Monday, 14 July 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Shahbaz, Nisar Mulaqat Kya Mehaz Mizaj Pursi Thi

Shahbaz, Nisar Mulaqat Kya Mehaz Mizaj Pursi Thi

شہباز، نثار ملاقات کیا محض مزاج پْرسی تھی

وزیر اعظم شہباز شریف "اچانک" ایک طویل عرصے کے بعد چودھری نثار علی خان سے ملنے ان کے گھر چلے گئے۔ جو تصویر اخباروں کے لئے بھجوائی گئی اس میں چودھری صاحب کے فرزند دوبزرگوں کی ملاقات کے دوران موجود نظر آئے۔ سرکاری طورپر مقصد اس ملاقات کا چودھری نثار علی خان کی مزاج پرسی بتایا گیا ہے جو کئی روز سے بیمار ہیں۔ ان کی بیماری کی خبر وزیر اعظم تک پہنچی تو ان کا نرم وحساس دل اپنے دیرینہ دوست کی مزاج پرسی کو مجبور ہوا حالانکہ ان دونوں کے مابین گزشتہ کئی برسوں سے دوری آچکی ہے۔

وجہ اس کی میاں نواز شریف کے تیسرے دور حکومت کا آخری زمانہ بتایا جاتا ہے جب ریاست کے دائمی اداروں نے پانامہ پیپرز کے بہانے ثاقب نثار کی سپریم کورٹ کے ذریعے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت گھیررکھا تھا۔ عدالت کو عمران خان کی تحریک انصاف کے علاوہ "آزاد صحافیوں" کی اکثریت بھی بھرپور انداز میں وطن عزیز کو "بدعنوانی سے صاف کرنے" کو اُکسارہی تھی۔ نواز شریف کی حمایت میں دولفظ بولنے والے "لفافے" پکارے جاتے تھے۔

ذاتی طور پر میں پاکستان مسلم لیگ (نون) کا کبھی حامی نہیں رہا۔ اسے جنرل ضیاء کی باقیات ہی میں شمار کرتا رہا۔ تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کوجس انداز میں گھیرا گیا وہ مگر نامناسب محسوس ہوا۔ شریف خاندان کا ماضی بھلاکر ان کے دفاع میں چند لفظ بولنا شروع کردئے۔ دریں اثناء نام نہاد "ڈان لیکس" ہوگئی۔ اس کے تین کلیدی کردار- صحافی سرل المیڈا، سابق پی آئی او ر رائوتحسین اور ان دنوں کے وزیر اطلاعات پرویز رشید -میرے عزیز ترین دوستوں میں سرفہرست ہیں۔ ذاتی معلومات کی بنیاد پر آج بھی مصر ہوں کہ "ڈان لیک" ہرگز کوئی سازش نہیں تھی۔

ایک خفیہ اجلاس میں ہوئی گفتگو کا ذکر تھا جو سرل المیڈا کی زبانی عیاں ہوا۔ میں وثوق سے دہراتا ہوں کہ رائوتحسین اور پرویز رشید مذکورہ اجلاس کے "اندر کی بات" سرل تک پہنچانے کے ذمہ دار نہیں تھے۔ لطیفہ یہ بھی ہے کہ جب ڈان لیکس کا طوفان اٹھا تو رائوتحسین اپنے آبائی گائوں گئے ہوئے تھے۔ وہاں سے لوٹنے کے بعد میرے گھر "یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟"کی بابت گفتگو کے لئے آگئے۔ وہ موجود تھے تو سرل کوبھی میں نے فون کرکے اپنے ہاں مدعوکرلیا۔ گماں تھا کہ بات آئی گئی ہوجائے گی مگر انکوائریاں کھل گئیں۔ سرل المیڈا کی نوکری گئی، رائوتحسین جوگریڈ 22کے حقدار تھے اوایس ڈی بناکر راندہ درگاہ ہوئے۔ پرویز رشید کو وزارت سے برطرفی سہنا پڑی۔

چودھری نثار علی خان ان دنوں وزیر داخلہ تھے۔ افواہیں مصر تھیں کہ "ڈان لیکس" کے "ذمہ داروں" کا تعین کرنے کے بعد انہیں سبق سکھانے کے عمل میں وہ ریاست کے دائمی اداروں کے زبردست حامی ہیں۔ مجھے یہ جان کر افسوس ہوا۔ چودھری صاحب سے شناسائی کا آغاز 1985ء کے برس ہوا تھا۔ وہ اس نوجوان نسل سے تعلق رکھتے تھے جوان دنوں قدامت پرست گھرانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود نئے خیالات کی حامل تھی۔ ڈاکٹر محبوب الحق جیسے ذہین وفطین ماہرمعیشت ان دنوں وزیر خزانہ تھے۔ انہوں نے چودھری نثار کی ذہانت ولگن پہچان کر انہیں بطور پارلیمانی سیکرٹری قومی اسمبلی میں وزارت خزانہ کے بارے میں اٹھائے سوالات کا جواب دینے کو کھلاہاتھ دیا۔ پریس گیلری میں بیٹھے صحافی چودھری صاحب کی مہارت سراہنے کو مجبور تھے۔ بارہا اپنے انگریزی کالم میں اس کا میں بھی اظہار کرتا رہا۔

جنرل ضیاء نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا تو چودھری نثار علی خان وزیر تیل وقدرتی توانائی مامور ہوئے۔ اس حیثیت میں وہ ایک مشہور امریکی صنعت کار کے "وزیر میزبانی" ہوئے۔ اس صنعت کار کا نام آرمنڈ ہیمر (Hamer Armand)تھا۔ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھا مگر سوویت انقلاب کے بعد دوسری جنگ عظیم کے مریضوں کا علاج کرنے رضا کارانہ طورپر ماسکو پہنچ گیا۔ وہاں اس کی لینن سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ لینن ہی نے کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کا دشمن ہونے کے باوجود ڈاکٹر ہیمر کو کاروبار کی جانب مائل کیا کیونکہ اس سے ملاقات کے دوران محسوس کیا کہ اس کی کاروباری ذہانت کمیونسٹ ہوئے روس کی مصنوعات کے لئے سرمایہ دارانہ ممالک میں منڈیاں تلاش کرسکتی ہے۔

مجھے شبہ ہے کہ اپنے آخری ایام میں امریکہ سے مایوس ہوکر جنرل ضیاء روس کے ساتھ افغانستان کے حوالے سے کوئی بڑی ڈیل طے کرنا چاہ رہے تھے۔ اسی باعث ہیمر کوپاکستان بلوایا۔ اس کے "میزبان وزیر " ہوتے ہوئے نوجوان نثار علی خان نے بھی بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ اسی باعث نواز شریف کی دونوں حکومتوں کے دوران وہ وزیر برائے تیل رہنے ہی کو ترجیح دیتے رہے۔ چودھری نثار نے مگر وزارت پر ہی اکتفا نہیں کیا۔

بطور خصوصی معاون وہ اپنا زیادہ وقت وزیر اعظم ہائوس یا آفس ہی میں گزارتے۔ اسی باعث انہیں نواز شریف کا سب سے تگڑا وزیر مانا جاتا تھا۔ نوازشریف کی معاونت ان کے چھوٹے بھائی سے قربت کا اصل سبب ہوئی۔ وہ دونوں باہمی مشوروں سے ایسی حکمت عملی تیار کرتے جس کا مقصد نوازشریف کی حکومت کو مستحکم رکھنا تھا۔ ان کی کاوشوں کے باوجود نواز شریف دونوں بار مگر اپنی حکومتی مدت مکمل نہ کرپائے۔ 1990ء میں غلام اسحاق خان نے انہیں فارغ کردیا۔ 1999ء میں انہیں فارغ کرنے کے لئے جنرل مشرف کو مارشل لاء لگاناپڑا۔

چودھری نثار اور شہباز شریف کے حامی مصر ہیں کہ اگر ان دونوں کی بنائی حکمت عملی پر کامل عمل ہوتا تو نوازشریف شاید آج بھی ہمارے وزیر اعظم ہوتے۔ ذاتی طورپرمیں اس سوچ سے متفق نہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ شہباز صاحب کی چودھری نثار سے حالیہ ملاقات فقط غیر ذاتی وجوہات کی بنیاد پر ایک دوجے سے جدا ہوئے دوست کے "مزاج پرسی" تک محدود تھی یا شہباز صاحب کو ایک بار اپنی حکومت کے استحکام کے لئے کوئی تازہ "حکمت عملی" درکار ہے جس میں چودھری نثار حصہ ڈالیں گے۔ رپورٹنگ سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوچکا ہوں۔

خبروں کی تلاش کے لئے اپنے سے کہیں زیادہ متحرک اور بااختیار حلقوں تک رسائی کے حامل دوستوں سے رجوع کرنا لازمی ہے۔ ان کی اکثریت مصر ہے کہ شہباز شریف چودھری نثار علی خان سے محض دیرینہ تعلقات ذہن میں رکھتے ہوئے "بیمارکا حال پوچھنے گئے تھے"۔ شیطان مگر میرے دل کو وسوسوں سے بھرے رکھتا ہے۔ اس کے بہکاوے سے مغلوب ہوکر میں یہ سوچنے سے باز نہیں آرہا کہ شہباز صاحب کی چودھری نثار علی خان سے طویل عرصے کے بعد ہوئی ملاقات کے دوران کسی نہ کسی نوعیت کی حکمت عملی بھی زیر بحث آئی ہے۔

حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے احتیاطاََ یاد دلانا لازمی سمجھتا ہوں کہ اڈیالہ کے قیدی نمبر 804 لاہور کے ایچی سن کالج میں چودھری صاحب کے قریب ترین دوست تھے۔ اس دوستی کے باوجود نثار علی خان تحریک انصاف کے عروج کے دنوں میں عمران کی برسرعام ادا ہوئی خواہش کے باوجود اس جماعت میں شامل نہیں ہوئے۔ مسلم لیگ سے کنارہ کشی کے بعد تقریباََ گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ شاید اس وقت وہ عمران خان کو ہماری سیاست کے ٹھوس 1مگر تلخ حقائق سمجھانے کا مناسب ترین وسیلہ ہوسکتے ہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Jab Bulbul Ho Tasveer e Chaman Aur Kawaay Geet Sunate Hon

By Rehmat Aziz Khan