آفات، خرابی کی اصل جڑ
کیا اس ملک میں سیلاب، طوفان، زلزلے اور آفتیں اب آنا شروع ہوئی ہیں؟ ، ہر گز نہیں، شروع دن سے ہی فطرت کا یہ کھیل جاری ہے۔ لیکن گذشتہ چالیس سال سے ہمارے ہاں ہر آفت کے دوران ایک ہیرو اور ایک وِلن ضرور جنم لے رہا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ ان گذشتہ چالیس سالوں سے عوام اور میڈیا نے جسے ہیرو قرار دیا، جس کی تعریف میں رطب اللسان رہے اسی کی شہرت کی طلب کی وجہ سے ملک میں سیلاب، طوفان، زلزلوں دیگر آفات کا مقامی نظام درہم برہم ہوا، اور ایسا درہم برہم ہوا کہ جب کبھی بھی کوئی شہباز شریف لانگ بوٹ پہنے پانی میں اُترا یا عسکری اداروں نے سول ایڈمنسٹریشن کی ناکامی یا خاموشی کے بعد جوانوں کو بھیجا تو لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں اور انہیں اپنا نجات دہندہ قرار دیا۔ حالانکہ اس ملک میں آفتوں سے نمٹنے کے صدیوں سے قائم شاندار نظام کو تباہ و برباد ہی اسی لئے کیا گیا تھا کہ کچھ لوگوں کے سینے پر حسنِ کارکردگی کے تمغے سجائے جائیں۔ یہ بہت المناک داستان ہے۔
انسان گذشتہ ہزاروں سال سے آفتوں سے نبردآزما ہوتا چلا آ رہا ہے اور اس نے گائوں، محلے، علاقے اور بستی کی سطح پر ان سے نمٹنے کے بخوبی انتظام ہمیشہ سے کئے ہیں۔ انسانی تاریخ میں فراعینِ مصر ہوں یا نمرودانِ بابل، اشوک ہو یا سائرسِ اعظم کسی کے دَور میں بھی مرکزی سطح پر آفتوں سے نمٹنے کے کسی نظام کی خبر نہیں ملتی، حالانکہ ہر دَور میں مرکزی سطح پر فوج بھی موجود تھی اور بیوروکریسی بھی۔
چین میں "مینڈرنز" (Mandrins) کا نظام دُنیا کا قدیم ترین بیورو کریسی کا نظام ہے جس کے تمام خدوخال ایسے تھے جنہیں جدید دُنیا کی بیورو کریسیوں نے چربہ کیا ہے۔ انسانی تاریخ کی ان عظیم اور قدیم سلطنتوں سے لے کر جدید ترین ماڈرن حکومتوں تک کسی نے بھی مصیبتوں اور آفات سے نمٹنے کیلئے بہت بڑا مرکزی نظام نہیں بنایا۔ اس لئے کہ قدیم بھی جانتے تھے اور آج والے بھی بخوبی واقف ہیں کہ آفت کے وقت، قریب ترین لوگ ہی آفت زدہ کی بہترین مدد کو آ سکتے ہیں۔ جتنی دیر شہباز شریف کو لانگ بوٹ پہننے اور فوج، رینجرز یا پولیس ہیڈ کوارٹر کے لوگوں کو "الرٹ" ہو کر باہر نکلنے میں لگتی ہے اُتنی دیر میں آفت بے شمار انسانی جانوں کو نگل چکی ہوتی ہے۔
جدید تاریخ میں گیارہ ستمبر کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے بڑا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہو گا۔ اس بڑی آفت سے نبرد آزما ہونے کیلئے کسی نیشنل لیول کی تنظیم کو حرکت میں نہیں آنا پڑا، کسی پینٹاگون نے اپنی ٹیموں کو حکم جاری نہیں کیا کہ فوراً پہنچو۔ نیویارک شہر کی انتظامیہ کے فائر فائٹر ہی وہاں پہنچے اور انہوں نے ہی جانیں دے کر اس ساری صورتحال پر قابو پایا۔ امریکی صدر جارج بش کا ہیلی کاپٹر پر بھی کوئی دورہ ہوا اور نہ ہی کسی اور ادارے کے سربراہ کو وہاں آنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
