عمران خان کے بیٹوں کا دورۂ امریکا

عمران خان کی سیاست کے بارے میں تمام تر تحفظات کے باوجود میں بطور انسان ان کے بیٹوں کی پریشانی کو ہمدردانہ جذبات سے تصور میں لاسکتا ہوں۔ کئی بار یہ بات تحریر وتقریر کے متعدد فورمز پر دہراچکا ہوں کہ اگر تحریک انصاف کے بانی خدانخواستہ کسی فرد کو دن دہاڑے قتل کرنے کے الزام یا جرم ثابت ہونے کی وجہ سے قید میں ہوتے تب بھی ان کے بچوں کا اپنے باپ سے خیرخیریت جاننے کے لیے رابطے میں رہنا فطری حق ہے۔ ان کی پامالی نہیں ہونا چاہیے۔ عمران خان کی بہن علیمہ خانم مگر یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ عدالتی احکامات کے باوجود جیل میں بند عمران خان کو اپنے بچوں کے ساتھ ٹیلی فون پر رابطہ کی سہولت فراہم نہیں کی جارہی۔ علیمہ بی بی کو بھی عموماً اپنے بھائی سے ملاقات کرنے نہیں دی جارہی۔
میری ناقص رائے میں اپنے حق دعویٰ، ثابت کرنے کے لیے لازمی تھا کہ عمران کے دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بیٹا امریکا جانے سے قبل پاکستان آتا۔ ان کے پاکستان آنے میں رکاوٹ ڈالنے یا اس ملک پہنچنے کے بعد قیدی باپ سے ملاقات کی اجازت نہ ملنا اس دعویٰ کو درست ثابت کرتا کہ حکومت پاکستان واقعتا قائد تحریک انصاف کے بچوں کو ان کا بنیادی حق فراہم نہیں کررہی۔ حق دعویٰ، کے ٹھوس اظہار کے بغیر مگر ان کے دونوں فرزند حکومت پاکستان پر دبائو، بڑھانے امریکا پہنچ گئے۔
قاسم اور سلمان کا اپنے حق کے حصول کے لیے امریکا سے مدد لینے کا فیصلہ اپنے تئیں حیران کن تھا۔ اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کی بدولت پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کا منصب کھودینے کے بعد تحریک انصاف کے بانی مسلسل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ان کی حکومت بائیڈن حکومت کی رچائی رجیم چینج، کی سازش کا شکار ہوئی۔ سیاست میں داخل ہونے کے چند سال بعد وہ امریکا کے پاکستان اور افغانستان پر ڈرون حملے کے سخت مخالف رہے۔ اپنے اقتدار کے دوران بھی انھوں نے امریکا سے فاصلہ، رکھا۔ مسلم امہ کو متحد کرنے کی کوششوں میں جتے رہے۔
2022ء کا برس شروع ہوتے ہی روس کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کافیصلہ بھی کرلیا۔ وہاں سے رعایتی نرخوں پر تیل وگیس خریدنے کی راہ تلاش کرتے رہے۔ اسی باعث یوکرین پر حملے سے عین ایک دن قبل وہ روسی صدر پوٹن سے ملنے ماسکو پہنچ گئے۔ ان کا دورئہ روس بقول عمران خان بائیڈن انتظامیہ کو ناپسند آیا۔ اپنی خفگی کا اظہار اس نے واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر سے اپنی وزارت خارجہ کے ذریعے کیا۔ پاکستانی سفیر نے مذکورہ یا مبینہ خفگی کو ایک سائفر کی صورت اسلام آباد کے لیے بیان کردیا۔
پاک-روس کی ممکنہ قربت کی وجہ سے عمران حکومت ہٹائے جانے کی داستان بانی تحریک انصاف نے پاکستان کے تقریباً ہر شہر میں جاکر سنائی۔ قومی سلامتی کے قمر جاوید باجوہ جیسے نگہبانوں کو یہ داستان سناتے ہوئے وہ حقارت سے میر جعفر، پکارتے رہے۔ ان کے بیانات نے سادہ لوح پاکستانیوں کی اکثریت کو اس گماں میں مبتلا کردیا کہ بالآخر ایک طویل عرصے کے بعد ان کے خطے سے دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کو ایبسولوٹلی ناٹ، کہنے والا نڈر رہنما مل گیا ہے۔ جس ملک کی مزاحمت کے نام پر وہ ہیرو، بنے اسی ملک سے بچوں سے ملاقات کے لیے دبائو کی تمنا مذکورہ بالا تناظر میں حیران کن تھی۔
عاشقانِ عمران مگر اپنے دفاع میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کا جھگڑا بائیڈن انتظامیہ سے تھا۔ ٹرمپ سے وہ اس کے سابقہ دور صدارت میں وائٹ ہائوس جاکر ملاقات کرچکے تھے۔ پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران ٹرمپ عمران خان کی شخصیت سے بہت متاثر نظر آئے۔ ان کا دل جیتنے کے لیے یہ پیشکش بھی کردی کہ وہ بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل ڈھونڈنے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ قاسم اور سلمان کے دورئہ امریکا کا کلیدی مقصد اپنے والد کے دوست، تک رسائی کے بعد ان سے یہ درخواست کرنا تھی کہ وہ حکومت پاکستان پر بانی تحریک انصاف کے ساتھ بہتر رویہ اختیار کرنے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔
