ہمیں اب چوکس و محتاط رہنا ہو گا
سوشل میڈیا پر چھائے بڑھک بازوں نے بدھ کی صبح سے اودھم مچارکھی ہے۔ حکومت پاکستان کو مسلسل طعنہ زنی سے اکسایا جارہا ہے کہ وہ ایران کی جانب سے منگل کی شام ہمارے بلوچستان کے ایک دور افتادہ گائوں پر پھینکے میزائلوں کا "منہ توڑ جواب" دے۔ جو پاکستانی ادلے کے فوری بدلے کے بجائے سوچ بچار سے تیار کی حکمت عملی کے ذریعے خاطر خواہ جواب کا مشورہ دے رہے ہیں انہیں"ایرانی لابی" کے ترجمان ٹھہرایا جارہا ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے فرض کرلیا گیا ہے کہ محض ایک مسلک سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پاکستانیوں کا ایک بڑا حصہ پیدائشی طورپر ایران کا فطری اتحادی یا خیرخواہ ہے۔ اس خام خیالی کو فساد خلق کے خوف سے اچھے بھلے جی دار صحافی بھی جھٹلانے کی جرأت نہیں دکھاتے۔ میں بھی مختصر ترین الفاظ میں محض یہ عرض گزارنے کی کوشش کروں گا کہ "مسلک" پالیسیوں کی تشکیل کا واحد سبب نہیں ہوتا۔
اس ضمن میں ایران سے بہتر مثال آپ کو مل بھی نہیں سکتی۔ اس کا "مسلک" صفوی حکمرانوں کے دور میں تبدیل ہوا جو درحقیقت آذربائیجان سے ایران وارد ہوئے تھے۔ آذربائیجان کی نوے فی صد آبادی ایرانی عوام کی بے پناہ اکثریت کی ہم مسلک ہے۔ اس کے باوجود آذربائیجان کے مقابلے میں ایران آرمینیا کا تاریخی حلیف رہا ہے۔ اس حقیقت کو خاطر میں لائے بغیر کہ آرمینیا کٹر اور بنیاد پرست مسیحی مسلک کا حامل ہے۔
ایران پر چڑھ دوڑنے کو اکسانے والوں نے اس امر پر بھی توجہ نہیں دی کہ بدھ کی رات بلوچستان کی تحصیل پنجگور کے گائوں پر میزائل پھینکنے کی خبر حملے کے فوراََ بعد اس کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے جاری کی تھی۔ تقریباََ ایک گھنٹے بعد لیکن اس "خبر" کو وہاں سے ہٹادیا گیا۔ دریں اثناء امریکہ کی چلائی خبررساں ایجنسی-ایسوسی ایٹڈ پریس(AP)- نے مذکورہ خبر کو اچک لیا۔ اس کی جانب سے خبر جاری ہوئی تو جنگل کی آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی۔ ایران کی جانب سے اپنی سرکاری خبررساں ا یجنسی سے مذکورہ خبر کا ہٹائے جانا واضح انداز میں عندیہ دے رہا تھا کہ حکومت ایران بلوچستان پر ہوئے حملے کی بابت بغلیں بجانے کی خواہاں نہیں تھی۔
سرکاری خبررساں ایجنسی سے خبر ہٹوانے کے باوجود عالمی میڈیا کی بدولت پاک سرزمین پر ہوا حملہ ایک بڑی خبر بن گیا تو حکومت ایران یہ وضاحتیں دینے میں مصروف ہوگئی کہ بلوچستان پر پھینکے میزائلوں کا ہدف "پاکستان" نہیں تھا۔ جس مقام پر ایرانی میزائل پھینکے گئے وہ درحقیقت ایرانی بلوچستان سے فرار ہوئے "دہشت گردوں" کا ٹھکانہ تھا اور یہ افراد مبینہ طورپر ایران میں متعدد تخریبی کارروائیوں کے ذمہ دار تھے۔
یہ الگ بات ہے کہ "وضاحتی بیان" معذرت خواہانہ نہیں بلکہ جارحانہ تھا۔ یہ پیغام دیتا سنائی دیا کہ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی طرح ایران بھی اب دنیا کے کسی بھی ملک میں دراندازہوکر ایسے افراد کو جان سے مارڈالنے کا "حق" رکھتا ہے جو اس کی دانست میں"دہشت گرد" ہیں۔ اصولی طورپر گویا ایران نے خود کو امریکہ اور اسرائیل کی اپنائی پالیسیوں کا پیروکار بنالیا ہے۔ امریکہ کو وہ "شیطان بزرگ" پکارتا ہے اور "اسلامی جمہوریہ ایران" سے ہمیں اس کی پیروی کی توقع نہیں تھی۔
بہرحال جمعرات کی صبح اٹھ کر سوشل میڈیا پر مشہور ہوئی "خبروں" پر نگاہ ڈالی تو اندازہ ہوا کہ محتاط ترین انداز میں بدھ کے روز ہوئے حملے کا مناسب "بدلہ" لے لیا گیا ہے۔ اس کی جو تفصیلات سامنے آئیں ان کی تصدیق یا تردید کے وسائل یا ذرائع البتہ مجھ گھر بیٹھے صحافی کو میسر نہیں۔
ایران ہمارے قریب ترین ہمسایوں میں شامل ہے۔ میں جس زبان میں یہ کالم لکھ رہا ہوں اس کے 60فی صد الفاظ فارسی سے مستعارلئے گئے ہیں۔ ایران کے ساتھ بہت قدیم اور بے تحاشہ تہذیبی رشتوں کے باوجود ہمارے ہاں ایرانی تاریخ کماحقہ انداز میں سمجھنے کے بعد وہاں کی ریاستی پالیسیوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں ہوئی۔ ہم صرف یہ تصور کئے بیٹھے ہیں کہ امام خمینی کی قیادت میں برپا کئے انقلاب کے بعد سے ایران دنیا بھر میں اپنی ترجیح کا "اسلام" پھیلانے کی لگن میں مبتلا ہے۔ حقیقت مگر اتنی سادہ نہیں۔ ایران دنیا کی قدیم ترین سلطنتوں میں شامل رہا ہے۔ اسلام کے عروج سے قبل "قیصروکسریٰ" اس دور کی سپرطاقتیں تصور ہوتی تھیں۔
"قیصر" روم کے لئے استعمال ہوتا تھا اور "کسریٰ" "پرشین ایمپائر" کا مظہر تھا۔ آج کا ایران "مذہبی" نظرآنے کے باوجود خود کو ہزاروں سال سے قائم اس سلطنت کا نمائندہ ہی سمجھتا ہے۔ آج کا ایران، شام، لبنان اور عراق اس "ایمپائر" کی حدود میں شامل تھا۔ بارہا ہمارے سندھ اور بلوچستان کے بیشتر علاقے بھی اس کے قبضے میں رہے۔ اس کے علاوہ قندھار وہرات بھی ایران اپنا حصہ شمار کرتا رہا۔ تہران میں بیٹھا ہر حاکم خود کو ان تمام علاقوں کا "بادشاہ" تصور کرتا ہے۔ اپنی "بادشاہت" کو وہ تیل اور گیس کے بے پناہ ذخائر کی وجہ سے مختلف انداز میں اجاگر کرنے کی کوشش میں بھی مصروف رہتا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے گزشتہ کئی دہائیوں سے ا یرانی تیل اور گیس کی عالمی منڈی میں فروخت تقریباََ ناممکن بنادی ہے۔ اس کے باوجود ایران نے عراق میں اپنے قدیمی رشتوں کی بدولت ایسی "جگاڑ" ڈھونڈلی ہے جس کے طفیل ایران کے کنوئوں سے نکلا تیل عالمی منڈی میں"عراقی تیل" کی صورت میسر ہوتا ہے۔ ایرانی تیل اور گیس دیگر ممالک تک پہنچانے کے لئے ایرانی سرکار بے شمار ایسے ہتھکنڈے بھی اختیار کرتی ہے جنہیں"سمگلنگ" پکارا جاسکتا ہے۔ مثال کے طورپر پاکستان ہی میں ایرانی تیل وگیس حیران کن حد تک میسر ہے اور ریاست پاکستان کی تمام تر کاوشیں ان کی فروخت ابھی تک روکنے میں ناکام رہی ہیں۔
تیل اور گیس کی ہر جائز وناجائز ذریعے سے عالمی منڈی میں فروخت سے حاصل شدہ ڈالر ایران کی دریں دولت یا "ڈیپ سٹیٹ" اپنے ملک کو "اسرائیل اور امریکہ" سے بچانے کے نام پر خرچ کردیتی ہیں۔ اپنے "تحفظ" کو یقینی بنانے کے لئے اس نے لبنان کے جنوب میں"حزب اللہ" کی بھرپور پشت پناہی کی۔ عراق کی کئی مسلح تنظیمیں اپنی بقاء کے لئے اس کی جانب دیکھتی ہیں۔ یمن کے حوثی بھی ایران ہی کی سرپرستی میں اپنے ملک کے 70فی صد حصہ پر قابض ہیں۔ اسرائیل کو 7اکتوبر 2023ء کی صبح چونکا دینے والی "حماس" بھی ایران کی حلیف ہے۔
غزہ میں جنگ کی طوالت کو یقینی بنانے کے لئے یمن کے حوثی اب سمندری تجارت کو میزائل کے ذریعے نشانہ بنارہے ہیں۔ امریکہ نے بحری جہازوں پر ان کی جانب سے ہوئے حملوں کو نا کام بنانے کے لئے یمن میں موجود حوثیوں پر سرجیکل سٹرائیک کہلاتے حملے شروع کردئیے ہیں۔ ایران کو اب یہ فکر لاحق تھی کہ اس پر بر اہ راست حملے کے بجائے امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادی ایران کے کرد اور بلوچ"علیحدگی پسندوں" کو تخریب کاری" کے لئے اکسائیں گے۔ چند ہی دن قبل کرمان میں قاسم سلیمانی کی قبر کے قریب چھپائے بم پھٹے تو سوکے قریب ایرانی جو وہاں اس کی موت کی دوسری برسی کے اجتماع میں شریک تھے، ہلاک ہوگئے۔
کرمان میں اساطیری ہیرو شمار ہوتے قاسم سلیمانی کی قبر پر ہوئے اس حملے نے ایرانی سرکار کو بوکھلا دیا۔ اسی باعث پاکستان سمیت عراق اور شام وغیرہ میں"دہشت گردوں کے ٹھکانوں" پر حملے کے ذریعے ایرانی عوام کو یقین دلانے کی کوشش ہوئی کہ حالات کاملاََ تہران کے قابو میں ہیں۔ بہتر مگر یہ ہی تھا کہ خفیہ سفارت کاری کے ذریعے پاکستان سے روابط کی بدولت تہران کے مطلوب "دہشت گردوں" کا مسئلہ حل کرلیا جاتا۔ ان پر فضائی حملوں کے بعد بڑھک بازی ہرگز درکار نہیں تھی۔ مجھے گماں ہے کہ ایران کو بھی اس ضمن میں اب اپنی غلطی کا احساس ہورہا ہے۔ اس کے باوجود ہمیں چوکس ومحتاط رہنا ہوگا۔