کٹھ پتلیئوں کا کھیل بنی ہماری سیاست

عرصہ ہوا شعوری طورپر یہ کوشش کرتا ہوں کہ اس کالم میں ملکی سیاست کو زیر بحث نہ لایا جائے۔ دیگر موضوعات کی تلاش عالمی اخبارات اور چند کتابیں غور سے پڑھنے کو مجبور کرتی ہے۔ سیاست سے ہٹ کر جن موضوعات پر لکھا وہ اکثر قارئین کو پسند بھی آئے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ 1975ء سے سیاست اور خارجہ امور کے بارے میں خبریں اور کالم لکھ کر ہی رزق کمایا ہے۔ عمر کے آخری حصے میں بوڑھے گھوڑے کو انگریزی محاورے والے نئے کرتب سیکھنے میں دشواری ہورہی ہے۔
دریں اثناء گزرے ہفتے میاں اظہر صاحب کا انتقال ہوگیا۔ میرے آبائی شہر لاہور سے ابھرے وہ ایک قدآور سیاستدان تھے۔ شریف خاندان سے ان کے نسلوں سے مراسم تھے۔ جنرل مشرف کے دورمیں لیکن دونوں کے تعلقات میں دراڑ آگئی۔ یہ دراڑ اس وقت تقریباََ دشمنی کی صورت اختیار کر گئی جب میاں اظہر کے فرزند حماد تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ لاہور سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوجانے کے بعد حماد اظہر عمران حکومت میں مختلف اہم وزارتوں پر فائز بھی رہے۔ میرا ان سے ذاتی تعلق لیکن استوار نہ ہوا۔ میاں اظہر صاحب سے بھی گرم جوش قربت میسر نہ تھی۔ اپنے بزرگوں کی بدولت ان کی ذات، خاندان اور حجانات سے شناسائی البتہ حاصل تھی۔
ان کے انتقال کی خبر ملنے کے بعد میں نے میاں اظہر کی شریف النفسی بیان کرنے کے لئے فقط ایک واقعہ پر مبنی کالم لکھ دیا۔ اس کالم میں یہ بیان کیا کہ کارگل کی وجہ سے مشرف اور نواز شریف کے درمیان اختلافات بڑھنا شروع ہوئے تو "اِن ہائوس تبدیلی" کی بات چل نکلی۔ میں نے مذکورہ تناظر میں رپورٹر کی مشقت کی بدولت یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر نواز شریف کو قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کا فیصلہ ہوگیا تو میاں اظہر ان کے مؤثر ترین متبادل ثابت ہوسکتے ہیں۔ اپنے ذہن میں آئے اس خیال کو ان دنوں انگریزی میں لکھی پریس گیلری میں بیان کردیا۔
گیلری چھپ گئی تو میاں اظہر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے جب بھی ایوان میں داخل ہوکر اپنی نشست پر براجمان ہوتے تو سنٹرل پنجاب سے نون لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے ارا کین اسمبلی ان کے گرد جمگھٹے کی صورت جمع ہونا شروع ہوجاتے۔ پریس گیلری میں بیٹھے صحافی کو وہ سازشی سرگرشیوں میں مصروف نظر آتے۔ میں اپنے کالموں میں مذکورہ جمگھٹے کو مرچ مصالحہ لگاکر بیان کرتا رہا۔ اس سے باز رکھنے کے لئے میاں اظہر مرحوم 1999ء کے وسط میں قومی اسمبلی کی پریس گیلری کی جانب جاتی سڑھیوں کے قریب بنی دیوار سے ٹیک لگاکر میرا انتظار کررہے تھے۔
مجھ سے ملاقات ہوئی تو انتہائی دیانتداری اورانکساری سے انکشاف کیا کہ میرے لکھے کالم چھپنے کے فوراََ بعد نواز شریف کے والد مرحوم کو بھجوائے جاتے ہیں۔ وہ حیران ہوتے ہیں کہ "میں ان کے بیٹے کی وزارت عظمیٰ کے خلاف ابھرتی سازش کا حصہ کیوں بن رہا ہوں"۔ نہایت خلوص سے میاں صاحب نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اپنے کالموں میں ان کا ذکر کرنے سے باز رہوں۔ میں نے وعدہ کیا۔ اسے نبھایا بھی۔ نواز حکومت اس کے باوجود اکتوبر1999ء میں جنرل مشرف کے ٹیک اوور سے بچ نہ پائی۔
میاں اظہر مرحوم کے بارے میں چھپا کالم سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوا تو ن لیگ کے بے شمار (میری دانست میں کرائے کے پرستاروں) نے مجھے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا خیال تھا کہ میاں اظہر صاحب کی رحلت کے بعد میں ان کے بارے میں "مذمتی" کالم لکھوں گا۔ لوگوں کو یہ بتائوں گا کہ مسلم لیگ (ق) کے قیام اور اس کی قیادت سنبھالتے ہوئے میاں اظہر مرحوم نے شریف خاندان کو جواُن کے دُکھ سکھ کا ساتھی تھا "دھوکا" دیا۔ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ میری بدقسمتی کہ پرانی وضع کا صحافی ہوں۔ کسی کی موت کی خبر ملے تو ان سے متعلق اچھی باتیں یاد رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ انجیل کے ایک فرمان کے مطابق مجھے غیبت کے ذریعے "مردہ بھائی کا گوشت کھانے" کی عادت نہیں۔ جب بھی توفیق نصیب ہوئی تو طاقتوروں کے بارے میں ان دنوں ہی میں کچھ تنقیدی فقرے لکھے جب وہ فرعونِ وقت بنے ہوئے تھے۔
مجھ سے ناواقف نقاد میرے لئے گمنام تھے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی میں نے کبھی سڑک پر پولیس کی لاٹھی کھاتے نہیں دیکھا۔ بقول اقبال ایسے افراد گفتارکے غازی ہیں۔ موبائل فون پر واہی تباہی بک کر خود کو "انقلابی" ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے "فدائین" کا بھی یہ ہی عالم ہے۔ چند دن قبل ان کی جماعت کے انتہائی سینئر رکن اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی 8مئی کے حوالے سے قائم ہوئے فقط ایک مقدمے میں بری ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر ان کی ذات پر کیچڑ کی بالٹیاں برسنا شروع ہوگئیں۔ سازشی کہانی یہ چلی کہ شاہ محمود قریشی کو" مائنس عمران" تحریک انصاف کے قیام کے لئے لانچ کیاجارہا ہے۔
میں نے یہ خیالات سنے تو یہ سوچنے سے گریز نہیں کرپایا کہ کسی سیاست دان کو"مائنس" کرنے کے لئے اب اسے جیل میں رکھنا ضروری نہیں رہا۔ اس ضمن میں "سائنس" بہت ترقی کرگئی ہے۔ مثال کے طورپر میاں نوازشریف صاحب تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد "پانامہ پیپرز" کی بدولت 2016ء کے اپریل میں لگائی گیم کے مطابق 2017ء میں سپریم کورٹ کے ہاتھوں "خائن اور جھوٹا" ٹھہر کر تاحیات نااہل ہوئے۔ 2018ء کے انتخابات کے قریب وہ اپنی قریب المرگ اہلیہ کو لندن میں بستر مرگ پرچھوڑ کر اپنی دُختر سمیت وطن لوٹے تو انہیں لاہور ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری کے کچھ عرصے کے بعد انہیں لندن جلاوطن کردیا گیا۔
2024ء کے انتخاب کے قریب مگر "وقت" بدل چکا تھا۔ میاں صاحب ان انتخابات میں حصہ لینے کے لئے وطن لوٹے تو اسلام آباد ایئرپورٹ پر ہی ان کا بائیومیٹرک ہوا اور چند ہی دنوں بعد وہ دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے کے قابل ہوگئے۔ اب ان کے برادرِ اصغر جناب شہباز شریف وطن عزیز کے وزیر اعظم ہیں۔ دُختر مریم نواز صاحبہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ ہیں۔ میاں نواز شریف صدر مسلم لیگ (نون) ہیں۔ ریاستی فیصلہ سازی میں لیکن وہ کتنے فیصلہ کن ہیں؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے آپ کے ذہن میں "مائنس" کا لفظ آجائے تو مجھے معاف کردیجئے گا۔ "سیاست" وطن عزیز میں فقط کٹھ پتلیوں کا کھیل بن چکی ہے۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے "مذمت" یا "حمایت" فروعی عمل دِکھنا شروع ہوگئے ہیں۔ ہم بحیثیت قوم مگر اِس یا اُس لیڈر کے "چاچا خواہ مخواہ" بنے اپنے دلوں میں جمع ہوئی کدورتیں نکال رہے ہیں۔

