Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Sab Isi Muk Muka Siasat Ke Aseer Hue

Sab Isi Muk Muka Siasat Ke Aseer Hue

سب اِسی "مک مکا سیاست" کے اسیر ہوئے

میرے دل خوش فہم کو گماں ہے کہ پیر کے روز خیبرپختونخواہ میں سینٹ کی خالی ہوئی نشستوں کے لئے ہوئے انتخاب کے بعد اس کالم کے باقاعدہ قارئین کو سمجھ آگئی ہوگی کہ گزشتہ چند دنوں سے میں نے "سیاست" پر لکھنا کیوں چھوڑ رکھا ہے۔ بدھ کی صبح کالم میں عرض کیا تھا۔ آج دہرائے دیتا ہوں کہ "صحافی" سیاست کے بارے میں اسی وقت لکھ سکتا ہے جب وہ ہوتی نظر آرہی ہو۔

ہم جس "سیاست" کے برسوں سے عادی رہے ہیں وہ ہمارے ہاں برطانوی سامراج کے دور میں متعارف ہوئی تھی۔ اس کے ذریعے سامراج ہمیں یہ جھانسہ دینا چاہتا تھا کہ "مقبوضہ" ہونے کے باوجود برٹش انڈیا میں فیصلہ سازی کے عمل میں "عوامی نمائندے" بھی شریک ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ "عوامی نمائندوں" کے چنائو کے لئے شہریوں کی محدود تعداد کو ووٹ کا حق میسر تھا۔ ووٹ کے حقدار عموماََ زمین کی ملکیت کے لئے "دائمی بندوبست اراضی" کے تحت تشکیل دئے جاگیرداروں اور "شرفا"کو اپنا "نمائندہ" مقرر کرتے۔

اس دور کے ہائی برڈ جمہوری نظام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مگر مولانا محمد علی جوہر جیسے لوگوں نے "احتجاجی سیاست" شروع کردی۔ مہاتما گاندھی بھی عموماََ انتخابی عمل سے دور رہتے ہوئے کانگریس کو ایسی سیاست میں ملوث کردیتے۔ پنجاب میں مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کی قیادت میں ایسی ہی سیاست متعارف ہوئی۔ ان سب سے جدا علامہ مشرقی کی بنائی خاکسار تحریک بھی تھی۔ پشاور سے کلکتہ تک وہ "چپ راست"کی آوازوں کے ساتھ ہوئے مارچ کے ساتھ ہٹلرکی نازی تحریک کی یاد دلاتی۔ اس کی انتہا پسندی مگر برطانوی راج کے سخت گیر نظام کے روبرو زیادہ عرصہ ٹک نہیں پائی۔ قیام پاکستان کے لئے 1940ء کی قرارداد پیش کرنے کے دوران لاہور میں خاکسارپارٹی کی جانب سے ہوئی ہنگامہ آرائی نے پنجاب کے عام مسلمانوں کو اس سے ناراض بھی کردیا۔

قیام پاکستان کے کئی دہائیوں بعد عوام کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹ دینے کا حق بالآخر 1970ء میں نصیب ہوا۔ اس میں حصہ لینے کے لئے پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ جیسی سیاسی جماعتیں عوام کے دلوں میں برسوں جمع ہوئی خواہشوں کے اظہار کے لئے نمودار ہوگئیں۔ پاکستان کے مشرقی حصے میں ان دنوں عوامی جذبات "خودمختاری" کی جانب راغب تھے۔ مغربی پاکستان معیشت پر 22خاندانوں کی اجارہ داری توڑنے کو مچل رہا تھا۔ ایک ہی ملک کے دو حصوں میں وسیع پیمانے پر پھیلی مگر مختلف النوع خواہشات نے بالآخر 1970ء کے انتخابات کے بعد پاکستان کو دولخت کردیا۔

1970ء کے انتخابی نتائج کی بدولت پاکستان کا دولخت ہوجانا ہماری ریاست کے دائمی اداروں کے لئے حیران کن تھا۔ اجتماعی یاادارتی (Institutional)فیصلہ ان کی جانب سے یہ ہوا کہ اب کسی بھی انتخاب کو چونکا دینے والے نتائج فراہم کرنے کا موقعہ نہیں دیا جائے گا۔ 1985ء کے برس سے میری دانست میں ایسے ہی "انتخاب" منعقد ہورہے ہیں۔ ریاستی اداروں کی کڑی نگرانی میں ہوئے انتخابات نے بھی لیکن وطن عزیز کو سیاسی استحکام فراہم نہیں کیاہے۔

1988ء کے برس سے البتہ دکھاوے کی ہلچل برپا رہی۔ اس برس جنرل ضیاء کی ایک حادثے میں ہلاکت کے بعد اکثر لوگوں کو یہ گماں تھا کہ جو انتخاب کروانا ضروری ہوگئے ہیں انہیں پیپلز پارٹی تقریباََ سویپ (Sweep)کر جائے گی۔ وہ بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آگئی تو ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا بدلہ لینے میں مصروف ہوجائے گی۔ اسے بھاری اکثریت سے محروم رکھنے کے لئے راتوں رات جنرل حمید گل کے رچائے معجزے سے ولی خان کی "سیکولر" اے این پی اور مولانا مودودی کی وارث جماعت اسلامی "اسلامی جمہوری اتحادی" (IJI)میں یکجا ہوگئیں۔ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب پیپلز پارٹی کو حکومت کرنے کے لئے آج تک نصیب نہیں ہوا۔ وہ سندھ کے علاوہ کبھی کبھار بلوچستان کی "مخلوط حکومت" کیلئے وزیر اعلیٰ ضرور نامزد کرلیتی ہے۔

2011ء کے برس ہم سب کو یہ امید دلائی گئی کہ کرکٹ کی وجہ سے کرشمہ ساز ہوئے عمران خان اقتدار میں باریاں لینے والی"بدعنوان اور نااہل" سیاسی جماعتوں سے پاکستان کو نجات دلاکر "تبدیلی" لائیں گے۔ 2018ء میں بالآخر آر ٹی ایس بیٹھ جانے کی وجہ سے وہ اقتدار میں آگئے۔ حکومت میں لیکن پانچ برس کی آئینی مدت مکمل نہ کر پائے۔ بنیادی وجہ اس کی یہ تھی کہ موصوف قمر جاوید باجوہ کی "مشاورت" سے آزاد ہونا چاہتے تھے۔

موصوف کو حکومت سے نکالنے کیلئے نہایت منظم انداز میں چلائی مہم کے ذریعے اخبارنویسوں کی اکثریت اور اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ عمران حکومت کی اتحادی جماعتوں کو بھی اس امر پر قائل کردیا گیا کہ 29اپریل 2022ء تک وزیر اعظم عمران خان قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف کے منصب سے ہٹاکر جنرل فیض حمید کو ان کی جگہ نامزد کردیں گے۔ اس طرح عمران خان آئندہ دس برس تک ہمارے بادشاہی اختیارات والے وزیر اعظم بن جائیں گے۔

ذاتی طورپر میں نے ایک لمحہ کو بھی اس سازشی تھیوری پر اعتبار نہیں کیا۔ تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے "لفافہ" ہونے کی تہمت مسلسل دہرائے جانے کے باوجود مذکورہ بالا سوچ کی بلکہ نفی میں مصروف رہا۔ سیاستدانوں کو مگر اقتدار میں آنے کی جلدی ہوتی ہے۔ وہ بہک گئے اور اپریل 2022ء میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیا گیا۔

بانی تحریک انصاف نے اپنی برطرفی کے بعد عوام میں "انقلابی روح" بیدار کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بالآخر گرفتار ہوئے اور اب دو سال سے پابند سلاسل ہیں۔ جیل میں بیٹھے بھی وہ مقبول تر رہے کیونکہ نظر بظاہر وہ اپنی رہائی کے لئے اختیار والوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پیر کے روز مگر خیبرپختونخواہ اسمبلی کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپوزیشن کی ان ہی جماعتوں کے ساتھ جنہیں ان کے قائد تواتر سے "چورلٹیرے" پکارتے رہے ہیں ایک مصالحتی فارمولے کی بدولت 6/5 کے تناسب سے 11اراکین سینٹ کے لئے منتخب کروالئے ہیں۔

تحریک انصاف کے نام نہاد "نظریاتی رکن" محض بڑھکیں لگاتے ہی رہ گئے۔ پیر کے روز ہوئے سینٹ کے انتخاب نے ثابت کیا ہے تو فقط اتنا کہ "ہم ہوئے-تم ہوئے کہ میر ہوئے- سب اسی (مک مکا سیاست) کے اسیر ہوئے"۔ تحریک انصاف سمیت ہماری ہر بڑی سیاسی جماعت نے سینٹ کے ٹکٹ دیتے ہوئے ATM دِکھتے سیٹھوں کو ترجیح دی ہے۔ "نظریات" کوڑے دان میں پھینک دئے گئے ہیں۔ اپنی سیاست کے کئی برس "دینی" جمعیت العلمائے اسلام کی نذر کرنے والے طلحہ محمود اب پیپلز پارٹی جیسی "دنیاوی" جماعت کے نامزد کردہ سینیٹر ہیں۔ سدابہار دلاور خان مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر سینٹ میں آئے تھے۔ اب مشرف بہ- جے یو آئی ہوگئے ہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed