مارچ 1977ء کی تاریخ دہرائے جانے کا دھڑکا
حکومت ڈٹ گئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو واضح الفاظ میں بتادیا ہے کہ اگر وہ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے پولنگ کا عمل سرانجام دینے کو آمادہ نہ ہوا تو اس کے فنڈروک لئے جائیں گے۔ یہ فنڈ رک گئے تو الیکشن کمیشن کے اعلیٰ ترین حکام کے علاوہ نچلے درجے کے ملازمین کو تنخواہیں بھی نہیں مل پائیں گی۔ الیکشن کمیشن کے دفاتر بجلی وغیرہ کے بل ادا نہیں کر پائیں گے۔ بالآخر اس ادارے کو بند کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد کیا ہوگا۔ یہ سوال صحافیوں نے مگر اٹھایا نہیں۔ منگل کے روز ہوئے کابینہ کے اجلاس کی بابت بریفنگ دیتے ہوئے وزیر اطلاعات جناب فواد چودھری صاحب بھی اس ضمن میں اپنے تئیں خاموش رہے۔ مقصد ان کا تڑی لگانا تھا۔ وہ سینہ پھلاکر لگادی گئی ہے۔ اگے تیرے بھاگ لچھیئے۔
قانون میرا شعبہ نہیں۔ پارلیمانی کارروائی کا 1985سے رپورٹر ہوتے ہوئے تاہم ہمارے تحریری آئین کی کافی شقیں یاد ہوچکی ہے۔ ان میں سے چند آسان ترین الفاظ میں مجھ جیسے عام پاکستانی کو سمجھادیتی ہیں کہ الیکشن کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہے۔ وہ مختلف وزارتوں کی طرح حکومتی ہدایات پر ہر صورت عمل کرنے کا پابند نہیں۔ حکومت نے اس کے ہاتھ باندھنے کے لئے اگرچہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے زور زبردستی ایک قانون پاس کروالیا ہے۔
مذکورہ قانون انتخابات کے دوران ووٹ کی پرچی پر مہر لگانے کے بجائے پولنگ اسٹیشنوں میں رکھی الیکٹرانک مشینوں میں نصب بٹنوں پر اُنگلی رکھتے ہوئے ووٹ ڈالنے کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس قانون کی عجلت میں منظوری سے قبل اپوزیشن بنچوں پر بھاری بھر کم تعداد میں بیٹھی دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہوں نے دھواں دھار تقاریر کیں۔ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری مصر رہے کہ ان کی مشاورت کے بغیرزبردستی منظور کئے اس قانون کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری نے یہ اعلان بھی کردیا کہ مشینوں کے ذریعے ہوئے انتخاب کے نتائج کو وہ کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔ عمران حکومت مگر ان دنوں کی اپوزیشن کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔
جولائی2018میں جو انتخاب ہوئے تھے اس کی شفافیت کی بابت بھی اپوزیشن جماعتوں خاص طورپر نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ نے بے تحاشہ سوالات اٹھائے تھے۔ یہ سوالات اٹھانے کے بعد سیاسی منطق کا تقاضہ تھا کہ اس کی ٹکٹ پر جو لوگ مبینہ دھاندلی کے باوجود قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے منتخب ہوگئے تھے وہ رکنیت کا حلف اٹھانے سے انکار کردیتے۔ وہ یہ جرأت مگر دکھا نہیں پائے۔ سرجھکائے ایوان میں داخل ہوگئے۔ اپوزیشن اراکین کی جانب سے رکنیت کا حلف اٹھانا اصولی طورپر جولائی 2018کے انتخابی عمل کو تسلیم کرنے کے مترادف بھی تھا۔ اس کے علاوہ محض تقاریر ہیں۔ سیاپا فروشی ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔
کہانی مگر یہاں ختم نہیں ہوتی۔ رکنیت کے حلف اٹھانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے دو اہم ترین قوانین کو تاریخی عجلت میں پاس کروانے میں بھی حکومت کا دل وجان سے ساتھ دیا۔ ان میں سے ایک قانون نے ایک اہم ریاستی ادارے کے سربراہ کی میعادِ ملازمت میں توسیع کو باقاعدہ بنایا تھا۔ دس سے زیادہ قوانین کا مقصد پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلوانا بتایا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ مذکورہ قوانین کے پاس ہوجانے کے کئی ماہ گزرجانے کے بعد بھی پاکستان ابھی تک گرے لسٹ میں اٹکا ہوا ہے۔ اہم ترین قانون سازی کے لئے دنیا بھر کی پارلیمانی جمہوریتوں میں حکومتیں اپوزیشن جماعتوں کی منتیں کرنے کو مجبور ہوتی ہیں۔
عمران حکومت نے ایسے تردد کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ ابھی میعادِ ملازمت میں توسیع کو باقاعدہ بنانے والے قانون کا مسودہ بھی تیار نہیں ہوا تھا تو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف جناب شہباز شریف صاحب نے اس کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کردیا۔ اس اعلان نے پیپلز پارٹی کو حیران کردیا۔ اس کی جانب سے تیار ہوئے قانون میں چند ترامیم متعارف کروانے کی کوشش بھی ہوئی۔ بلاول بھٹو زرداری ان ترامیم کے لئے بضد رہے تو ان کے والد سے رابطہ ہوا۔ جس دن یہ قانون قومی اسمبلی سے پاس ہونا تھا اس روز پیپلز پارٹی کے جواں سال چیئرمین اپنے بیڈ روم سے باہر نہ نکلے۔ بظاہر فلو اور بخار کی وجہ سے اسلام آباد والے گھر ہی میں مقیم رہے۔ ان کی عدم موجودگی میں پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے حکومت کو مذکورہ قانون 12منٹ میں منظور کروانے کی سہولت فراہم کردی۔
میعادِ ملازمت میں توسیع کو باقاعدہ بنانے والے قانون کے بعد پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے دس سے زیادہ قوانین بھی اپوزیشن کی دونوں بڑی جما عتوں کی غلامانہ رضا مندی سے منظور ہوئے۔ جب یہ قوانین منظور ہوگئے تو وزیر اعظم صاحب نے اپوزیشن کے تعاون کا شکریہ ادا کرنے کے لئے ایوان میں کھڑے ہوکر دو فقرے بھی نہیں کہے۔ ان کی رعونت دِکھتی خاموشی نے واضح پیغام دیا کہ مذکورہ قوانین کی منظوری کے لئے جمہوریت کی چمپئن بنی اپوزیشن جماعتوں نے درحقیقت ہماری ریاست کے اصل مالکوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ عمران خان صاحب کے لئے لہٰذا ان کا شکریہ ادا کرنا واجب نہیں۔ طاقت ور ریاستی اداروں کی خوشنودی کی طلب گار اپوزیشن جماعتوں کو ٹھوس وجوہات کی بنا پر وہ کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ جو جماعت لاہور سے حامیوں کے جتھے لے کر اسلام آباد پر یلغار کرنے کا ارادہ باندھ لے یہ حکومت فقط اس کے آگے جھکتی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے فدویانہ چلن کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومت کو یقین ہے کہ بالآخروہ الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے ہوئے انتخاب کو تسلیم کرنے کو بھی آمادہ ہوجائیں گی۔ ان کی آمادگی کے باوجود وطن عزیز کی تاریخ کا طالب علم ہوتے ہوئے اصرار کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ اگر یہ حکومت اپنی ضد پرڈٹی رہی تو آئندہ انتخابات مارچ 1977کی تاریخ ہی دہرائیں گے۔