"تنہائی کے موسم میں" مودی کی جَلد بازیاں

4 اگست 2025ء کی سہ پہر ہم صحافیوں کی اکثریت یہ طے کرنے میں مصروف تھی کہ بانی تحریک انصاف کی جانب سے "آر یا پار" ٹھہرائی تحریک جس کی انتہاء 5اگست کو نمودار ہونا تھی سڑکوں پر کچھ رونق لگاپائے گی یا نہیں۔ چند دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر میں بھی اس سوال کا جواب سوچنے میں مصروف تھاتو بھارت کے چند صحافیوں کی جانب سے واٹس ایپ پیغامات آنا شروع ہوگئے۔ ان کے پیغامات عمران خان کی رہائی کے لئے چلائی تحریک سے قطعاََ لاتعلق تھے۔
اس حوالے سے مجھ سے کوئی "خبر" پوچھنے کے بجائے "اطلاع" یہ دی گئی کہ نئی دلی میں بھارتی وزیر اعظم اور وزیر داخلہ اپنے صدر کے ساتھ "پراسرار ملاقاتوں" میں مصروف ہیں۔ اجیت دوول کی قیادت میں بھارت کی تمام خفیہ ایجنسیوں کا ایک اہم اجلاس بھی منعقدہونے کی افواہ گردش کررہی ہے۔ نئی دلی میں جاری ملاقاتوں اور اجلاسوں سے واٹس ایپ بھیجنے والے نتیجہ یہ اخذ کررہے تھے کہ غالباََ 5اگست 2019ء کی طرح نریندر مودی 2025ء کی 5اگست کو بھی کچھ "بڑا" کرنے جارہا ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر ممکنہ اقدام کا اندازہ نہیں لگاسکتا تھا۔ "ہورہے گا کچھ نہ کچھ" سوچتے ہوئے ٹی وی پروگرام کی تیاری میں مصروف ہوگیا۔
ٹی وی کے لائیو پروگراموں میں وقفے کے دوران ٹویٹر چیک کرنے کی علت لاحق ہے۔ پیر کی شام ایسا کرتے ہوئے بھارت کی ایک صحافی آرتی ٹکو سنگھ کا ایک طویل ٹویٹ دیکھنے کو ملا۔ آرتی سے میں آج سے تقریباََ ایک دہائی قبل جموں میں ملا تھا۔ وہ اننت ناگ کے پنڈت خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ کشمیر میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے مگر اسے خاندان سمیت جموں کے پناہ گزین کیمپ منتقل ہونا پڑا۔ وہاں سے وہ بھارت کے ایک مشہور روزنامے کو خبریں بھیجتی تھی۔ وادیٔ کشمیر سے جموں کے نسبتاََ "پنجابی" اور آب وہوا کے حوالے سے گرم ماحول منتقل ہونے کی وجہ سے اس کے دل میں پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف جذبات کا جمع ہونا فطری امر تھا۔ میں نے بطور صحافی اس کے "آتشیں" خیالات کو توجہ سے سنا۔ بعدازاں کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ایک دوبار محض سوشل میڈیا پر رابطہ ہوا۔ وہ نہایت لگن کی بدولت بالآخر صحافت کا بڑا نام بھی بن گئی۔
آرتی ٹکو سنگھ کا جو ٹویٹ میں نے 4اگست کی شام دیکھا اس میں اس خدشے کا اظہار تھا کہ مودی سرکار جموں کو کشمیر سے الگ کرنے کافیصلہ کرنے والی ہے۔ اس کی دانست میں یہ فیصلہ اگر واقعتاہوگیا تو قائد اعظم کے "دو قومی نظریے" کا اثبات ہوگا۔ اس کے علاوہ کسی دور میں ایک ڈکسن فارمولا بھی تھا۔ اس کا خالق اقوام متحدہ کیلئے مسئلہ کشمیر کاحل ڈھونڈرہا تھا۔ اس کا دیا فارمولا بتدریج "چناب فارمولا" بھی کہلائے جانے لگا۔ یہ کشمیر کی اس انداز میں تقسیم کرنے کی بات کرتا ہے جو ایک حوالے سے "دو قومی نظریہ" کا عملی اطلاق کہلایا جاسکتا ہے۔ اننت ناگ کی آرتی نے اپنے ٹویٹ میں ریاستِ جموں وکشمیر کی مزید تقسیم کے بارے میں پھیلی افواہوں کے ذکرکے بعد مبینہ ارادے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔
یہ کالم منگل کی دوپہر لکھ رہا ہوں۔ بدھ کی صبح دفتر بھجوائوں گا۔ اس وقت تک کیا ہوتا ہے اس کی خبر نہیں۔ بدھ کی صبح میرے قلم اٹھانے تک مگر جموں کو وادی کشمیر سے الگ کرنے کافیصلہ نہیں ہوا تھا۔ جس فیصلے کے بارے میں قیاس آرائیاں ہورہی تھیں اس کے برعکس بھارتی حکومت نے امرناتھ یاترا کو مختصر کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ تمام یاتریوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے آبائی شہروں کو لوٹ جائیں۔ امر ناتھ یاترا عموماََ اگست کے دوسرے ہفتے کے اختتام تک جاری رہتی ہے۔ اسے وقت سے پہلے ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بھارتی حکومت نے دعویٰ یہ کیا ہے کہ 6اگست سے امرناتھ کی جانب جاتے راستوں پر غیر معمولی بارشوں کا امکان ہے۔ اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر لینڈ سلائیڈنگ کے علاوہ سیلابی صورتحال کے بھی ٹھوس امکانات نمودار ہورہے ہیں۔ یاتری لہٰذا خود کو ممکنہ خطروں سے محفوظ رکھنے کے لئے جلد از جلد گھروں کو لوٹ جائیں۔
