Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Modi Ki Ghor Talab Chand Khatarnak Baatein

Modi Ki Ghor Talab Chand Khatarnak Baatein

مودی کی غور طلب چند خطرناک باتیں

بھارتی پارلیمان میں موجود اپوزیشن جماعتوں کے شدید دبائو کی بدولت مودی حکومت بالآخر حالیہ پاک - بھارت جنگ کو ایوان میں زیر بحث لانے کو مجبور ہوئی۔ بھارتی پارلیمان کی کارروائی کو براہ راست دکھانے کے لئے مختص ٹی وی نے 64گھنٹوں تک چلی اس بحث کو کسی بھی قسم کا ایڈیٹ لگائے بغیر دکھایا۔ اس کی مہربانی سے بھارتی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں یہ لکھنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ جوش خطابت کے حوالے سے مشہور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی میں "مولوی مدن" والی بات موجود نہیں رہی۔

اپوزیشن اراکین کے اٹھائے سوالات کے تشفی بخش جوابات فراہم کرنے کے بجائے موصوف کانگریس پر یہ الزام دھرتے رہے کہ اس کے رہ نما حالیہ پاک-بھارت جنگ کے حوالے سے ویسے ہی سوالات اٹھارہے ہیں جو پاکستان میں اٹھائے جارہے ہیں۔ ایک بار تو انہوں نے بھارت کی سب سے پرانی اور ملک گیرجماعت کو پاکستان کے "ریموٹ کنٹرول" سے چلائی جماعت بھی قرار دے دیا۔

بات وہاں ختم نہ کی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہرلال نہرو کو "سندھودریا" کا"80 فیصد پانی" پاکستان کے حوالے کردینے کا ذمہ دار بھی ٹھہرادیا۔ اس کے بعد کانگریس کی جانب سے آئے وزرائے اعظموں کوبھی وہ "پاکستان کے جانب سے ہوئی مسلسل دہشت گردی" کے باوجود اسی ملک کے ساتھ تجارت کو بے چین ہونے کے طعنے بھی دیتے رہے۔ اس ضمن میں بمبئی حملے کا خاص طورپر ذکر کیا۔ پاک-بھارت جنگ کی تفصیلات پر توجہ دینے کے بجائے وہ کانگریس کو یہ مشورہ دیتے ہوئے سنائی دیئے کہ وہ اندراگاندھی کے پسماندگان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد خودمختارانہ فیصلے کرے۔

جس وقت وہ کانگریس کو "ایک خاندان سے آزادی" کے مشورے دے رہے تھے عین اس وقت بھارتی پارلیمان کے ٹی وی نے کیمرہ ششی تھرور پر کٹ کیا۔ یاد رہے کہ کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اس رکن لوک سبھا کو پاک-بھارت جنگ کے بعد امریکہ کو بھارتی حکومت کا مذکورہ جنگ کے بارے میں مؤقف سمجھانے واشنگٹن بھیجا تھا۔ وہاں موصوف کی امریکہ کے نائب صدر سے ملاقات ہوئی تھی۔ ان پر کیمرہ فوکس ہوا تو شرمندہ ہوگئے۔ مودی حکومت کی جانب سے ان کی کانگریس کے ممکنہ "باغی" کی حیثیت میں اجاگر کرنے کی حرکت انہیں پسند نہیں آئی۔ پارلیمان کا اجلاس ختم ہوا تو صحافیوں سے ایک لفظ کہے بغیر چپکے سے کار میں بیٹھ کر کھسک لئے۔

چسکہ فروشی میں وقت ضائع کئے بغیر سنجیدہ موضوعات پر توجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ پاک-بھارت جنگ 6سے 10مئی 2025ء کے دوران 87گھنٹوں تک جاری رہی تھی۔ اس کا آغاز بھارت کی جانب سے ہوا تھا۔ 22 اپریل 2025ء کے دن مقبوضہ کشمیر کے ایک سیاحتی مقام جو پہلگام وادی کی ایک خوب صورت گھاٹی پر واقع ہے دہشت گردی کی ایک ہولناک واردات ہوئی۔ اس کے دوران نامعلوم دہشت گردوں نے 26کے قریب ہندوسیاحوں کو ان کے خاندان کے سامنے گولیاں مارکر ہلاک کردیا۔ بناکسی ٹھوس ثبوت کے بھارت نے ترنت الزام لگادیا کہ پہلگام پر حملہ کرنے والے پاکستان سے بھجوائے گئے تھے۔ بدلہ لینے کی بڑھکیں بھی لگانے لگے۔

بنیادی الزام یہ لگا کہ جس دہشت گرد تنظیم نے مبینہ طورپر یہ حملہ کیا ہے وہ پاکستان میں عرصہ ہوا کالعدم ٹھہرائی ایک تنظیم کا "جدید ورژن" ہے۔ محاذِ مزاحمت" اس کا نام ہے۔ یہ کالم نگار کئی ہفتے قبل تفصیل سے بیان کرچکا ہے کہ جس تنظیم پر پہلگام حملے کا الزام لگایا گیا تھا اس کے بانی کا اصل نام سجاد ہے۔ وہ سری نگر کے ایک قدیمی محلے میں پڑھ کر جوان ہوا تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد اس نے جدید تعلیم اور کمپیوٹر کاروبار کے حوالے سے مشہور بھارت کے شہر بنگلور میں آئی بی ایم(IBM)کیا تھا۔ 2006ء میں اسے دہشت گردی کے لئے "منی لانڈرنگ" کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ چند دن دلی کی تہاڑ جیل میں رکھنے کے بعد اسے سری نگر جیل منتقل کردیا گیا تھا۔ غالباََ وہ کشمیر کے تناظر میں بھارتی حکومت کی جانب سے "دہشت گرد" ٹھہرایا واحد شخص ہے جسے تہاڑ سے سری نگر منتقل کیا گیا۔ ایسی "سہولت" بدنصیب کشمیریوں کو شاذہی نصیب ہوتی ہے۔

بہرحال "محاذ مزاحمت" کا پاکستان میں کالعدم ٹھہرائی جس تنظیم سے تعلق جوڑا گیا اس کا مرکز لاہور کے نواحی مرید کے میں ہے۔ 6 اور 7جولائی کی درمیانی رات بھارت نے مگر پاکستان میں "دہشت گردوں" کی جن مبینہ "نرسریوں" پر میزائل برسائے ان میں بہاولپور میں قائم ایک مدرسہ اور مساجد بھی شامل تھے جن کا کالعدم ٹھہرائی تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بھارتی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن اراکین مگر مذکورہ بالا تفصیلات میں نہیں الجھے۔ ان کا بنیادی سوال تھا کہ 22 اپریل کے ذمہ داروں کا سراغ لگاکر گرفتار کرنے میں بھارتی حکومت کیوں ناکام رہی۔ یقیناََ اس سوال کو ذہن میں لاتے ہوئے پارلیمان کا اجلاس شروع ہونے کی صبح بھارتی میڈیا کے صفحہ اوّل کو اس خبر سے بھردیا گیا کہ پہلگام واقعہ کے ذمہ دار سری نگر کے نواح میں واقعہ پہاڑی مقام ڈاچی گام کی ایک گھاٹی میں ماردیئے گئے ہیں۔ تینوں افراد جو مارے گئے ان کا تعلق پاکستان سے بتایا گیا ہے۔ دعویٰ یہ بھی ہوا کہ ان کے کپڑوں اور سامان کی تلاشی لینے کے بعد ان کے پاکستان میں "ووٹرنمبر" بھی برآمد کر لئے گئے ہیں۔ پاکستانی عموماََ اپنی جیب میں قومی شناختی کارڈ رکھا کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے ووٹر نمبر کا اسی دن پتہ چلتا ہے اگر روز انتخاب ہم اپنے قریبی پولنگ سٹیشن پر ووٹ ڈالنے کا تردد کریں۔ ہم اپنی جیبوں میں ووٹر نمبر لئے نہیں گھومتے۔

بھارتی پارلیمان میں پاک-بھارت جنگ کے بارے میں عام بحث کے آغاز سے عین ایک دن قبل پہلگام واقعہ کے مبینہ "ذمہ داروں" کا سراغ لگاکر انہیں ہلاک کردینا جائز بنیادوں پر اپوزیشن جماعتوں کو "ڈرامہ" لگا۔ پہلگام اور ڈاچی گام میں بہت فاصلہ ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ نے یہ دعویٰ کیا کہ مبینہ دہشت گردوں کے پہلگام سے ڈاچی گام تک سفر کامئی میں پتہ چلا لیا گیا تھا۔ اپوزیشن لہٰذا یہ سوالات اٹھاتے ہوئے حق بجانب تھی کہ مئی میں "دریافت" مبینہ دہشت گردوں کو زندہ گرفتار کرنے کے بجائے جولائی کے آخری دنوں میں پارلیمان میں پاک- بھارت جنگ پر بحث سے ایک دن قبل کیوں اور کیسے ماردیا گیا۔

دوسرا اہم سوال یہ تھا کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ جنگ امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت کی بدولت روکی یا نہیں۔ راہول گاندھی یاد دلاتا رہا کہ امریکی صدر 29بار یہ دعویٰ کرچکا ہے کہ اس نے پاک-بھارت جنگ رکوائی ہے۔ بھارتی پارلیمان میں اپوزیشن لیڈر تقاضہ کرتارہا کہ نریندر مودی ٹرمپ کا نام لے کر اسے جھوٹا قرار دے۔ اس بنیادی سوال پر توجہ دینے کے بجائے مودی نے بحث کے اختتام پر ہوئی تقریر میں محض یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ اس نے پاکستان کے ساتھ جنگ "کسی بیرونی ملک کے سربراہ" کی خواہش پرنہیں روکی۔ جنگ بندی کی "التجا" درحقیقت پاکستان کی جانب سے آئی تھی۔ اس کے مذکورہ دعوی ٰکے بعد اپوزیشن جماعتیں بیک آواز چلانے لگیں کہ اگر پاکستان کے DGMOنے جنگ بندی کی "فریاد" کی تھی تو اس کی ریکارڈنگ پارلیمان میں سنوائی جائے۔ نریندر مودی نے مگر سنی اَن سنی کردی۔

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اٹھائے بنیادی سوالات کے جواب نہ دینے کے باوجود بھارتی وزیر اعظم نے اپنی تقریر کے دوران چند خطرناک باتیں کہی ہیں۔ وہ سب غور طلب ہیں اور انہیں بین الاقوامی برادری کے سامنے ابھی سے بھرپور انداز میں پیش کرنا ضروری ہے۔ وگرنہ ایک نیا رحجان طے کرنے کی تیاری ہے جو پاکستان اور بھارت کو کامل تباہی کی جانب لے جاسکتا ہے۔ آئندہ کالموں میں ان کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam