گذرے وقتوں کی شریف النفسی کی علامت میاں اظہر

منگل کی رات میاں اظہر کی وفات کی خبر سنتے ہی مجھے 1999ء کی یاد آگئی۔ اس برس کے مارچ میں ایک روز قومی اسمبلی کی ان سیڑھیوں کی آخری قطار کے قریب جو پریس گیلری کی جانب لے جاتی ہیں دیوار سے ٹیک لگائے میاں اظہر میرا انتظار کررہے تھے۔ ان کے انتظار کی وجہ جاننے کے لئے پس منظر اجاگر کرنا ضروری ہے۔ نواز شریف کی دوسری حکومت اس برس مئی 1998ء کے ایٹمی دھماکوں اور "ہیوی مینڈیٹ" کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ پراعتماد محسوس کررہی تھی۔
دریں اثناء کارگل کا واقعہ ہوگیا۔ نواز شریف کے وفادار اس کا ذمہ دار عسکری قیادت کو ٹھہرانا شروع ہوگئے۔ تاثر یہ پھیلایا گیا کہ ان دنوں کی عسکری قیادت کے ایک گروہ نے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی دوممالک کی جانب سے مئی 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد لاہور آمد کے نتیجے میں جنوبی ایشیاء کے ازلی دشمنوں کے مابین دائمی امن کے امکانات کو غارت کرنے کی کوشش کی ہے۔
عسکری قیادت کے ایک گروہ کے خلاف نواز شریف کے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نما "خیرخواہوں" کی جانب سے سرگرشیوں میں پھیلائی سازشی کہانی نے اسلام آباد کے ماحول کو پراگندہ کردیا۔ سیاستدان جبلی طورپر یہ محسوس کرنے لگے کہ جس ادارے پر "سازش" کا الزام لگایا جارہا ہے "جوابی وار" کی تیاری کررہا ہے۔ اس ضمن میں امید یہ باندھی گئی کہ شاید ریاست کا طاقتور ترین ا دارہ براہ راست مداخلت کے بجائے "اِن ہائوس" تبدیلی کے ذریعے نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ ہی میں سے کسی اور رکن قومی اسمبلی کو وزیر اعظم کے منصب پر بٹھانے کی کوشش کرے گا۔ "اِن ہائوس تبدیلی" کی بات چلی تو نوازشریف کے متوقع متبادلوں کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔ قومی اسمبلی کے ان دنوں کے سپیکر مرحوم الٰہی بخش سومرو کا نام اس ضمن میں سرفہرست رہا۔ اس کے علاوہ گوہر ایوب خان کا نام بھی گردش میں آیا۔
ذات کے رپورٹر کا آتش ان دنوں جوان تھا۔ رات گئے تک "باخبر" تصور ہوتے افراد سے سن گن لینے میں مصروف ہوگیا۔ تقریباََ ایک ہفتے کی مشقت کے بعد دریافت یہ ہوا کہ لاہور کی آبادی کے اعتبار سے طاقتور برادری-آرائیں - سے کسی قد آور شخص کی تلاش ہورہی ہے۔ لاہور کی اس برادری کا ذکر سنتے ہی میں نے جبلی طورپر یہ طے کرلیا کہ نواز شریف کے ممکنہ متبادل میاں اظہر ہوسکتے ہیں۔ میرے آبائی شہر کی آرائیں برادری کے وہ قد آور نمائندے تھے۔ ان کے بزرگوں نے لوہے کے کاروبار سے بہت نام کمایا تھا۔ اس کاروبار کی بدولت وہ شریف خاندان کے بہت قریبی دوستوں میں بھی شامل ہوگئے۔ لاہور میں یہ بات بھی مشہور تھی کہ یہ دونوں خاندان کاروباری اعتبار سے ایک دوسرے کے اوپر نازل ہوئے برے دنوں میں ایک دوسرے کا دل کھول کر ساتھ دیتے ہیں۔
مسلم لیگ (نون) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کارکن منتخب ہونے سے قبل وہ لاہور کے مئیر رہے۔ سب سے زیادہ نام مگر انہوں نے نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں بطور گورنر پنجاب کمایا۔ مسلم لیگ (نون) کے ایک مخلص اور دیرینہ کارکن -خواجہ غلام حیدر وائیں - ان دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ وہ "اصولی سیاست" کے حامی ہوتے ہوئے بھی انتظامی اعتبار سے تھوڑا نرم دل تھے۔ لاہور کے نواحی گوجرانوالہ کے چند قصبات میں لیکن جرائم پیشہ مافیا نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی تھی۔
ان سے نجات پانے کے لئے بے رحم پولیس آپریشن کی ضرورت تھی۔ آئینی تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے گوجرانوالہ کے نواحی دیہات میں معمول کی زندگی بحال کرنے کیلئے چلائے پولیس آپریشن کی ذمہ داری گورنر پنجاب میاں اظہر کے سپرد کردی۔ میاں اظہر نے پولیس کے ایک مشہور افسر ذوالفقار چیمہ کی بدولت چند ہی ماہ میں اپنا "مشن" مکمل کرلیا۔ لاہور کے میئر کی حیثیت میں بھی ایک مرتبہ انہوں نے شہر کو تجاوزات سے پاک کرنے کی کامیاب مہم چلائی تھی۔
مذکورہ پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے قومی اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں انگریزی اخبار کے لئے لکھی پریس گیلری میں تواتر سے اشاروں کنایوں میں ذکر شروع کردیا کہ میاں اظہر جب قومی اسمبلی میں داخل ہوکر اپنی نشست سنبھالتے ہیں تو پنجاب سے مسلم لیگ (نون) کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین کی کثیر تعداد ان کے گرد جمع ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ آپ سے کیا پردہ۔ میں درحقیقت منافقانہ معصومیت کے ساتھ میاں اظہر صاحب کی اِن ہائوس تبدیلی کی صورت نوازشریف کی جگہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر بیٹھنے کے امکان کو ڈھول کی صورت پیٹ رہا تھا۔ میری دیدہ دلیرحرکت نے شریف النفس میاں اظہر کو مجبور کیا کہ وہ مجھ سے عمر میں کئی سال بڑے ہونے اور میرے آبائی شہر کے ایک طاقتور گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود قومی اسمبلی کے دوسرے فلور سے سیڑھیاں چڑھ کر پریس گیلری کی جانب جاتے راستے پر دیوار سے ٹیک لگائے میرا انتظار کریں۔
انہیں وہاں کھڑا دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ میرے وہم وگمان میں یہ سوچ نہ آئی کہ وہ میرا انتظار کررہے ہیں۔ نہایت ادب سے انہیں سلام کے بعد پوچھنے کو مجبور ہوا کہ وہ کس کا انتظار کررہے ہیں۔ "تہاڈا (تمہارا)"ان کا ترنت جواب تھا۔ میں نے شرمندہ ہوکر عرض کیا کہ اگر مجھ سے کوئی گستاخی سرزد ہوگئی تھی تو اسمبلی کے سٹاف سے کسی بندے کو بھیج کر مجھے بلوالیتے۔ میرے بزرگ بھی ان کے بزرگوں کا احترام کرتے رہے تھے۔ اگرچہ میاں اظہر مرحوم سے میرا کبھی ذاتی رابطہ نہیں رہاتھا۔
میری بات سنتے ہی انہوں نے سادہ لاہوری اور پرخلوص لہجے میں یہ فرمایا کہ وہ اس امر پر بہت فخر محسوس کرتے ہیں کہ "میرا شہردار" (یعنی یہ خادم) ایک بڑا اور مشہور صحافی ہے۔ اس کی عزت میرے لئے واجب ہے۔ اسی باعث خود چل کر آپ سے ایک درخواست کرنے آیا ہوں۔ میں نے سرجھکاکر "حکم" کی آواز نکالی تو انہوں نے درخواست کرنے کی خاطر اپنے ہاتھ باندھنے کی کوشش کی۔ میں نے اپنے ہاتھوں سے انہیں علیحدہ کرکے التجا کی کہ مجھے مزید شرمندہ نہ کریں۔
تمہیدی گفتگو ہوگئی تو انہوں نے درخواست کی کہ میں اپنے کالموں میں ان کا ذکر کرنا چھوڑدوں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ میرے کالم میں جو سطریں میاں اظہر کی "شان" میں لکھی ہوتی ہیں انہیں انڈر لائن کرکے وزیر اعظم نواز شریف کے والد کو فیکس کردیا جاتا ہے۔ اسے پڑھنے کے بعد وہ "مجھ سے رابطہ کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ میں نواز (شریف)کے خلاف سازشوں میں کیوں مصروف ہوگیا ہوں"۔
اس انکشاف کے بعد انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ میاں محمد شریف صاحب کو وہ اپنے والد جیسی عزت دیتے ہیں۔ انہیں ناراض کرنے کی ہمت وجرأت سے محروم ہیں۔ میاں اظہر کو نواز شریف کے ممکنہ متبادل کی حیثیت میں اپنے کالموں میں پیش کرتے ہوئے میں انہیں (میاں اظہرکو) مشکل میں ڈال دیتا ہوں۔ ان کی بات سن کر میں یہ وعدہ کرنے کو مجبور ہوگیا کہ آج کے بعد سے میرے کالم میں ان کا نام تک نہیں لکھا جائے گا۔ گزرے وقتوں کی شریف النفسی کی مجسم علامت کی وفات نے مجھے شدید دُکھ پہنچایا ہے۔

