Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Muslihat Aur Muslihat Ki Tamanna

Muslihat Aur Muslihat Ki Tamanna

"مصلحت اور مصالحت" کی تمنّا

ایوب خان، جنرل ضیاء اور مشرف صاحب کو کامل اختیارات سمیت ملک سنوارنے کے لئے اوسطاََ دس برس تک اقتدار میسر رہا۔ وطن عزیز مگر اس کے باوجود سنورنے کے بجائے دن بدن بگڑتا ہی چلاگیا۔ اپنی عمر کے تیس برس ان کی نذر کردینے کے بعد بھی ان دنوں"مصلحت اور مصالحت" کے مشورے دئے جارہے ہیں۔ مشورے دینے والوں میں ایسے دوست بھی شامل ہیں جن کی نیک نیتی پر ایک لمحے کے لئے شک کرنے سے بھی خوف آتا ہے۔ محض یہ دُعا مانگتے ہوئے دھیان کسی اور جانب موڑنے کی کوشش میں مصروف ہوجاتا ہوں کہ اب کی بار جس "مصلحت اور مصالحت" کی تمنا کی جارہی ہے وہ بار آور ثابت ہو۔

میں اپنی موت کی جانب بڑھتے ہوئے وطن کو خوش حال اور غیر ملکی قرضوں سے نجات پاتا ہوا دیکھوں۔ بلھے شاہ مگر بہت تنگ کرتا ہے۔ کالم لکھتے ہوئے یہاں تک پہنچا تھا تو ذہن میں سوال اٹھا کہ وہ "علموں بس کریں اویار" کی دہائی کیوں مچاتا رہا تھا۔ انگریزی زبان کم علمی کو خوفناک شے قرار دیتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ علم بھی لیکن دل ودماغ کو مایوسی کی جانب لے جاتا ہے۔ غالباََ اسی وجہ سے قلم اٹھاتے ہی مجھے ایوب خان، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے دس دس برس یاد آگئے۔ دماغ کا خلل متحرک ہوگیا۔

ایوب خان کے زمانے میں"ودھائو(بڑھائو) کھیت دی پیداوار" کے تھیم سانگ کے ساتھ میرے بچپن میں"دیہاتی بھائیوں" کے لئے ایک پروگرام ہوتا تھا۔ اس کے میزبانوں میں سے ایک چودھری نظام دین ہماری اجتماعی حکمت کو "مزاحیہ" الفاظ کے ساتھ حیران کن انداز میں بیان کردیتے۔ سکول سے کالج پہنچا تو دریافت ہوا کہ مذکورہ پروگرام کا بنیادی خیال امریکہ کے نشریاتی ماہرین نے کمیونزم کے خلاف امریکی اتحاد میں شامل ایوب حکومت کو پہنچایا تھا۔

امریکی امداد سے "میکسی پاک" کے نام سے گندم کا بیج درآمد ہوا جو اُس دور کا "ہائی برڈ" بیج تھا۔ اس کی بدولت فی ایکڑ گندم کی پیداوار تقریباََ دوگنی ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ کھاد کے استعمال سے "سونا اُگانے" کے اشتہارات بھی ان ہی دنوں امریکہ کی فراہم کردہ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کی بدولت ہمارے نصیب میں آئے۔ یہ الگ بات ہے کہ کھیت کی پیداوار بڑھ جانے کے باوجود 1965ء میں پاک-بھارت جنگ ہوگئی۔ ہم بھارت کو لاہور پر حملے کا منہ توڑ جواب دینے کی وجہ سے شاداں محسوس کررہے تھے تو بالآخر "معاہدہ تاشقند" ہوگیا۔

پاک-بھارت صلح کے اس معاہدے کو ہمارے جذباتی عوام نے غداری شمار کیا۔ اس کے بعد 1967ء میں چینی نایاب ہوگئی۔ چینی کو بازار سے غائب کرنے والوں میں مردان کے ہوتی خاندان کا نام بھی لیا جاتا تھا۔ اس خاندان کا ایک نمائندہ ایوب حکومت میں وزیر بھی تھا۔ ایوب حکومت کو اس کے صرف ایک وزیر کی وجہ سے چینی کے بحران کا حتمی ذمہ دار ٹھہرادیا گیا۔ تاشقند معاہدے کی وجہ سے جمع ہوا غصہ چینی کی نایابی نے دوآتشہ بناڈالا۔

دریں اثناء ایوب خان کے ذہین وفطین سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر صاحب کو خیال آیا کہ 1968ء کے برس کو "عشرہ ترقی"کے برس کی صورت منایا جائے۔ عوام مگر جشن منانے کے بجائے احتجاجی جلوس نکالنا شروع ہوگئے۔ سیاستدانوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے ایوب خان کی رچائی گول میز کانفرنس بھی ناکام ہوگئی۔ ایوب خان استعفیٰ دے کر اقتدار اپنے ہی بنائے 1962ء کے آئین کے مطابق قومی اسمبلی کے سپیکر کو منتقل کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ کے سپرد کرگئے۔ اس کے بعد جو ہوا حالیہ تاریخ ہے۔ اسے دہرانے سے کیا حاصل۔

مون سون کے ساتویں سپیل میں گلگت بلتستان، آزادکشمیر اور مالاکنڈ ڈویڑن کے متعدد مقامات پر "کلاؤڈبرسٹ" کی وجہ سے برپا ہوئی تباہیوں کو ٹی وی اور سوشل میڈیا کی سکرینوں پر دیکھ کر جی پریشان ہے۔ دُکھے دل کے ساتھ اتوار کی صبح اٹھ کر اخبارات کا جائزہ لیا تو ایک اخبار کے تیسرے صفحے کے بالائی حصے پر ایک چارکالمی تصویر بھی تھی۔ وہ تصویر آزادکشمیر کے کسی قصبے کی تھی جہاں لوگ سیلابی پانی کے ساتھ بہتی لکڑیوں کو پانی سے نکال کرخشک جگہوں پر اکٹھاکررہے تھے۔

اس تصویر کو غور سے دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ جو لکڑیاں میں دیکھ رہا ہوں وہ جلانے کے لئے تیار نہیں ہوئی تھیں۔ انہیں عمارتوں یا فرنیچر کی تعمیر کے لئے بہت مہارت اور لگن سے تیار کیا گیا تھا۔ ان کی "لاوارثی" ٹمبرمافیا" کے اثرورسوخ کی ٹھوس شہادت تھی۔ سوشل میڈیا پراس کے بعد بے تحاشہ ایسی تصاویر دیکھیں جہاں مالاکنڈ کے کئی قصبات کے گھروں اور دوکانوں میں لکڑی کے دیوہیکل شہتیر سیلابی پانی کے ساتھ گھس آئے تھے۔ سوال اٹھتا ہے کہ ہماری وفاقی یا صوبائی حکومتوں میں کوئی ایسا ادارہ موجود ہے جو ٹھوس اعدادوشمار کے ساتھ یہ بتائے کہ آج سے دس سال نہیں تو محض ایک سال قبل گلگت بلتستان، آزادکشمیر اور مالاکنڈ میں اجتماعی طورپر کتنے درخت ریاستی نگرانی میں باقاعدہ ٹھیکے داری نظام کے تحت کاٹے گئے تھے۔ ظاہر ہے جنہوں نے یہ درخت کاٹ کر لکڑی کے ہول سیل تاجروں کو بیچے ہیں ان کے پاس ایسے اعدادوشمار موجود ہوں گے۔ انہیں مگر بے نقاب کیوں نہیں کیا جاسکے گا۔

درختوں کے کٹائو پر غور کیا تو یاد آیا کہ خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف 2013ء سے مسلسل برسراقتدار ہے۔ "سیاسی استحکام" گویا وہاں کا مسئلہ نہیں۔ اس جماعت کے بانی عمران خان، ماحول دوستی کی بھرپور علامت قرار دئے جاتے ہیں۔ انہیں درختوں کے سونامی برپا کرنے کا جنون بھی تھا۔ تحریک انصاف کے خیبرپختونخواہ پر دس سالہ اقتدار کے باوجود مگر اس صوبے میں خوش حالی کے جزیرے کیوں تعمیر نہیں ہوپائے۔ فروری 2024ء سے علی امین گنڈاپور کے ساتھ "مصلحت اور مصالحت" کی انتہاء بھی برتی جارہی ہے۔ استحکام واطمینان مگر نصیب ہوکے نہیں دے رہا۔

یہ حقیقت بھی محض اتفاق نہیں کہ حالیہ کلائوڈ برسٹ نے سب سے زیادہ تباہی باجوڑ سمیت مالاکنڈ ڈویڑن کے ان علاقوں میں پہنچائی ہے جہاں گزشتہ کئی مہینوں سے افغان حکومت کی واضح سرپرستی نہیں تو لاتعلقی کے باعث دہشت گردی ایک بار پھر وحشت کے ساتھ سراٹھارہی ہے۔ ان کے خلاف آپریشن کے لئے چند مخصوص علاقوں سے نقل مکانی کروائی گئی۔ سرکار کی نگرانی میں ہوئی نقل مکانی خصوصی طورپر تیار کی خیمہ بستیوں کی جانب ہوئی۔ ابھی گھروں سے بے گھر ہوئے افراد نئے مقاموں پر بستر بھی نہیں کھول پائے تھے تو کلائوڈبرسٹ ہوگئے۔ ان کی وجہ سے جو تباہی ہوئی اس کا بروقت ازالہ نہ ہوا۔ برباد گھرانوں کو خاطرخواہ مدد فراہم نہ ہوئی تو دہشت گردوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ "مصلحت اور مصالحت" وہاں کام نہیں آئے گی؟

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari