Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Mitti Pao

Mitti Pao

مِٹّی پائو

جس سیلاب نے بالائی پنجاب کے خوش حال ترین شمار ہوئے علاقوں میں قیامت خیز تباہی پھیلائی ہے اس کے اسباب کا پیمرا کے لائسنس سے چلائی ٹی وی سکرینوں پر سنجیدگی سے ذکر نہیں ہورہا۔ حق وصداقت کے علمبردار یوٹیوبرالبتہ "ذمہ داروں کی نشاندہی" سے اپنی ہٹی چلارہے ہیں۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ جن افراد یا اداروں کو حالیہ سیلاب کا حتمی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا وہ کبھی جوابدہی کے لئے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے یا نہیں۔ جان کی امان پاتے ہوئے اصرار کرتا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ بطور قوم ہم بھول جانے کے عادی ہیں۔ "مٹی پائو" ہماری سرشت کا بنیادی وصف ہے۔

اتوار کی صبح گھر آئے اخبارات میں سے ایک انگریزی اخبار کا ہفتہ وار ضمیمہ دیکھا تو اس کے اندرونی صفحات پر ایک مضمون چھپا تھا۔ اس کے مطابق محمود غزنوی نے جب سلطنت چھینی تو پرانے بادشاہ کی لائبریری کے علاوہ ان لوگوں کو بھی "اپنا" لیا جو سابقہ بادشاہ کے لئے "علمی" کام کرتے تھے۔ جس تناظر کا بیان ہوا اسے ذہن میں رکھیں تو شاید پرانے دربار سے وابستہ حکماء یا ستارہ شناسوں کی نئے بادشاہوں کوبھی ضرورت تھی۔

محمود غزنوی نے مگر دربار کے سابق "ملک الشعراء " سمیت پرانے دربار کے تمام قصیدہ گوہ بھی اپنے قبضے میں لے لئے۔ بادشاہت قصیدہ گو کے لکھے اشعار کے بغیر بے رونق رہتی ہے۔ پرانے بادشاہ کے سرکاری قصیدہ نویسوں نے محمود غزنوی کی شان میں طبع آزمائی شروع کردی ہوگی۔ محمود کی "فیاضی" کے قصے سن کر شاہ نامہ لکھنے والے فردوسی بھی ایران چھوڑ کر اس کے غزنی میں آگئے۔ ان کو مگر مناسب "ریٹ(Rate)"نہ ملنے کا شکوہ رہا۔ شنید ہے کہ محمود کی "کنجوسی" سے اُکتاکر بھیس بدل کر اس کی سلطنت سے باہر نکل گئے تھے۔ چند راوی اگرچہ مصر ہیں کہ موصوف کو شاہی مخبروں نے سرحد پار کرنے سے روک دیا تھا۔

میں جس مضمون کا ذکر کررہا ہوں اس میں البتہ پہلی بار جدید سائنسی آلات کے بغیر زمین کا قطر اپنے پوٹھوہارکی نندھنا پہاڑی پر بیٹھ کر ماپنے والے البیرونی کا ذکر بھی تھا۔ موصوف کا تعلق آج کے ازبکستان سے تھا۔ محمود غزنوی کے دربار سے وابستہ ہونا پسند نہ کیا۔ وہاں سے کھسک لئے تو شاہی مخبروں نے سراغ لگالیا۔ جو مضمون پڑھا وہ یہ بتانے سے قاصر تھا کہ البیرونی نے زمین کا قطر محمود غزنوی کی غلامی میں ماپا تھا یا مذکورہ تاریخی واقعہ ان کی گمشدگی کے دوران ہوا۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ محمود غزنوی کے چارج لینے سے قبل ہی اپنے پوٹھوہار کی پہاڑی تک (جو آج کے چوہاسیدن شاہ کے نہایت نزدیک ہے) قطر ماپنے کی غرض سے براجمان ہوچکے ہوں۔ ان کی عدم حاضری مگر بادشاہ نے دانستہ عدم موجودگی تصور کی ہو۔

تاریخ کی بھول بھلیوں میں الجھ جانے کے بجائے جھٹ سے یہ بات تسلیم کرلیتے ہیں کہ دورِ حاضر کی حکومتیں بھی نئے قصیدہ نویس ڈھونڈنے کے بجائے "شرطیہ میٹھے" قسم کے منشیوں پر اکتفا کو ترجیح دیتی ہیں۔ مجھ جاہل کی بدقسمتی رہی کہ اخبار نویسی کو اس صنف کے لئے استعمال کرنے کے ہنر سے محروم رہا۔ 1975ء سے عمر کے آخری حصے میں داخل ہونے تک مسلسل قلم گھسیٹا اور ٹائپ رائٹرپر انگلیاں گھمائی ہیں۔ اس کے باوجود آج تک کسی بھی حکومت سے کوئی ایسا تمغہ نصیب نہیں ہوپایا جسے گلے میں لٹکا کر "شاہ کا مصاحب" ہونے کے گماں میں اِتراتا پھروں۔ دائمی بے ہنری نے ہمیشہ دربار سے دور رکھا۔ اس دوری کے باوجود ٹھوس مشاہدہ کی بدولت یہ بڑھک لگاسکتا ہوں کہ "احتساب" نام کی شے اس ملک کے نصیب میں نہیں۔

1980ء کی دہائی کے وسط سے لوڈشیڈنگ کے گھنٹے شروع ہوئے تھے۔ جب وہ شروع ہوئے تو اسلام آباد میں"اندر کی خبر" رکھنے کے دعوے دار یا اس حوالے سے مشہور افراد سرگوشیوں میں مجھے بتاتے کہ پاکستان کے دارالحکومت میں شام کے اوقات میں بجلی اس شہر میں مقیم سفارت کاروں کو یہ پیغام دینے کے لئے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بند کردی جاتی ہے کہ دنیا کو پیغام ملے کہ ایٹمی توانائی کے بغیر ہم بجلی پیدا نہیں کر پائیں گے۔ میرا جھکی ذہن اس دعویٰ کو جھٹلانے کے لئے کالا باغ ڈیم پر ہونے والے مباحث کا حوالہ دیتا تو طنزیہ مسکراہٹ سے بتایا جاتا کہ یہ مباحث "سائیڈشو" ہیں۔ ایٹمی توانائی کا حصول ہی اصل ہدف ہے۔

1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت آئی تو آئی پی پی کا غلغلہ مچا۔ وہ قائم ہوگئے تو محترمہ کی حکومت آئینی مدت مکمل کئے بغیر "فاروق بھائی" کے ہاتھوں برطرف ہوگئی۔ نواز شریف صاحب دوسری بار وزیر اعظم ہائوس لوٹے تو ان کے احتساب الرحمن نے بجلی پیدا کرنے والوں کو بلااستثناء کرپٹ قرار دے کر انہیں گرفتار کرناشروع کردیا۔ 1998ء میں ربّ کریم کے فضل سے ہم نے دنیا کو ایٹمی قوت ہونا بھی ثابت کردیا۔ نواز حکومت کی دوسری اور تیسری حکومت اس کے باوجود نجی سرمایہ کاری سے بجلی بنانے والوں کی حوصلہ افزائی میں مصروف رہی۔

بجلی کے حوالے سے ہماری اجتماعی ضروریات ابھی تک 25ہزار میگاواٹس سے مزید نہیں بڑھیں۔ ہم مگر 40ہزار سے زیادہ میگاواٹس پیدا کرنے کے قابل ہوچکے ہیں۔ دنیا بھر میں سرمایہ داری کا کلیدی کلیہ طلب اور رسد کا رشتہ ہے۔ ہم مگر خود کو نامطلوب بجلی کی قیمت بھی معاہدوں کے اعتبار سے ادا کرنے کے پابند ہیں۔ سوال اٹھتے ہیں کہ طلب ورسد کے کلیدی اصول کو پامال کرنے والے یہ معاہدے کس نے کئے۔ ان کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ جن معاہدوں پر دستخط ہوئے ان کی شرائط پر ریگولر اور سوشل میڈیا میں کبھی تفصیل سے بحث ہوئی؟ میری دانست میں قومی اسمبلی اور سینٹ کی کمیٹیوں میں بھی اس موضوع پر تفصیلی مباحث نہیں ہوئے۔ افسران بالا نے بجلی پیدا کرنے والوں کے ساتھ بلاخوف وخطر معاہدوں پر دستخط کردئے۔ ان کی وجہ سے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لئے ہم مہنگے داموں بجلی خریدنے کو مجبور کئے چلے جارہے ہیں۔

اس غرض سے شمسی توانائی کا استعمال غالباََ کچھ عرصے بعد ہمارے ہاں"منشیات فروشی" جیسا جرم قرار پاسکتا ہے۔ حکومت کا دُکھ ہے کہ "نیشنل گرڈ" سے بجلی خرید کر استعمال کرنے والوں کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی واقعہ ہورہی ہے۔ اس لئے شمسی توانائی جیسے منصوبوں کی سرکاری حوصلہ شکنی درکار ہے۔ ہمیں بطور قوم لہٰذا پتھر کے زمانے میں زندہ رہنے کو مجبور کیا جارہا ہے۔ سیلاب کے حوالے سے فقط لاہور کے تناظر میں عمران حکومت یا موجودہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا۔ چند افراد کے نام لے کر انہیں شرمندہ کرنے کی کوشش کرنا اس امر کی ہرگز ضمانت نہیں دیتا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے موجودہ دور میں اگلا مون سون سیزن اس تباہی کا باعث نہیں ہوگا جو اب کی بار دیکھنے کو ملی ہے۔

حالیہ سیلاب کا سنجیدہ مطالعہ ہی ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو تباہ کن سیلابوں سے بچاسکتا ہے۔ سنجیدہ مطالعہ مگر قاری، سامع اور ناظر کو آپ کا لکھا یا پوسٹ کیا پیغام دوسروں سے شیئر کرنے کو نہیں اُکساتا۔ یوں آپ "مشہوری" سے محروم رہتے ہیں۔ "مشہوری" جبکہ دور حاضر کا بنیادی تقاضہ ہے۔ اس کے حصول کی خاطر "BBC"چینل بنتا ہے جو "بھائی بہن چینل" کا مخفف ہے۔ اس کی دلیراینکرنے کشتی میں کھڑے ہوکر حفاظتی جیکٹ پہن کر جس طرح سیلاب کو رپورٹ کیا ہے وہ دورِ حاضر کے صحافیوں کے لئے نصاب شمار ہونا چاہیے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan