Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Shanghai Conference Pakistani Wazir e Azam Ke Liye Tareekhi Moqa

Shanghai Conference Pakistani Wazir e Azam Ke Liye Tareekhi Moqa

شنگھائی کانفرنس پاکستانی وزیراعظم کے لئے تاریخی موقع

وادی سندھ کی ہزاروں سال سے تباہی یا خوشحالی کا سبب ہمیشہ سیلاب ہی رہے ہیں۔ حسابی کتابی ذہن سے جائزہ لیں تو سیلابوں نے ہمیشہ وقتی طورپر بے تحاشہ تباہی پھیلائی۔ طویل المدتی تناظر میں تاہم ہماری زمین کو زرخیز ترین بنانے میں وہ مٹی کلیدی کردار ادا کرتی ہے جو بپھرے ہوئے دریائوں کا پانی اپنے ساتھ ہماری زمین کی سطح پر بچھاکر آگے بڑھ جاتا ہے۔ دریائوں پر بند باندھنے کے منصوبے دریافت کرلینے کے بعد ہم اس گماں میں مبتلا ہوگئے کہ سیلابوں سے جان چھوٹ گئی۔

جدید تحقیق مگر اب مصر ہے کہ دریائوں پر میگاڈیموں کی تعمیر دور رس تناظر میں فائدے کے بجائے نقصان کا سبب ہوتی ہے۔ ان کے بجائے چھوٹے ڈیموں کا مشورہ دیا جاتا ہے جو مقامی طورپر بجلی اور پانی کی طلب کو پورا کرسکیں۔ اس سے کہیں زیادہ اصرار زمین کی کھدائی سے ایسے کنواں نما ذخیروں کی تعمیر پر دیا جارہا ہے جو سمندر کی لہروں کی طرح آئے سیلابی پانی کے راستے میں بنائے جائیں۔ یہ ذخیرے زیرزمین پانی کی سطح کو معمول کی حد تک برقرا رکھنے میں مددگارثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں مثال کے طورپر لاہور میں آپ کو شاید پانی کی تلاش میں 200فٹ سے بھی زیادہ کھدائی کی ضرورت نہ ہوگی۔

تیسری دنیا کے حکمرانوں میں لیکن ایک "شاہ جہاں" چھپا ہوتا ہے۔ وہ تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے "تاج محل" جیسے عجوبے تیار کرنا چاہتے ہیں۔ میگاڈیموں کی تعمیر کی خواہش بھی جدید تحقیق کے تناظر میں"شاہ جہانی" خواہش ہے۔ پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے زیر زمین تعمیر ہوئی کنواں نما زنجیر کا سلسلہ کتنا بھی طولانی اور جدید تر ہوجائے اسے انسانی آنکھ دیکھنے اور سراہنے کے قابل نہیں۔ "عجوبہ" نظر نہ آئے تو تحسین کے قابل نہیں رہتا۔

تاج محل جیسے عجوبوں کی بات ہو تو اکثر میرا جھکی ذہن یہ سوچتا ہے کہ شاہ جہاں کی ایک محبوب ملکہ کی یاد میں بنائے اس مزار کا خلقِ خدا کو کیا فائدہ؟ 1981ء میں لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں گیا تو وہاں ایک کتاب اچانک مل گئی۔ اسے پڑھ کر اندازہ ہوا کہ تاج محل تعمیر کرنے کے لئے شاہ جہاں نے خلق خدا پر اضافی ٹیکس لگائے تھے۔ اس کے بعد اورنگزیب کو جنوبی ہندوستان کے حیدر آباد جیسے شہروں اور مرہٹوں پر قابو پانے کے لئے جنوبی ہندوستان میں 25سال تک جاری رہی جنگ جاری رکھنے کے لئے مزید ٹیکس لگانا پڑے۔

اس کتاب کا مصنف جس کا نام میں بھول گیا ہوں اعدادوشمار کی مدد سے یہ ثابت کرناچاہ رہا تھا کہ شاہ جہاں اور اورنگزیب کے لگائے ٹیکسوں نے اس دور کی خلق خدا کو بادشاہوں سے بیگانہ بنانے کے علاوہ قومی خزانے کو بھی بتدریج کھوکھلا کرنا شروع کردیا تھا۔ اس کے بعد "نادر شاہی" حملے نے مغل دربار کی رہی سہی قوت بھی ختم کردی۔ ایسے حالات میں برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو بنگال سے شروع ہوکر آج کی ڈیورنڈ لائن پر حکمرانی کے سوسے زیادہ برس مل گئے۔ انہوں نے بھی اپنے انداز کے "تاج محل" بنائے۔ بنیادی مقصد مگر ان کا "تاریخ میں زندہ رہنا نہیں" بلکہ سامراجی نظام کو مستحکم کرنا تھا۔ ریلوے اور نہروں کا نظام بھی اسی وجہ سے قائم ہواتھا۔ غیر متعصب نگاہوں سے مگر ان کا جائزہ لیں تو عوام بھی ان کی وجہ سے بالآخر تھوڑے "جدید" اور "خوشحال" ہوگئے۔

تاج محل ہی کے حوالے سے جولائی 2001ء کے دوران پاکستانی صدر مشرف اور بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے مابین آگرہ میں ہوئی سربراہی ملاقات یاد آگئی۔ بھارتی امور کا نام نہاد "ماہر" مشہور ہوجانے کی وجہ سے یہ کالم نگار بھی اس شہر میں کانفرنس شروع ہونے سے تین دن پہلے سے موجود تھا۔ وہاں قیام کے دوران ایک لمحے کو بھی تاج محل جانے کی خواہش محسوس نہ کی۔ دوستوں کے طعنے سننے کے باوجود ٹس سے مس نہ ہوا۔ بہت تنگ آجاتا تو ساحر لدھیانوی کی "میری محبوب کہیں اور ملاکر مجھ سے، " والی نظم سنا کر جند چھڑانے کی کوشش کرتا۔

حقیقت جبکہ لندن میں پڑھی وہ کتاب تھی جس نے تاج محل کی تعمیر کی وجہ سے خلق خدا پر بھاری بھر کم ٹیکسوں کی صورت نازل ہوئے عذاب کا ٹھوس اعدادوشمار کی مدد سے ذکر کیا تھا۔ حکومت مصر کی دعوت پر البتہ ایک بار دس دنوں کے لئے قاہرہ قیام پذیر ہوا تو مہمان ہونے کی وجہ سے فراعین مصر کی ممیاں اور ابوالہول جیسے عجوبے دیکھنے کو مجبور ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہیں قیام کے دوران اپنے تئیں یہ محسوس کیا کہ مصر کا اصل عجوبہ فراعین کی ممیاں نہیں نہرسویز ہے۔ اس کی وسعت دل کو دہلادیتی ہے۔ یہ وسعت ہی مگر یورپ اور ایشیاء کے درمیان بحری تجارت کوتیز تر بنانے کا تاریخ ساز عجوبہ ہے۔

بات مگر سیلاب کی ہورہی تھی جس کا ذکر کرتے ہوئے ہمیں ہر صورت یاد رکھنا چاہے کہ ان دنوں کا سیلاب فقط تاریخ ہی نہیں دہرارہا۔ ہمارے ہاں جو دریاآتے ہیں بنیادی طورپر کوہ ہمالیہ کے گلیشیرئوں کے پگھلنے سے آتے ہیں۔ گرمیوں میں ضرورت سے زیادہ پگھل کر دریائوں کو سیلابی بنادیتے ہیں۔ گرمیوں کے موسم ختم ہوجانے کے بعد مگر شدید برفباری گلیشیرئوں کی اصل قوت وحیثیت بحال کردیتی۔ اس کے علاوہ مون سون کا سیزن اگر کبھی بے قابو بارشوں کا سبب ہوتا تب بھی ہمارے خطے میں سیلابی صورتحال پیدا ہوجاتی۔

سیلاب کا ذکر کرتے ہوئے ہماری اصل فکر اب یہ ہونا چاہیے کہ انسان اور خاص طورپر خود کو "جدید ترین مہذب دنیا کے باسی"تصور کرتے لوگ جس بے دریغ انداز میں اپنے طرز زندگی کی وجہ سے دنیا بھر میں زمین کی حرارت میں اضافہ کررہے ہیں وہ ہمالیہ کے گلیشیرئوں کو روایتی برف باری کے موسم سے عموماََ محروم رکھتی ہے۔ شدید ترین برف باری کا موسم مختصرسے مختصر تر ہورہا ہے۔ اس کی وجہ سے گلیشیر ایک حوالے سے "بے موسمی" صورت میں پگھلنا شروع ہوگئے ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافہ ان گلیشیرئوں کی جانب سے آئی ہوا میں نمی کے تناسب کو بڑھائے چلاجارہا ہے۔ اسی باعث ہم آئے روز "کلائوڈبرسٹ" کی اصطلاح سن رہے ہیں۔

چین، بھارت اور پاکستان ہمالیہ کے گلیشیرئوں کے شدید ترین باہمی اختلافات کے باوجود مشترکہ وارث ہیں۔ ان تینوں کو ہمالیہ کے گلیشیرئوں کو بچانے کے لئے اجتماعی بصیرت سے کام لینا ہوگا۔ اس بصیرت کی دریافت اور اطلاق کے لئے خصوصی ادارے کی ضرورت ہے۔ چین کی پیش قدمی کی بدولت پاکستان اور بھارت "شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن (SCO)" کے رکن ممالک ہیں۔ مذکورہ تنظیم کا سربراہی اجلاس چین ہی میں رواں مہینے کے آخری دن منعقد ہونا ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم وہاں موجود ہوں گے۔ سات برسوں کے طویل وقفے کے بعد بھارتی وزیر اعظم بھی چین ہی میں موجود ہوں گے۔ میری عاجزانہ رائے میں پاکستانی وزیر اعظم کے لئے یہ کانفرنس ایک تاریخی موقعہ فراہم کرسکتی ہے۔ اگر وہ اپنی تقریرمیں ہمالیہ کے گلیشیرئوں کو تباہی سے بچانے کے لئے چین، بھارت اور پاکستان کی اجتماعی بصیرت اور دریافت کے لئے خصوصی ادارے کی تشکیل کی تجویز پیش کریں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari