باتیں کچھ ادبی، کچھ بے ادبی
سید ضمیر جعفری کے فرزند ارجمند جنرل احتشام ضمیر جب گورڈن کالج میں پڑھتے تھے تو ان کو سگریٹ نوشی کی لت پڑگئی۔ گھر میں سگریٹ پینے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا مگر ان کے ابا جان کو کسی طرح پتا چل گیا کہ صاحبزادے سگریٹ سے شوق فرمانے لگے ہیں۔
ایک دن صبح سویرے جب یہ کالج جانے کے لیے گھر سے نکلنے لگے تو ان کے ابو نے گولڈ لیف کی ایک ڈبیا جو غالباً وہ ایوان صدر سے لائے تھے کیونکہ اس پر پریزیڈنٹ ہاؤس کا نشان بنا ہوا تھا ان کی طرف بڑھا دی یہ کہہ کر کہ یہ لو۔ انھوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "ابو! سگریٹ کی ڈبیا۔ میں بھلا اس کا کیا کروں گا۔" وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے "اپنے پرنسپل کو دے دینا۔"
احمد ندیم قاسمی نے جب بی اے کرلیا تو ان کے چچا نے انھیں محکمہ آب کاری میں سب انسپکٹر لگوا دیا مگر افیون اور شراب کے ٹھیکیداروں سے معاملات طے کرنے والی یہ ملازمت انھیں پسند نہ آئی اور انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ اختر شیرانی نے انھیں بے روزگار دیکھ کر قیام و طعام کا انتظام کردیا اور مولانا عبدالمجید سالک سے ملوا دیا۔
سالک صاحب نے انھیں اپنے رسالہ تہذیب نسواں کا ایڈیٹر بنا دیا۔ جمیل یوسف نے ایک مرتبہ احمد ندیم قاسمی سے پوچھا "ندیم صاحب! اختر شیرانی نے آپ کے قیام و طعام اور کام کا تو بندوبست کردیا، جام کا کوئی اہتمام نہ کیا اور کیا اختر شیرانی نے آپ کو شراب نوشی کی طرف کبھی مائل نہیں کیا؟ " ندیم نے کہا "نہیں، وہ ایسا کبھی نہیں کرتے تھے۔ وہ دوسروں کو ہمیشہ شراب سے دور رہنے کی نصیحت کیا کرتے تھے۔"
جمیل یوسف اپنی کتاب "باتیں کچھ ادبی، کچھ بے ادبی کی" میں لکھتے ہیں کہ احمد ندیم قاسمی کی زندگی میں سب سے زیادہ عمل دخل ان کی والدہ کی تربیت کا تھا۔ جنھوں نے انتہائی عسرت اور تنگ دستی میں بھی اپنی اولاد کے اندر خود اعتمادی، بے نیازی اور سر چشمی کی عجیب سی سرشاری پیدا کردی تھی، کسی چیزکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کو جی ہی نہ چاہتا تھا۔
حفیظ جالندھری کا ذکرکرتے ہوئے جمیل یوسف لکھتے ہیں "1951-52 میں، میں نے شاہنامۂ اسلام کچھ اس ذوق شوق سے پڑھا کہ اس کے بیشتر اشعار مجھے زبانی یاد ہوگئے۔ اچھے کلام کی خوبی یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ آپ کو ازبر ہو جائے۔ اردو میں شاید ہی کوئی دوسرا شاعر ایسا ہو جس نے مثنوی، غزل، نظم اور گیت میں یکساں طور پر اپنے کمال کا اظہار کیا ہو۔ حفیظ کی شاعری میں جو موسیقیت اور آہنگ ہے وہ اس کے کلام میں ہر جگہ نمایاں ہے چاہے وہ شاہنامۂ اسلام ہو، چاہے اس کی نظمیں، غزلیں اور گیت ہوں۔"
"باقی صدیقی۔ ایک ناقابل فراموش شاعر" کے عنوان سے جمیل یوسف لکھتے ہیں کہ باقی صدیقی کے تخلص سے ہی اس امرکی نشان دہی ہوتی ہے کہ اس کا نام اورکلام باقی رہے گا اور جوں جوں اہل ذوق اسے پڑھیں گے اور اہل نظر اس کا لیں گے اس کے فن کی سچائی ان پر منکشف ہوتی چلی جائے گی۔ جس طرح کسی موتی کا سچا ہونا اور سونے کا خالص ہونا اس کی قدروقیمت کا تعین کرتا ہے، اسی طرح فن کی صداقت ہی کسی فنکارکی عظمت کی سب سے بڑی دلیل بنتی ہے۔ باقی جب صبح کو اپنے گاؤں سے سائیکل پر شہر جانے کے لیے نکلتا تو اپنے آپ سے باتیں کرنے کے لیے تخلیق شعرکا راستہ اختیارکرتا۔ یہ عمل واپسی میں بھی جاری رہتا۔ اس کی اکثر غزلیں اسی سفرکی تنہائی میں ہوئیں۔
داغ دل کے ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیے جلانے لگے
جمیل یوسف لکھتے ہیں "باقی صدیقی کا فن گاؤں کی سجیلی صبحوں کی طرح سادہ، تروتازہ، پاک پوتر ہے۔ سادگی بیان اور سیدھا سادہ انداز باقی کا امتیازی وصف ہے۔ غالباً اسی لیے اس کی بیشتر غزلیں چھوٹی بحروں میں ہیں۔
جمیل یوسف نے اپنی کتاب میں اس سوال کا بھی جواب دیا ہے کہ " میں کیوں لکھتا ہوں " وہ فرماتے ہیں "میرے نزدیک اس سوال کا مختصر ترین مگر جامع جواب تو یہ ہے کہ میں اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے خود اپنی معرفت حاصل ہو۔ جتنی دیر میں لکھنے کے عمل میں مصروف رہتا ہوں اتنی دیر میری ملاقات خود اپنے آپ سے رہتی ہے۔
ایک ادیب اور شاعر کے لیے لکھنے کا عمل ایسا تجربہ ہے جس کے دوران صحیح معنوں میں اس کی ملاقات اپنے آپ سے ہوتی ہے۔ اس گہری اور پراسرار واردات کو بیان کرنے کے لیے آپ یوں کہہ لیجیے کہ ایک ادیب اور شاعر خود اپنے تخلیقی عمل سے اپنی ذات کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ اپنی ذات کی معرفت کے حصول کا یہ عمل اپنے اندر کچھ ایسی لذت رکھتا ہے کہ ایک سچا ادیب اور شاعر بار بار تخلیقی عمل کے اس تجربے سے گزرنا چاہتا ہے۔ اس طرح اسے اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔
ڈیکارٹ نے کہا تھا کہ "میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔" اسی طرح میں جب لکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میں فنکارکو جو معرفت ذات حاصل ہوتی ہے وہ معرفت حق ہے۔ اسی معرفت حق کے کسی مرحلے میں منصور نے اناالحق کا نعرہ بلند کیا تھا۔
جمیل یوسف کی کتاب میں عمرخیام پر ایک طویل مضمون شامل ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں " عمر خیام نے اپنی رباعیات میں جو مضامین بیان کیے ہیں اور جن مطالیب کا اظہار کیا ہے وہ ایسے ہیں کہ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے انسانی ذہن کو جھنجھوڑتے رہے ہیں۔ ہر دور میں انسانی ذہن ان مسائل میں الجھا رہا ہے اور جو سوالات ان مضامین میں اٹھائے گئے ہیں ان کا تسلی بخش جواب ڈھونڈنے کی کوشش سرگرداں رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رباعیاتِ عمر خیام میں قاری کی دلچسپی کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔
"سرسید اور اردو ادب" کے عنوان سے جمیل یوسف لکھتے ہیں "بڑے ادب پارے کی ایک خصوصیت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ قاری کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اس کے مطالعے کے بعد آپ وہ نہیں رہتے جو اس کے مطالعے سے پہلے تھے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ سرسید کی تحریریں بڑا ادب پارہ ہیں یا نہیں مگر یہ خصوصیت ان میں ضرور موجود ہے کہ وہ آپ کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیتی ہیں، آپ کے فکر و عمل میں انقلاب برپا کردیتی ہیں اور آپ اصلاح احوال کے راستے پر گامزن ہو جاتے ہیں۔
سرسید کی تصنیف و تالیف کا یہی مقصد تھا۔ اس طرح دیکھا جائے تو سرسید احمد خان اردو ادب میں وہ پہلے قلم کار ہیں جنھوں نے شعوری کوشش سے مقصدی ادب تخلیق کیا۔ اس مقصدی ادب کا اسلوب وعظ و نصیحت کا نہیں بلکہ اپنے مزاج کے لحاظ سے ان کی تحریریں خالص علمی اور ادبی تحریریں ہیں جن میں سیدھے سادھے بے تکلف انداز میں دلیلوں اور منطق سے کام لے کر قاری کے دل ودماغ کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ ایسا اسلوب ہے جس کا پڑھنے والے پر فوری اثر ہوتا ہے اور وہ سوچنے میں لگ جاتا ہے۔ سرسید جوکچھ کہتے تھے اپنے دل کی گہرائیوں سے کہتے تھے اس لیے ان کے اسلوب میں کسی قسم کی سجاوٹ یا بناوٹ نہ تھی۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا قاری لطفِ بیان کی لذت میں گم ہوکر رہ جائے، ان کا منشا یہ تھا کہ وہ جو کچھ پڑھے اس پر غور کرے۔ سرسید نے شعوری طور پر اس اسلوب کو اپنایا تھا۔