امر ناتھ یاترا کے 3اگست ہی کو ختم کرنے کے اعلان نے میرے وسوسوں بھرے دل کو پریشان کردیا۔ 10مئی کے روز ہوئی پاک-بھارت سیز فائر کے بعد سے مسلسل اس کالم میں اس خدشے کا اظہار کررہا ہوں کہ نریندرمودی پاکستان کے ساتھ جنگ کا ایک اور رائونڈ لڑنے کو بے چین ہے۔ بھارتی عوام کی اکثریت کو وہ قائل نہیں کرپایا کہ 6اور 7مئی کی درمیانی رات اس نے پاکستان کے خلاف جو جنگ برپا کی تھی وہ "جیت" لی گئی ہے۔ اصرار کئے چلے جارہا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے مذکورہ جنگ رکوانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ پاکستان ہی نے ہاتھ اٹھالئے تو اس نے "دریا دلی" دکھاتے ہوئے فائربندی کردی۔
بھارتی پارلیمان میں پاک-بھارت کے مابین حالیہ جنگ پر تفصیلی بحث ہوئی ہے۔ اس بحث کو سمیٹتے ہوئے نریندر مودی نہایت ڈھٹائی سے اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا۔ اس کی ڈھٹائی نے اپوزیشن جماعتوں کو اس کا مذاق اڑانے کا موقعہ فراہم کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی مودی کو بخش نہیں رہا۔ روزانہ کی بنیاد پر یاد دلاتا رہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ممکنہ طورپر "ایٹمی جنگ" اس نے رکوائی ہے۔ مودی اس کا دعویٰ تسلیم کرنے سے ہچکچارہا ہے۔
پاک-بھارت جنگ کے علاوہ اب ٹرمپ کے امریکہ اور مودی کے بھارت کے مابین ایک اور مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔ پیر کے روز امریکی صدر نے انتہائی سخت الفاظ میں دنیا کو آگاہ کیا کہ بھارت روس پر یوکرین پر حملے کی وجہ سے لگائی اقتصادی پابندیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے روس سے تیل کی غیر معمولی مقدار خریدے چلاجارہا ہے۔ جو خام تیل وہ اس سے خریدتا ہے اسے بھارت کی دو بڑی ریفائنریوں میں صاف کرنے کے بعد یورپ کے چند ممالک کو بھی بیچ دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ روس کے خام تیل سے نکالی دیگر پٹرولیم پراڈکٹس (مثلاََ ڈیزل)بھاری بھر کم منافع پر دیگر ملکوں کو بیچی جارہی ہیں۔ بھارت کے اس چلن کا ذکر کرتے ہوئے ٹرمپ نے بھارت پر ٹیرف مزید بڑھانے کے ارادے کا اظہار بھی کیا ہے۔ پیر کے روز ٹرمپ نے جو پیغام اپنے ہاتھوں سے لکھ کر دنیا کے روبرو رکھا ہے واضح طورپر عندیہ دے رہا ہے کہ امریکی صدر بھارتی وزیر اعظم کو دیوار سے لگانے کو بضد ہے۔ تنہائی کے اس موسم میں نریندر مودی حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے کچھ بھی کرسکتا ہے۔ جموں کی وادیٔ کشمیر سے علیحدگی کو اس تناظر میں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔
یاد رہے کہ 2019ء میں مہاراجہ کی ریاست جموں وکشمیر کی "خصوصی حیثیت" ختم کرکے اسے براہِ راست دلی سے چلانے کا جو منصوبہ بنایا گیا تھا کہ اس کے ابتدائی خاکوں میں بھی مقبوضہ کشمیر کو تین حصوں میں شامل کرنے کا ذکر تھا۔ اپنی پسند کے صحافیوں کو 4اگست 2019کی شام "آف دی ریکارڈ" بریفنگ دیتے ہوئے بھارتی وزیر داخلہ امیت شا نے مقبوضہ کشمیر کو تین "UTs"یعنی یونین ٹیریٹری میں تقسیم کرنے کی بات کی تھی۔ اس تناظر میں البتہ حتمی قانون جب بھارتی پارلیمنٹ سے منظوری کے لئے تیار ہوا تو اس میں فقط لداخ کو تاریخی ریاست جموں وکشمیر سے الگ کیا گیا تھا۔ دلی میں اب یہ "خبر" مشہور ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو تین حصوں میں باٹنے کے فیصلے کو یہ سوچتے ہوئے منسوخ کردیا گیا ہے کہ ہندواکثریتی جموں کی مسلم اکثریتی وادی کشمیر سے علیحدگی قائد اعظم کے "دو قومی نظریہ" کو درست ثابت کرے گی۔