بائیڈن اور ٹرمپ انتظامیہ کے مابین فرق کی بنیاد پر تراشا یہ جواز مجھ جیسے خارجہ امور کے دیرینہ طالب علم بھی شاید قبول کرنے کو مجبور ہوجاتے۔ عمران خان کے بیٹوں کے امریکا پہنچنے سے چند ہفتے قبل مگر صدر ٹرمپ نے پروٹوکول کے تمام تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہائوس میں دوپہر کے کھانے کے لیے مدعو کرلیا۔ اس ملاقات کے حوالے سے (جو طے شدہ وقت سے مزیدایک اور گھنٹے تک پھیل گئی تھی) غیر رسمی ذرائع سے بھی یہ خبر، نہیں آئی کہ اس کے دوران امریکی صدر نے عمران خان کی قید کا ذکر کیا۔ بہت محتاط انداز میں اگرچہ دو صحافیوں نے اشارتاً عمران خان کے ذکر کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ بات کھل کر اگرچہ نہیں بتائی کہ امریکی صدر عمران خان کی قید کے بارے میں متفکر تھے یانہیں۔ ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کے بجائے وائٹ ہائوس میں ہوئے کھانے کے دوران عمران خان کا ذکر ڈونلڈٹرمپ نے نہیں بلکہ ایک پاکستان مہمان نے کیا تھا۔
بہرحال میری دانست میں نہایت سوچ سمجھ کر بنائی حکمت عملی کے بغیر بانی تحریک انصاف کے دونوں فرزند گزشتہ ہفتے امریکا پہنچ گئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہاں انھوں نے امریکی دارالحکومت کے بجائے زیادہ وقت کیلیفورنیا ریاست میں صرف کیا۔ تقریباً سات اراکین کانگریس سے ملاقات کی جن میں سے 4کا تعلق ڈیموکریٹ پارٹی سے تھا۔ ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے تین اراکین سے بھی ملے۔ یہ تینوں ان دنوں ایکس کہلاتے ٹویٹر پر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ اہم ترین ملاقات اگرچہ ان کی ٹرمپ کے ایک قریبی ساتھی رچرڈ گرنیل سے ہوئی۔
ٹرمپ نے مگر رچرڈ کو کسی ریاستی پالیسی ساز منصب پر فائز نہیں کیا ہے۔ واشنگٹن میں سابق صدر کینیڈی کی یاد میں لاہور کے الحمرا ہال جیسی ایک عمارت بنائی گئی ہے۔ وہاں ڈرامے اور میوزک کے فنکشن ہوتے ہیں۔ ٹرمپ کو شکایت تھی کہ امریکا کے بائیں بازو والے اس سنٹر کواپنے مارکسی نظریات، فروغ دینے والے فن کاروں کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں۔ ان سے نجات، کے لیے رچرڈ گرنیل کو مذکورہ سنٹر کا سربراہ بنادیا گیا۔ میری دانست میں گرنیل کو گویا خصوصی مشن، سونپنے کے بجائے امریکا کی لاہور میں قائم الحمرا، نما عمارت کا انچارج بنادیا گیا ہے۔
رچرڈ گرنیل کے علاوہ میں کسی ایک اور ایسے شخص کی نشاندہی میں ناکام رہا ہوں جسے ٹرمپ کا قریبی، قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان میں سے ملنے والے اراکین کانگریس میں بلکہ کیلیفورنیا کے ڈیموکریٹ تیڈلیو (Ted Lieu)بھی شامل تھے۔ یہ صاحب ٹرمپ کے گزشتہ دور حکومت میں ان کے خلاف مواخذے کی قرارداد منظور کروانے کی کاوشوں میں پیش پیش تھے۔ منتقم المزاج ٹرمپ عمران خان سے ان صاحب کی ہمدردی، کو کس طرح لے گا؟ اس کا تصور ذہن میں لاتا ہوں تو حیران ہوجاتا ہوں۔
قاسم اور سلمان سے ملاقات کرنے والوں میں سینیٹر الیکس پیڈیلا(Alex Padilla)بھی شامل تھے۔ 12جون کو انھیں ریاست کیلیفورنیا کے مشہور شہر لاس اینجلس سے ہتھکڑی لگاکر اس پریس کانفرنس سے باہر نکال کر سڑک پر پھینک دیا گیا تھا جس سے امریکا کی ہوم لینڈ سکیورٹی کی سیکرٹری کرسٹی نوم (Kristi Noem) خطاب کررہی تھی۔ موصوف اس بلڈنگ میں موجود تھے جہاں یہ پریس کانفرنس ہورہی تھی۔ اپنی مصروفیات چھوڑ کر ہوم لینڈ سکیورٹی کی انچارج سے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف اٹھائے غیر لسانی اقدامات کے حوالے سے تلخ سوالات پوچھنا شروع ہوگئے۔ خفیہ اداروں کے اہل کاروں اور ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ سوالات اٹھانے والا شخص امریکی سینیٹ کا رکن ہے اسے دھکادے کر زمین پر پٹخا۔ زمین پر لیٹے سینیٹر کو ہتھکڑی لگائی اور عمارت سے باہر نکال کر سڑک پر شور مچانے کو چھوڑ دیا۔
میں کم عقل یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اپنے ساتھ ہوئے اس ذلت آمیز سلوک کے بعد سینیٹرالیکس پیڈیلا عمران خان کی رہائی کے لیے کیسے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں؟ مختصر الفاظ میں عمران خان کے بیٹوں سے ہمدردی کے اظہار کے باوجود یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ ان کا دورئہ امریکا رائیگاں کا سفر تھا۔ اس سفر پر اکسانے والوں نے بلکہ عمران خان کو ایک ٹرمپ کارڈ، کھیلنے کے موقع کو قبل از وقت ضائع کردیا ہے۔

