Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Kenyai Novel Nigar Ngugi Wa Thiongo Aur Madri Zuban Ki Ahmiyat

Kenyai Novel Nigar Ngugi Wa Thiongo Aur Madri Zuban Ki Ahmiyat

کینیائی ناول نگار نگوگی وا تھیونگو اور مادری زبان کی اہمیت

تقریباً دو ماہ قبل کینیا کا ایک معروف ناول نگار اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ نگوگی وا تھیونگو (Ngugi wa Thiong'o)نامی اس لکھاری کے نام اور کام سے میں قطعاً ناواقف تھا۔ نیویارک ٹائمز میں لیکن اس کی موت کے بعد آدھے صفحے کا ایک مضمون چھپا۔ اسے پڑھتے ہوئے میں نے اس کی مقبولیت جاننے کی کوشش کی۔ انھیں تلاش کرتے ہوئے اطلاع یہ بھی ملی کہ نگوگی اپنا ہر ناول، افسانہ یا ڈرامہ سب سے پہلے اپنی مادری زبان میں لکھتا تھا۔ اس کی مادری زبان کیکویوہے۔ اسے کینیا کے تقریباً 22فیصد لوگ بولتے ہیں۔ یہ زبان بولنے والے کینیا کا سب سے بڑا لسانی ونسلی گروہ بھی ہیں۔ اس سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نے کینیا کو برطانوی سامراج سے آزادی دلوانے میں نمایاں کردار بھی ادا کیا تھا۔

مجھے یہ پڑھتے ہوئے بہت حیرت ہوئی کہ بین الاقوامی سطح پر مشہور ہوانگوگی ہمیشہ اپنی مادری زبان میں لکھنے کے بعد ہی اسے کسی اور زبان میں ترجمے کی خاطر دوسروں کے حوالے کرتا۔ اپنے چند ناولوں کا انگریزی زبان میں اس نے خود ہی ترجمہ بھی کیا۔ نگوگی کی مادری زبان سے جنونی دِکھتی محبت نے مجھے اس کا تقابل سیموئل بیکیٹ (Samuel Beckett) سے کرنے کو مجبور کیا۔ آئرلینڈ میں پیدا ہوا یہ مشہور لکھاری اپنا ہر ڈرامہ جو لایعنی تھیٹر، (Absurd Theatre)کی صنف شمار ہوتا ہے اولاً انگریزی میں نہیں بلکہ فرانسیسی زبان میں لکھا کرتا تھا۔ مادری زبان کے بجائے غیر ملکی زبان میں لکھنے کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ دوسری زبانوں میں لکھتے ہوئے آپ معاملات کو بیان کرنے کے لیے لاشعوری طورپر فقط وہ الفاظ ڈھونڈتے ہیں جو انھیں ٹھوس انداز میں بیان کرسکیں۔ بیکیٹ کے مقابلے میں نگوگی مرتے دم تک یہ اصرار کرتا رہا کہ اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں لکھنے والے سچ بیان ہی نہیں کرسکتے۔۔

نگوگی کی نوجوانی اس ملال کی نذر ہوگئی کہ برطانیہ سے نام نہاد آزادی حاصل کرلینے کے بعد کینیا کے حکمران اور امیر طبقات غیر ملکی قبضہ گروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ سفاک، بدعنوان اور اپنی زندگی پر تعیش بنانے میں مصروف ہوچکے ہیں۔ انھیں للکارنے کے لیے نگوگی نے اپنی مادری زبان میں ایک ڈرامہ لکھا۔ یہ سٹریٹ تھیٹر، کی اولیں صورت تھا۔ اس کے اداکار، ان دیہاتوں کے باسی ہی ہوتے جہاں پہنچ کر نگوگی اس ڈرامے کو زمین پر دائرے کی صورت بیٹھے لوگوں کے درمیان لگائے سٹیج، پر رچاتا۔

1977ء کے برس مذکورہ ڈرامے نے کینیا میں تھرتھلی مچادی تو وہاں جو موکینیاٹا کی آمرانہ حکومت نے اسے ریاست کے خلاف بغاوت پھیلانے، کے جرم میں گرفتار کرکے ایک ایسی جیل میں بند کردیا جو سنگین جرائم کی وجہ سے سزا یافتہ ہوئے قیدیوں کے لیے مختص تھی۔ جیل میں قید کے دوران بھی نگوگی لکھنے سے باز نہ آیا۔ وہ اس بہانے دن میں کئی بار قید تنہائی میں ہوتے ہوئے غسل خانے جاتا کہ جیل کے کھانے نے اس کو پیٹ کے مرض میں مبتلا کردیا ہے۔ لیٹرین میں بند ہوکر وہ ٹائلٹ پیپر پر ایک ناول لکھنا شروع ہوگیا۔ صلیب پر لٹکا شیطان، (Devil on the Cross) اس ناول کا عنوان تھا۔ حکومت نگوگی کو ایک سال قید تنہائی میں رکھنے کے باوجود اس کے خلاف کوئی مقدمہ نہ چلاپائی۔

وہ رہا ہوا تو ٹائلٹ پیپر پر لکھے ناول کو کاغذ پر منتقل کرنے کے بعد اس کا انگریزی ترجمہ کرنا شروع ہوگیا۔ ترجمہ مکمل ہوگیا تو اسے چھپنے کے لیے کینیا سے باہر بھیج دیا۔ برطانیہ میں یہ ناول چھپا تو وہاں مقیم کینیا سے آئے لوگوں ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلی افریقی کمیونٹی میں اس کی دھوم مچ گئی۔ کینیا کی حکومت اس کی مقبولیت سے بھناگئی مگر اسے گرفتار کرنے سے گریز کیا۔ اس کی گرفتاری سے اجتناب کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ نگوگی جیل میں گزرے ایام کی سنگینی کو حقیقت پسندانہ مگر دل دہلادینے والے انداز میں بیان کرچکا تھا۔ اسے گرفتار کرنے کے بجائے حکومت کینیا نے اس کی سخت نگرانی شروع کردی تاکہ وہ معاشرے میں باغیانہ جراثیم، پھیلانے کے قابل نہ رہے۔ دریں اثناء 1982ء میں نگوگی کو برطانیہ میں منعقد ہوئی ایک ادبی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ مل گیا۔ وہ اس میں شمولیت کے لیے کینیا سے نکلا اور واپس لوٹنے سے گریز کیا۔

برطانیہ میں قیام کے دوران اس نے مزید ناول لکھے۔ وہ امریکا میں بھی بہت مشہور ہوئے۔ وہاں کی افریقین کمیونٹی نے اسے اپنا ترجمان تصور کرلیا۔ انھی کی دعوت پر وہ امریکا گیا تو وہاں کی ایک یونیورسٹی نے اسے تخلیقی تحریر، کا ہنر سکھانے کے لیے ملازم رکھ لیا۔ اس ملازمت کی بدولت اسے امریکی شہریت بھی مل گئی۔ امریکی شہریت مل جانے اور افریقین کمیونٹی میں بہت مقبول ہوجانے کے بعد اس نے 22سال کی طویل جدائی کے بعد مادرِ وطن کا پھیرا لگانے کا ارادہ کیا۔

کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے ایک مہنگے رہائشی ٹاور میں اپارٹمنٹ لینے کے دو ہی دن بعد لیکن اس کے کمرے میں نامعلوم افراد، گھس آئے۔ انھوں نے نگوگی پر بے تحاشا تشدد کیا۔ اس کے جسم پر جلتے سگریٹوں سے نشان لگائے اور اس کی بیوی کو اس کی آنکھوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس کے پاس موجود نقدی اور لیپ ٹاپ وغیرہ بھی چھین لیے گئے۔ ملزموں کے فرار کے بعد کینیا کی پولیس نے ان کی گرفتاری کی نیم دلانہ کوشش کی۔ نگوگی کو یقین تھا کہ 22برس بعد وطن لوٹنے والے باغی، کو اس کے خیالات کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ کینیا کی حکومت تبدیل ہوجانے کے باوجود وہاں کی حکمران اشرافیہ نے اس کی گستاخانہ تحریروں کو فراموش اور معاف نہیں کیا۔

نگوگی کے بارے میں نیویارک ٹائمز میں چھپامضمون پڑھنے کے بعد اسلام آباد میں مسلسل بارش کی وجہ سے اپنے کمرے تک محدود ہوا میں گزری جمعرات پوری رات جاگ کر نگوگی کے بارے میں لکھے مزید مضامین انٹرنیٹ پر ڈھونڈ کر پڑھتا رہا۔ اس کی ذاتی زندگی پر گزرے صدمے تھوڑی دیر کو بھلا کر میں کئی گھنٹے احساسِ جرم میں بھی مبتلا رہا۔ جو زبان میں نے اپنی ماں کی گود میں بیٹھ کر سنی اور جسے بچپن سے جوانی تک اپنے محلے اور شہر میں استعمال کرتا رہا اس زبان یعنی پنجابی میں ایک فقرہ بھی نہیں لکھ سکتا۔ اکثر یہ کالم لکھتے ہوئے ذہن میں کوئی شے بیان کرنے کے لیے پنجابی کا کوئی لفظ نمودار ہوجاتا ہے۔ اسے لکھنے کے بعد میں بریکٹ میں اس کا اردو ترجمہ بھی لکھتا ہوں۔

اس کے علاوہ کئی پنجابی الفاظ ایسے ہیں جو میرے ذہن میں آئیں تو میں انھیں اس خوف سے نہیں لکھتا کہ میں نے انھیں جس انداز میں سنا ہے اِملا کی صورت بیان نہ ہوپائے گا۔ مثال کے طورپر پنجابی میں پیٹ کے لیے جو لفظ استعمال ہوتا ہے اسے "ڈِھڈ" کہتے ہیں۔ مجھے یقین نہیں کہ میں نے جس طرح یہ لفظ ابھی لکھا ہے وہ آپ کے ذہن میں اس کا وہی تلفظ لائے گا جو میری یادداشت میں محفوظ ہے۔ سوال اگرچہ یہ بھی اٹھتا ہے کہ اپنی مادری زبان کے علاوہ اردو اور انگریزی میں خبریں اور کالم لکھتے ہوئے میں بقول نگوگی واقعتاسچ، نہیں بلکہ جھوٹ لکھتا رہا ہوں؟ اس سوال پر تفصیلی غور تسلی بخش جواب فراہم نہیں کرپایا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali