شکار اور آسیب
سید حشمت سہیل کو شکار سے بہت دلچسپی ہے۔ انھوں نے بہت شکارکھیلا ہے اور شکاریات پر کہانیاں بھی بہت پڑھی ہیں۔ کچھ کہانیوں کا انھوں نے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے اور یہ شایع ہوئی ہیں۔ ان کی لکھی شکارکی کہانیوں کا جو مجموعہ راشد اشرف نے اپنے زندہ کتابوں کے سلسلے میں شایع کیا ہے اس کا عنوان حشمت سہیل نے "شکار اور آسیب" رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شکار کے معاملے میں ہر شکاری تواہم پرست ہوتا ہے۔ شکاری کی آسیب سے مڈبھیڑ ہوتی ہے اور اس سے بچ کر ہی وہ کامیاب ہوتا ہے۔
آسیب سے مڈ بھیڑکا جو واقعہ حشمت کے ساتھ پیش آیا وہ اس کتاب میں شامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
"میں اپنے گاؤں سے دس میل دور ایک دوسرے گاؤں مغلانی پور سائیکل سے جا رہا تھا۔ میرے ایک دوست نے آموں کی دعوت دی تھی۔ ارادہ دوچار دن گھومیں پھریں گے، گپیں لگائیں گے، آم کھائیں گے، شکار کھیلیں گے اور واپس آجائیں گے۔
" تیسرے پہر جب سورج کی تپش کم ہو رہی تھی، میں سائیکل لے کرگھر سے نکلا۔ اتفاق سے وہ نوچندی جمعرات تھی، یعنی چاند نکلنے کے بعد پہلی جمعرات جس میں ہمارے دیہاتوں کی داستانوں کے مطابق بد روحیں ہر طرف پروازکرتی ہیں، اگر آپ ان کی لپیٹ میں آگئے تو آپ کا خدا ہی حافظ ہے۔ مجھ کو بھی لوگوں نے روکا مگر میں نے کہا مجھ سے بڑا بھوت اورکون ہوگا، اور روانہ ہوگیا۔ آٹھ میل پر ہندو ٹھاکروں کا گاؤں سمرہا ہے۔ اس کے بعد دو میل ویرانہ ہے جس میں کانٹے دار جھاڑیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ پھر مغلانی پور کے قریب کھیت اور باغات ہیں۔ سمرہا گاؤں کے نزدیک پہنچتے ہی سائیکل جواب دے گئی۔
پہیے میں کوئی کانٹا لگ گیا۔ گاؤں کے کنارے ایک حلوائی کی دکان تھی اور وہیں سائیکل پنکچر بنانے والے کی دکان تھی۔ میں نے سائیکل اسے تھمائی اور بینچ پر بیٹھ گیا۔ دیہاتوں میں سائیکل کے پنکچر بنانے میں کافی وقت لگتا ہے۔ پہلے وہ پہیے سے ٹیوب نکالے گا، اس میں ہاتھ کے پمپ سے ہوا بھرے گا، پھر پانی کے تسلے میں ٹیوب کو ڈبوکر دیکھے گا کہ کہاں سے بلبلے اٹھ رہے ہیں۔ پھر ہوا نکال کر سلوشن سے ربڑکا ٹکڑا اس جگہ چپکائے گا۔ پھر ہوا بھر کر تسلے کے پانی میں ڈبو کر دیکھے گا کہ اب کہیں اور سے تو ہوا نہیں نکل رہی۔ جب اطمینان ہوجائے گا تو پھر ہوا نکال کر ٹیوب کو ٹائر کے اندر رکھے گا اور ہوا بھرے گا۔ لیجیے سائیکل تیار ہوگئی۔ اتنی دیر میں سورج ڈوبنے والا ہی تھا۔
"وہاں کچھ اور لوگ بھی بیٹھے تھے اور جیساکہ دیہاتیوں کا قاعدہ ہے مجھ سے پوچھنے لگے، بھیا کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا، مغلانی پور۔ ان میں سے ایک دو بولے بھیا، اندھیرا ہو رہا ہے۔ راستہ خراب ہے۔ بہتر ہوگا، حلوائی سے پوری اور ترکاری لے کر پیٹ بھر لو۔ ہم لوگ یہیں ہوتے ہیں۔ تم کو بھی ایک چارپائی دے دیں گے۔ تم بھی سو جاؤ۔ صبح اٹھ کر چلے جانا۔ میں نے کہا، نہیں نہیں۔ مجھے آج ہی جانا ہے۔ ایک نے ہنس کر کہا، بھیا! سنبھل کر جانا۔ راستے میں ایک چڑیل، بچے کوگود میں لیے مل جاتی ہے۔ کئی کو نوچ چکی ہے۔ اس راستے پر رات کوکوئی اکیلا نہیں جاتا اور آج تو ویسے بھی نوچندی جمعرات ہے۔ آج تو بہت خطرہ ہے۔ میں نے اکڑتے ہوئے کہا" میں چڑیلوں، بھوتوں سے نہیں ڈرتا، دیکھا جائے گا" ایک نے کہا" بھیا! یہ مسلمان ہیں، بھوت پریت سے نہیں ڈرتے۔ " ان کو عمل بھی آتے ہیں۔ میرا سینہ فخر سے پھول گیا اور میں سائیکل لے کر چل دیا۔
کانٹے دار جھاڑیوں کا سلسلہ دور تک پھیلا ہوا تھا جن کے درمیان سے ہوتی ہوئی ایک ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی چلی گئی تھی۔ میں نے تقریباً آدھا راستہ طے کیا ہوگا پہلے تو کسی نے پیٹھ پر ہلکے سے تھپکی دی۔ سارے جسم کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے، لیکن دیکھا کہ ایک چمگادڑ ٹچک ٹچک گرتی گزرگئی۔ پھر ایک موڑ پر سائیکل کو جیسے کسی نے پکڑ کر روک لیا ہو۔ میرے سارے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی، لیکن دیکھا تو معلوم ہوا کہ پچھلا پہیہ کسی جھاڑی میں پھنس گیا تھا۔ خیر اور آگے بڑھے کہ اچانک کسی بچے کے رونے کی آواز کانوں میں آئی۔ آگے دیکھا کہ راستے سے کچھ ہٹ کر جھاڑیوں کے پاس ایک عورت میلے کچیلے کپڑے پہنے گود میں بچے کو لیے کھڑی ہے۔ اس نے منمناتی آواز میں کہا، بھیا کون ہو، کہاں جاتے ہو؟
مجھے نہ جانے کیا ہوا کہ بھاگنے کی بجائے میں نے اچانک سائیکل کو بریک لگا دیے اور زمین پر پیر ٹکا کر کھڑا ہوگیا۔ بہادری کے جتنے دعوے تھے ہوا ہوگئے، حلق سوکھ گیا، ہاتھ پاؤں سنسنانے لگے۔ میں نے ہکلاتے ہوئے کہا" میں مغلانی پور جا رہا ہوں " وہ بولی" میں بھی وہیں جا رہی ہوں، اگر پیدل چلو تو میں بھی ساتھ چلوں " میں خدا جانے اس وقت کس اثر میں تھا، سائیکل سے اتر کر پیدل ہوگیا۔ آگے میں اور پیچھے وہ عورت۔ کبھی بچہ روئے تو اسے چپ کرانے لگے۔ میں ہر قدم پر ڈر رہا تھا کہ اب وہ چڑیل میری گردن پر پنجہ مارنے والی ہے، اب وہ نوچنے والی ہے۔ ڈر کے مارے میرے سارے بدن سے پسینہ پھوٹ رہا تھا۔ بعد میں، میں نے اپنی مزاحیہ شاعری کی کتاب "کرن کرن تبسم" میں ایک طول نظم "ایک چڑیل سے مڈبھیڑ" لکھی ہے:
عورت کہاں تھی وہ تو مجسم عذاب تھی
انسان ڈر کے جاگ پڑے ایسا خواب تھی
آنکھیں تھیں جیسے خون کے پیالے بھرے ہوئے
زلفیں تھیں جیسے سانپ کے پھن ہوں کھڑے ہوئے
مغلانی پور پہنچتے پہنچتے صدیاں گزر گئیں۔ جب گاؤں کے کتوں نے بھونکنا شروع کیا تو میری جان میں جان آئی۔ گاؤں سے باہر چمار پاسیوں کے گھر اور جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں جن کے باہر چارپائیوں پر اور زمین پر لوگ لیٹے، بیٹھے تھے، بچے کھیل رہے تھے۔ وہ چڑیل اب بھی میرے پیچھے لگی ہوئی تھی۔ پھر وہ ایک جھونپڑی کی طرف مڑگئی۔ وہاں ایک بڈھا چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا، اری کمینیا! تو کیسے آگئی؟ وہ بولی" اماں کی طبیعت کا سنا تو جی نہیں مانا۔ سب بچوں کو باپ کے پاس چھوڑا۔ صرف منے کو گود میں لیا اور چلی آئی۔ راستے میں منے کو بھوک لگی تو وہیں بیٹھ گئی۔ اتنے میں دیکھا کہ یہ بھیا جا رہے ہیں تو ان کو روک لیا اور ساتھ ہی چلی آئی۔ "
"میں چکرا کر زمین پر بیٹھ گیا۔ ارے یہ تو اس گاؤں کی لڑکی تھی، چڑیل نہیں تھی۔ اگر میں اس کے روکنے سے نہ رکتا اور بھاگ کھڑا ہوتا تو آج قسمیں کھا کھا کر کہتا کہ ہاں چڑیلیں ہوتی ہیں۔ میں نے خود دیکھی ہیں۔ "