قومی بیانیہ تشکیل دینے میں ہماری ناکامی

عمر تمام صحافت کی نذر کرنے کے باوجود گزشتہ دس برسوں سے حکمران طبقات کی جانب سے یہ طعنے سن رہا ہوں کہ ہمارے صحافی "قومی بیانیہ" تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں۔ جس طرز صحافت سے میں نوجوانی میں آشنا ہوا تھا اس میں اگرچہ "بیانیہ" نام کا لفظ شاذ ہی سننے کو ملا۔ ہمارے سینئر مجبور کرتے کہ جو دیکھو یا سنو اسے ہوبہو"رپورٹ" یا بیان کرنے کی کوشش کرو۔ ایسا کرتے ہوئے اپنی رائے کے اظہار سے گریز اختیار کرو۔ ذاتی رائے کے اظہار کے لئے کالم لکھے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اخبار کا اداریہ ہوتا ہے جس کے ذریعے مدیر کی سوچ بیان کردی جاتی ہے۔
جو دیکھا اور سنا اسے ہو بہو "بیان" کرنے کی مشق سے گزرکر صحافت میں کچھ نام کماہی رہا تھا کہ انٹرنیٹ آگیا۔ بتدریج اس نے حقائق رپورٹ کرنے پر صحافیوں کی اجارہ داری کو کمزور کرنا شروع کردیا۔ انٹرنیٹ متعارف ہونے کے چند ہی برس بعد آگئے کیمروں والے موبائل فونز۔ موقع پر موجود "سٹیزن جرنلسٹ" تصویر سمیت کسی واقعہ کو اس مقام سے صحافیوں کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے تئیں بیان کردیتے۔ ان کی بھیجی خبروں کی سرعت اور کثرت نے روایتی رپورٹروں کو ماضی کے کاتبوں کی طرح صحافتی تناظر میں لاتعلق بنانا شروع کردیا۔
مجھ جیسے ذات کے رپورٹر رزق یقینی بنانے کے لئے زبان وبیان کے ہنر کی تربیت ومشقت کے بغیر "کالم نویس" بن کر اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع ہوگئے۔ میری عمر کے لوگ اپنے کالموں کے ذریعے جو سوالات اٹھاتے انہیں نئی نسل نے "تبدیلی" کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی مذموم کوشش تصور کیا۔ یہ سوچ بھی تیزی سے پھیل گئی کہ شاید سیاستدان کا روپ دھارے "چور اور لٹیروں" کے دئے لفافے ہمیں منفی سوالات اٹھانے کو مجبور کررہے ہیں۔ اس سوچ کو تقویت دینے کیلئے صحافیوں کی ذاتی زندگیوں کی کڑی نگرانی شروع ہوگئی۔ ان کے فیس بک اکائونٹس کا تفتیشی افسروں کی طرح جائزہ لیا گیا۔
اس کے نتیجے میں کئی صحافی اپنے خاندان کی خواتین ا ور قریب ترین خاتون دوستوں کے ساتھ "پارٹی" کرنے کی وجہ سے عیاش وبدکردار ٹھہرائے گئے۔ لفافوں اور بدکرداری کے الزامات نے پرانے صحافیوں کی ساکھ کو کاملاََ تباہ کردیا تو "تبدیلی" کی راہ استوار کرنے کے لئے صحافیوں کی ایک نئی کھیپ تیار ہوئی۔ ان کی بدولت ہوئی "ذہن سازی" نے بالآخر ہمیں ایسا وزیراعظم فراہم کردیا جس کے انتظار میں نرگس نام کا پھول (اداکارہ) نہیں ہزاروں برس سے آنسو بہارہی تھی۔ اگست 2018میں اقتدار سنبھالنے کے بعدانہوں نے "تبدیلی" کی راہ میں رکاوٹ بنے بدکرداروں کو ٹی وی چینلوں سے بھی فارغ کردیا۔
صحافت کو بدکرداروں سے پاک کرنے کے بعد قوم کو ایک دلیر اور ایمان دار قائد کی اطاعت میں استحکام وخوشحالی کی جانب بڑھتے رہنا چاہیے تھا۔ 2021ء کی اکتوبر میں لیکن "تبدیلی" کے سرپرست ریاستی اداروں کو "مزہ نہیں آیا"والے خیال نے تنگ کرنا شروع کردیا۔ وزیر اعظم کو گھر بھیجنے کی تیاری شروع ہوگئی۔ "ذہن سازی" کے ناقابل ٹھہرائے جانے کے باوجود مجھ جیسے صحافی خبردار کرتے رہے کہ جس وزیر اعظم سے مایوسی ہورہی ہے اسے اپنے عہدے کی آئینی مدت مکمل کرنے دی جائے۔
عمران مخالف سیاستدانوں کو مگر سرگوشیوں میں یہ اطلاع دیتے ہوئے ڈرادیا گیا کہ سابق وزیر اعظم نے قمرجاوید باجوہ کی آئینی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی اپنے پسندیدہ فیض حمید کو 29اپریل 2022ء میں نیا آرمی چیف نامزد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ موصوف کی ریاست کے طاقتور ترین ادارے کی سربراہی تحریک انصاف کے لئے آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت یقینی بنادے گی۔ سازشی سرگوشیوں نے ہمارے نہایت تجربہ کار سیاستدانوں کی اکثریت کو پریشان کردیا۔ وہ باہمی اختلافات بھلاکر یکجا ہوگئے اور اپریل 2022میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کردیا گیا۔
موصوف فارغ ہوئے تو قمر جاوید باجوہ کے دوغلے پن کی وجہ سے امریکہ کو اپنی برطرفی کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے عوام میں مقبول سے مقبول تر ہوتے چلے گئے۔ اس الزام کا ڈھونڈراپیٹتے ہوئے انہوں نے ریاستی اداروں میں"میر جعفر" بھی نشان زد کرنا شروع کردئے۔ اس کے بعد کے واقعات حالیہ تاریخ ہیں۔ انہیں دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ میرا مسئلہ فی الوقت "قومی بیانیے" کے خدو خال ڈھونڈنا ہیں تاکہ مرنے سے قبل انہیں اجاگر کرتے ہوئے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرسکوں۔
"قومی بیانیے" کے خدوخال کسی بھی حکمران فرد یا ادارے نے مجھے ابھی تک سمجھائے نہیں۔ غالباََ یہ سوچ کو نظرانداز کردیا ہوگا کہ بوڑھے اور بدکردار ہوئے گھوڑے کونئے کرتب نہیں سکھائے جاسکتے۔ "قومی بیانیہ" نوجوان ہی تشکیل دے کر اسے پروان چڑھاسکتے ہی۔ 6اور7مئی کی درمیانی رات بھارت نے پاکستان پر جو جنگ مسلط کی اس نے "قومی بیانیہ" تشکیل دینے والوں کی نشاندہی بھی کردی ہے۔ ہماری فیاض ریاست نے ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں کنجوسی نہیں دکھائی۔ میرا کندذہن مگر ابھی بھی "قومی بیانیہ" کے خدوخال ڈھونڈنے میں مصروف ہے۔
"قومی بیانیہ" کا ذکر چلا تو حال ہی میں چین میں منعقد ہوئی ایس سی او کی سربراہی کانفرنس یاد آگئی۔ اس کانفرنس سے قبل اور اس کے دوران پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کررہا تھا۔ مجھے امید تھی کہ سربراہی کانفرنس کے دوران اپنی تقریر کے ذریعے وزیر اعظم شہباز شریف ہمارے ہاں پھیلی تباہی کو علاقائی تناظر میں رکھ کر تاریخی انداز میں پیش کریں گے۔ ایس سی او کے ممالک کو ان کی تقریر اس امر پر اُکسائے گی کہ مذکورہ ادارے کی چھتری تلے کوئی ایسا فورم قائم کیا جائے جو چین، بھارت اور پاکستان کو گلیشیرؤں کی پگھلاہٹ اور ہمالیہ کی وادی سے نکل کر سندھودریا کا حصہ بنتے دریائوں کے پانی کے خشک ہونے سے روکنے کے لئے اجتماعی بصیرت اور سائنسی تحقیق کی بدولت راستے تلاش کرے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے مگر سیلاب کی تباہی کا اپنی تقریر کے درمیانی حصے میں مختصراََ ذکر کیا۔ "سندھ طاس معاہدے" پر کامل عمل داری اور اس ضمن میں بھارتی ہٹ دھرمی کے ذکر پر زیادہ توجہ دی۔
سربراہی کانفرنس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا وہ بھاری بھر کم دستاویز کی شکل میں تھا۔ میں نے اسے دو سے زیادہ مرتبہ غورسے پڑھا۔ اس کے اختتامی صفحات پر خشک زبان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا ذکر تھا۔ مشترکہ اعلامیہ میں بنیادی توجہ اس امر پر دی گئی کہ ٹرمپ کا امریکہ اقوام متحدہ جیسے اداروں کو تقریباََ ختم کرنا چاہ رہا ہے۔ وہ یک طرفہ فیصلے طاقت کے زور پر تمام عالم پر مسلط کرنے کو بضد ہے۔ امریکی ہٹ دھرمی کی مزاحمت کے لئے ایس سی او جیسے ممالک میں یگانگت کی اہمیت پر زور دیا گیا کہ تاکہ وہ پوری قوت سے واشنگٹن کی جانب سے یک طرفہ مسلط ہوئے فیصلوں کا مقابلہ کرسکیں۔
مذکورہ اعلامیہ کو پڑھنے کے بعد میرا جھکی ذہن مسلسل سوچے چلاجارہا ہے کہ "امریکی اجارہ داری" اور یک طرفہ فیصلہ سازی کی "مزاحمت" واقعتا اب ہمارا "قومی بیانیہ" ہے؟ بہت غور کیا تو جواب نفی میں ملا کیونکہ ہماری مصنوعات پر امریکہ نے ہمارے "شریکوں" کے مقابلے میں تقریباََ نہ ہونے کے برابر ٹیرف عائد کیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ 42سے زیادہ مرتبہ پاک-بھارت جنگ بند کروانے کا دعویٰ دہراچکے ہیں۔ ہم نے ان کے دعوے کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے لئے نوبل امن انعام کی قرارداد بھی وفاقی کابینہ سے منظور کروائی ہے۔ ٹرمپ کی مزاحمت لہٰذا فی الوقت ہمارا "قومی بیانیہ" ہو نہیں سکتا۔ خدارا مجھے اس کے خدوخال سے آگاہ کیجئے تاکہ میں انہیں فروغ دیتے ہوئے اپنی آخرت سنوارنے کی کوشش کروں۔

