Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Imran Khan Par Guzri Qayamat Ka Tazkira

Imran Khan Par Guzri Qayamat Ka Tazkira

عمران خاں پر گذری "قیامت" کا تذکرہ

تحریک انصاف کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود دل سے دعا ہمیشہ یہ نکلی ہے کہ ربّ کریم اسے (نادان) دوستوں سے محفوظ رکھے۔ مجھ گنہگار کی دعائیں مگر قبول نہیں ہوتیں۔ تحریک انصاف کے ضمن میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ اس جماعت کے (نادان) دوستوں نے رواں مہینے کی 2 اگست کو نیویارک ٹائمز جیسے قدیمی اور دھانسو شمار ہوتے اخبار میں ایک فل پیج اشتہار چھپوایا ہے۔ اس کے ذریعے ٹرمپ جیسے "جمہوریت نواز" اور "انسانی حقوق کے علمبردار" امریکی صدر سے فریاد کی ہے کہ وہ عمران خان کی رہائی میں اپنا کردار ادا کریں۔ جو فریاد لکھی گئی اس میں دی گئی تفصیلات کو پڑھ کر یوں گماں ہوتا ہے کہ بانی تحریک انصاف مشہور افریقی حریت پسند- نیلسن مینڈیلا- جیسی قید کاٹ رہے ہیں۔ ان پر "ظلم" کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لئے امریکہ کے ایک قانون کا ذکر بھی ہوا ہے۔

ذاتی طورپر میں ہمیشہ اصرار کرتا رہا ہوں کہ جیل میں بند کسی بندے کواگر پنج ستارہ ہوٹلوں والی مراعات بھی فراہم کردی جائیں تب بھی جیل، جیل ہی رہتی ہے۔ اپنی آزادی کھودینے کا احساس "وی وی آئی پی" قیدی کو بھی پریشان رکھتا ہے اور عمران خان کرشمہ ساز ہونے کے باوجود بالآخر ایک انسان ہیں۔ اپنی آزادی کھودینے کو وہ شدت سے محسوس کررہے ہوں گے اور ان کے جذبات کا تمسخراڑانا میرے بس کی بات نہیں۔

یہ لکھ دینے کے بعد نہایت دُکھ سے عرض یہ بھی کرنا ہوگا کہ وطن عزیز سابق وزرائے اعظم کے ساتھ ہمیشہ بے رحمی کا سلوک ہی کرتا رہا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو تو پھانسی پر لٹکادئے گئے تھے۔ ان کے بعد نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی کو بھی اقتدار کھودینے کے بعد ذلت بھری اسیری سے گزرنا پڑا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو دن دیہاڑے قتل کردی گئی تھیں۔ اقتدار سے محرومی کے دنوں میں ذلت ورسوائی بھگتنے کے بعد اقتدار میں لوٹے سیاستدانوں نے مگر ایسی قانون سازی سے ہمیشہ گریز کیا جو سیاسی قیدیوں کا وقار یقینی بنائے۔ عمران خان صاحب "باریاں لینے والے چور اور لٹیروں" کے متبادل کے طورپر سیاست میں آکر وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔ غالباََ اسی باعث اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں ضرورت سے زیادہ سخت گیر ہوگئے۔

1990ء کی دہائی میں طویل جدوجہد کے بعد قومی اسمبلی کے سپیکر کو یہ اختیار دلوایا گیا تھا کہ وہ اگر جیل میں بند کسی رکن کی ایوان میں موجودگی کا حکم صادر کرے تو اس حکم کی ہر صورت تعمیل ہوگی۔ عمران خان کے لگائے سپیکر اسد قیصر مگر اس ضمن میں ہمیشہ لاچار نظر آئے۔ ہم صحافیوں میں سے فرشتہ صفت لکھاری بھی تحریک انصاف کی "انقلابی حکومت" کو یاد دلاتے رہے کہ قانون سب کے لئے یکساں ہونا چاہیے۔ قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہوجانے کے بعد کوئی شخص "خدا کا چنیدہ" نہیں ہوجاتا۔ اگر اس کے خلاف کرپشن وغیرہ کے سنگین الزام ہیں تو اس کے ساتھ ویسا ہی بے رحم سلوک ہونا چاہیے جو ایسے جرائم میں گرفتار دیگر انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

جس ملک میں 2 اگست والا اشتہار چھپا ہے وہاں امریکی صدر ٹرمپ سے ملنے عمران خان بطور وزیر اعظم پاکستان جولائی 2019ء میں گئے تھے۔ وائٹ ہائوس جانے سے قبل انہوں نے اپنے عاشقان کے ایک بڑے ہجوم سے واشنگٹن میں خطاب کیا اور تالیوں کی گونج میں یہ وعدہ کیا کہ وطن لوٹتے ہی وہ جیل میں بند سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ایئرکنڈیشنڈ کی سہولت واپس لے لیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے وطن لوٹنے کے چند ہی دن بعد نواز شریف کو پہلے ہسپتال اور بعدازاں "خرابی صحت" کے نام پر لندن منتقل کرنا پڑا۔

سوشل میڈیا پر فروعی بحث یہ جاننے کی کوشش کررہی ہے کہ جو اشتہار چھپا ہے اس کے لئے کتنے ڈالر خرچ ہوئے ہوں گے۔ محتاط ترین اندازہ لاکھوں کا ذکر کرتا ہے۔ اب اس بھاری بھر کم رقم ادا کرنے والوں کا سراغ لگانے کی کوشش ہورہی ہے۔ مجھے یہ سوال اٹھانا وقت کا زیاں لگتا ہے۔ امریکہ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں کوئی "فری لنچ" نہیں ہوتا اور نیویارک ٹائمز ویسے بھی خیراتی ادارہ نہیں بلکہ ایک طاقتور ترین "کمرشل" اخبار ہے۔

اصل سوال عمران خان کے (نادان) دوستوں سے پوچھنا یہ بنتا ہے کہ امریکہ میں اتنے برس گزارنے کے باوجود وہ اس حقیقت کے بارے میں کیوں بے خبر ہیں کہ صدر ٹرمپ نیویارک ٹائمز کو لیفٹ/لبرل خیالات کاحامل سمجھتا ہے۔ اسے "فیک نیوز" پھیلانے والوں میں سرفہرست رکھتا ہے۔ امریکہ میں مقیم عاشقان عمران کو اگر بھاری بھر کم رقم خرچ کرنے کی توفیق میسر ہے تو تھوڑی محنت کے بعد ٹرمپ کے پسندیدہ چینل "فاکس" پر عمران خان کے بیٹوں کا انٹرویو کروایا جاسکتا تھا۔ میں برجستہ دس کے قریب ایسے امریکی صحافیوں کا ذکر کرسکتا ہوں جن کے خیالات صدر ٹرمپ سنجیدگی سے لیتا ہے۔ ان سے رابطے استوار کرکے عمران خان پر گزری "قیامت" کا ذکر بھی ہر گھر پہنچایا جاسکتا ہے۔

عاشقان عمران فرطِ جذبات میں یہ حقیقت بھی بھول گئے کہ جس شخصیت کو وہ عمران خان پر مبینہ ظلم وستم کا تنہا ذمہ دار ٹھہرارہے ہیں ان صاحب کو صدر ٹرمپ ہی نے دوماہ قبل وائٹ ہائوس میں دوپہر کے کھانے پر بلایا تھا۔ کھانے پر ہوئی یہ ملاقات طے شدہ وقت سے کہیں آگے تک چلی گئی۔ مذکورہ ملاقات کے نتیجے میں مختلف شعبوں میں پاک-امریکہ تعلقات کو گہرا اور مضبوط تر بنانے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے وفود یا اہم سیاسی ودیگر رہ نما تقریباََ ہر روز ایک دوسرے کے ملک پہنچے ہوتے ہیں۔

عمران خان کے (نادان)دوستوں کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کی بدولت برطرفی کے بعد ان کے ممدوح پاکستان کے تقریباََ ہر شہر گئے تھے۔ عوام کے بھاری اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پاکستانیوں کی کماحقہ تعداد کو یہ کہانی سنائی کہ امریکہ ان کو "رجیم چینج سازش" کے ذریعے وزیر اعظم کے منصب سے ہٹانے کا ذمہ دار ہے۔ واشنگٹن کو ان کی "خودی" پسند نہیں آئی۔ امریکی جذبات کو مگر جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے وہ روسی صدر پوٹن سے ملنے چلے گئے۔ ان کی روسی صدر سے ملاقات کے بعد واشنگٹن میں مقیم پاکستانی سفیر کو "تڑیاں" دی گئیں۔ ان تڑیوں کا ذکر موصوف نے اسلام آباد بھیجے سائفر(خفیہ پیغام) کے ذریعے "ریکارڈ" کا حصہ بنادیا۔

ذاتی طورپر میں نے "سائفر کہانی" پر ایک لمحے کو بھی اعتبار نہیں کیا۔ پاکستانیوں کی بھاری بھر کم تعداد مگر اسے درست سمجھتی رہی۔ ایسا کرتے ہوئے اس گماں میں مبتلا ہوگئی کہ پاکستان کو بالآخر علامہ اقبال کے تصور میں آیا وہ "شہباز" مل گیا ہے جو پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرتے ہوئے دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک سے پنجہ آزمائی کرنا چاہ رہا ہے۔ جس ملک سے پنجہ آزمائی کی توقع تھی اسی کے صدر سے عمران خان کی رہائی کی فریاد کئی پاکستانیوں کے دل دکھائے گی۔ شاید ان ہی کے جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے تحریک انصاف 2 اگست کے روز نیویارک ٹائمز میں چھپے اشتہار سے لاتعلقی کا اظہار کررہی ہے۔ انگریزی محاورے والا Damage (نقصان) مگر ہوچکا ہے جس کی تلافی ناممکن تو نہیں البتہ نہایت مشکل ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam