
جو بہرحال حقیقت کو جاننے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ غور فرمایئے۔ ہندوستان کے وزیراعظم کا ہنس کر یہ کہنا کہ" پاکستان اپنے بوجھ تلے دب کر ختم ہو جائے گا۔ ہمیں تو کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں"۔ پھر دشمن ملک کے وزیر خارجہ کا ایک انٹرویو کے دوران یہ کہنا "پاکستان ایک دیوالیہ کمپنی کی مانند ہے اور دیوالیہ کمپنی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی"۔
ان جملوں پر غصہ کیا جا سکتا ہے، گریہ بھی روا رکھا جا سکتا ہے۔ مگر کیا یہ فقرے ہمارے ملک کی حقیقت کو برہنہ نہیں کر رہے؟ کیا موجودہ حالات میں ہم ایک دیوالیہ ملک نہیں ہیں؟ جس کا اقتصادی نظام عالمی مالیاتی ادارے چلارہے ہیں۔ باتیں حد درجہ تلخ ہیں، بلکہ مقام عبرت کا درجہ رکھتی ہیں۔ کہ دیکھو، اگر بہترین ملک پر بھی نااہلوں کی حکمرانی ہوگی تو حالات پاکستان جیسے ہو جائیں گے۔
ہمارے ملک میں خفیہ معاہدوں کی ایک تاریخ ہے جو عوام دشمنی پر مبنی ہیں۔ ماضی میں جھانکیے۔ 1965 تک پاکستان ترقی کر رہا تھا۔ پھر سترہ دن کی جنگ ہوئی۔ تاشقند میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان معاہدہ ہوا۔ یوں ایک بے مقصد جنگ تو ختم ہوگئی لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود رہا کہ تاشقند معاہدہ تھا کیا، معاہدے کی جس دستاویز پر ہمارے صدر جنرل ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم لال بہادر شاستری نے دستخط کیے تھے، اس کی شرائط کیا تھیں؟ کسی کو کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔
اس پر اسرار معاہدے کو بھٹو جیسے شاطر سیاستدان نے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ معاہدے کے چھپے ہوئے امور سامنے لانے کے سیاسی نعرے لگاتا رہا۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ "تاشقند معاہدہ"آج بھی کسی ایسی الماری میں بند ہے جس تک عوام کی کوئی رسائی نہیں۔ دیکھا جائے تو ہماری اقتصادی ترقی کو بڑا دھچکہ 1965 کی جنگ اور معاہدہ تاشقند کی وجہ سے پہنچا۔
معاملات کو زیادہ تلخی کی طرف نہیں لے جانا چاہتا، عمران خان اور جنرل باجوہ کس سمجھوتے کے تحت اقتدار کے شراکت دار ہوئے تھے۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ نواز شریف کو کس خفیہ تحریری یا غیر تحریری معاہدے کے تحت جلاوطن کیا گیا۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں۔ اب نواز شریف اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے چوتھی بار وزیراعظم بننے کے لیے کن شرائط پر واپس آ رہے ہیں، کسی کو معلوم نہیں۔ یہ CPEC ہے جس کی بدولت، پاکستان نے تمام مغربی قوتوں کو اپنا مخالف بنا لیا ہے۔
دراصل ہے کیا؟ کسی کوبھی جزئیات معلوم نہیں۔ ابھی تک اہل قلم کو یہ معلوم نہیں کہ اگر ایک سامان سے لدا ہوا ٹرالا، چین سے پاکستان کی سڑکوں پر اس معاہدے کے تحت، گزرے گا تو ہمارے ملک کوکتنا معاوضہ ملے گا؟ کسی بھی بزرجمر نے اس پر بات نہیں کی۔ شہبار شریف فرماتے ہیں کہ انھوں نے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر سی پیک کے تحت قائم کیے۔
کیا کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے کہ حضور! ہمارے بہترین زرعی رقبے کو برباد کر دیا گیا ہے، پھر ذرا یہ بھی بتا دیجیے، کیا یہ قرض ہے؟ اس کی کیا شرائط ہیں؟ اگر یہ امداد ہے یعنی گرانٹ ہے تو اس سے ہماری معاشی ترقی کے کون سے اہداف پورے ہوں گے؟ اس طرح IPP کے معاہدے جنھوں نے ہمارے ملک کے لوگوں کو برباد کرکے رکھ ڈالا، اور حکمران طبقے کو ڈالروں میں ارب پتی بنا دیا۔ یہ معاہدے کیوں پر اسراریت اور راز کے دبیر پردے میں چھپے ہوئے ہیں؟
عرض کروں گا کہ حکمران، اپنے عوام سے ہمیشہ وہ چیز چھپاتے ہیں۔ جوان کے اجتماعی مفادات کے خلاف ہو اورمقتدر طبقے کے ذاتی مفاد میں ہو۔ مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ اسپین کے آخری بادشاہ سلطان ابو عبداللہ اگر خفیہ معاہدے کرکے ذلت و رسوائی سے نہیں بچ سکا۔ تو ہمارا مقتدر طبقہ قدرت کے فطری انتقام سے کس طرح بچ پائے گا۔
دراصل ہمارے حکمران اس درجہ ادنیٰ اور کوتاہ اندیش ہیں کہ یہ اپنے مفادات کو بچانے کے لیے ملک کو تباہی کے کنارے پہنچا دینے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ مگر نہ اسپین میں مسلمانوں کی شاندار ترین حکومت اور مسلم حکمران اشرافیہ کی بربادی کو روکا جا سکا اور نہ آج پاکستان کے عوام کی آنکھوں میں اترے ہوئے خون سے کوئی مفر حاصل کر سکتا ہے۔
تقدیر کے قاضی کا آفاقی فتویٰ اٹل ہوتا ہے اور کوئی اسے تبدیل نہیں کرا سکتا۔ سب کچھ قدرتی انصاف کی طرف جاتا ہوا نظر آ رہا ہے!