جو لوگ کینیڈا، امریکہ اور یورپ میں رہتے ہیں یا وہاں گھومنے جاتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ شمالی علاقوں میں سال کے کم از کم تین ماہ بدترین برفباریوں میں گزرتے ہیں، تمام نظامِ زندگی معطل ہو کر رہ جاتا ہے، لیکن اس سب کے باوجود مقامی انتظامیہ کی کارکردگی کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک بحال رہتی ہے، کیونکہ ان کے پاس سڑکوں سے برف صاف کرنے کیلئے مشینری بھی موجود ہوتی ہے اور نمک کا وافر ذخیرہ بھی ہوتا ہے جسے سڑکوں پر ڈال کر راستہ صاف کیا جاتا۔ ساحلی شہروں میں طوفان آتے ہیں، کوئی مرکزی حکومت اپنے وسائل وہاں نہیں پہنچاتی۔ کسی وزیر اعلیٰ کو فون کر کے سب کو ڈانٹ کر وہاں نہیں بھیجنا پڑتا اور نہ ہی کسی دفاعی ادارے یا مرکزی پولیس کو اپنے لوگوں کو فوری امداد کیلئے ٹیموں کی صورت روانہ کرنا پڑتا ہے۔
انسان صدیوں سے جانتا ہے کہ "آفت سے نمٹنے کیلئے وقت سب سے اہم ہوتا ہے" اور قابو پانے کیلئے وسائل کی آفت کی جگہ پر فوری موجودگی بہت ضروری ہوتی ہے۔ اسی بنیادی اُصول کو سامنے رکھتے ہوئے انگریز نے برِصغیر میں سول ڈیفنس کا ایک ایسا خوبصورت علاقائی، ضلعی اور مقامی نظام بنایا تھا کہ جب کبھی قدرتی آفات یا بڑے انسانی حادثات پیش آتے تو ان سے فوراً نمٹ لیا جاتا۔ یہ درست ہے کہ بعض آفتیں اور حادثات اس نوعیت کے ضرور ہوتے ہیں کہ ان کا مقابلہ کرنے کیلئے ملکی نہیں بلکہ عالمی مدد کی بھی ضرورت پڑتی ہے، لیکن عمومی برفباری، سیلاب، زلزلے، آگ، یا ایکسیڈنٹ کو ہمیشہ مقامی سطح پر ہی دیکھا جاتا رہا ہے۔ برِصغیر میں یہ نظام میونسپل اداروں کی سطح پر تقریباً ڈیڑھ سو سال تک بخوبی چلتا رہا۔
70 کی دہائی میں بشام کا زلزلہ تھا یا پنجاب میں سیلاب، میونسپل اداروں کا یہی نظام تھا جس نے سب سنبھالا۔ مری میں تو اب اتنی برف پڑتی ہی نہیں جتنی 70 کی دہائی اور اس سے پہلے پڑا کرتی تھی، مگر میونسپل کارپوریشن کے لوگ اور ساتھ ہی محکمہ شاہرات کے کارکن سڑک صاف کرتے نظر آتے تھے۔ ان کے کارندے چین پکڑے ہوئے ہوتے جنہیں ٹائروں پر چڑھا کر گاڑیوں کو پھسلن پر سے گزارا جاتا۔ ہر چھوٹے بڑے شہر میں گٹر بند ہونے اور بارشوں میں پانی جمع ہونے پر یہی میونسپل عملہ، تھوڑی دیر میں سب کچھ ٹھیک کر لیا کرتا تھا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ان سب کو ایک منصوبے کے تحت تباہ وبرباد کیا گیا، جس میں اس ملک کی سیاسی و عسکری قیادت اور بیوروکریسی برابر کی شریک ہے۔ سب سے پہلے حالات سے نمٹنے کا "شہباز شریف ماڈل" آیا۔ اس ماڈل کے آتے ہی صوبائی سیکرٹریوں کے وارے نیارے ہو گئے۔ اب تمام کے تمام وسائل، فنڈز، اختیارات لاہور میں جمع کر دیئے گئے۔ جب کبھی آفت آئی، وزیرِ اعلیٰ تیار ہوا، حکم ہوا، لاہور کے گودام کھولو، ٹینٹ نکالو، مشینری تیاری کرو، فنڈز مختص کرو، کیا بات ہے، سب کس حسن و خوبی سے ہوا۔ تالیاں بجیں، واہ واہ ہوئی مگر اس سب کی وجہ مقامی سطح پر جو پرانا انفراسٹرکچر موجود تھا، مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں مرمت کی طلب میں پڑی پڑی ناکارہ ہو گئیں اور امدادی سامان کے مقامی گوداموں میں سناّٹا چھا گیا۔
"شہباز شریف ماڈل" اتنا مقبول ہوا اور کیوں نہ ہوتا، اس میں شہرت کی بلندیاں تھیں۔ پرویز مشرف نے اسی کو اپناتے ہوئے پاکستان میں آفات سے نمٹنے کے مقامی سطح کے نظام کو تباہ کرنے کیلئے آخری ضرب کاری لگائی۔ موقع اچھا ہاتھ آیا، 2005ء کے ایسے زلزلے کا بہانہ بنایا گیا جو صرف بالاکوٹ اور مظفرآباد میں آیا تھا۔ چونکہ دُنیا بھر سے امداد کا ہُن برس رہا تھا اس لئے مرکزی سطح پر ایک ادارہ "نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی" بنا دیا گیا۔
2006ء میں اس کا آرڈیننس آیا اور 17 اگست 2007ء کو اس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ میں نے اس وقت اس ادارے کے قیام کے خلاف لکھا بھی اور اپنی بساط کے مطابق حکومتی سطح پر گفتگو بھی کی، لیکن جہاں اربوں کے فنڈز، ہیلی کاپٹرز کی پروازیں، آفتوں سے نمٹنے کیلئے ڈھیروں سامان خریدنے میں کمیشن کے لالچ موجود ہوں تو پھر اس نقارخانے میں میری کون سنتا تھا۔ پورے ملک میں آفات سے نمٹنے کے نظام کو ایک جگہ یعنی اسلام آباد میں اکٹھا کر دیا گیا۔ تمام وسائل، فنڈز سب وہیں مرکوز ہو کر رہ گئے، جس کی وجہ سے پورے ملک میں مقامی سطح پر جو تھوڑا بہت انفراسٹرکچر موجود تھا اُسے تباہ کر کے رکھ دیا۔ اب آفت آئے تو مسیحا کا انتظار کرو جو اسلام آباد سے آئے یا لاہور سے، کراچی سے آئے یا پشاور سے۔
دُنیا بھر میں مقامی سڑکیں مقامی حکومتیں اور بڑے سڑکیں محکمہ شاہرات صاف رکھتا ہے۔ مرکزی سطح پر صرف وارننگ سنٹر بنائے جاتے ہیں۔ کوئٹہ میں زلزلہ آیا تو انگریز نے کوہِ چلتن میں زلزلہ پیما دفتر بنایا مشینیں نصب کیں، ورنہ یہ سب وہ دِلّی میں بھی بنا سکتا تھا۔ طوفان کی خبر دینے والے مراکز اب عالمی ہو چکے ہیں، لیکن طوفان سے نمٹنے والے دفاتر اب بھی مقامی ہی ہیں۔ پاکستان میں کتنے مقامات ایسے ہیں جہاں آفتوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ گنتی کے دو درجن بھی نہیں بنتے۔ گذشتہ سو سال کی رپورٹس نکال کر فہرست بنائی جا سکتی ہے اور پھر ان مراکز کے نزدیک آفتوں سے نمٹنے والے ایسے سنٹر قائم کئے جا سکتے ہیں جو مقامی انتظامیہ کے نیچے ہوں اور ہر طرح کے وسائل رکھتے ہوں۔ ان کا سٹاف بھی مقامی اور ان کے سروں پر تبادلے کی تلوار نہ لٹکتی ہو۔
مرکز صرف رابطہ اور باہمی تعلق کیلئے ہونا چاہئے۔ لیکن ہم اب شاید کبھی واپس نہیں آ سکتے۔ ہمیں " شہباز شریف ماڈل" پسند ہے، اس میں تصویریں ہیں، ہیلی کاپٹر کی پروازیں ہیں، میڈیا ہے، تالیاں ہیں، ہم نے یہ گلشن خود اُجاڑا ہے تاکہ جب کبھی کوئی آفت زدہ لوگوں کیلئے دُور دراز سے مدد کو آئے تو لوگ تالیاں بجائیں، تعریفیں کریں۔ ہم سے تو بلوچستان کے لوگ اچھے، کہ جنہوں نے برفانی طوفان سے بچنے کیلئے سڑکوں کے کنارے مٹی سے کمرے بنا رکھے ہیں تاکہ مسافر یہاں رُک کر طوفان تھمنے کا انتظار کر لیں۔