Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Gaye Dino Ke Afrad

Gaye Dino Ke Afrad

گئے دِنوں کے افراد

اس کالم کے باقاعدہ قارئین میں سے چند افراد واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے یہ پوچھنا شروع ہوگئے ہیں کہ میں نے چند دنوں سے سیاسی موضوعات پر لکھنا کیوں ترک کررکھا ہے۔ باتوں باتوں میں یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی ہوتی ہے کہ مجھے "محتاط" رہنے کی ہدایت یا احکامات تو نہیں ملے۔ ایسے افراد کی اطلاع کے لئے نہایت دیانتداری سے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ مجھ جیسے صحافی "تلواروں کی چھاؤں تلے" پل کر جوان ہوئے ہیں۔

1975ء میں عمر تمام صحافت کی نذر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ابھی ڈھنگ کی نوکری ایک اخبار سے دوسرے اخبار منتقل ہوتے ہوئے ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ 1977ء میں جنرل ضیاء کا مارشل لاء لگ گیا۔ اس کے بعد گیارہ سال جو صحافت ہوئی اسے مدیر کے بجائے "سنسروالے" چھاپنے کی اجازت دیتے تھے۔ ان کے خوف سے جی ہارنے کی بجائے استعاروں کی تلاش شروع کردی اور ایسا کرتے ہوئے یہ بھی دریافت کرلیا کہ اردو اور فارسی کے تمام شعراء "محبوب" کے واضح ذکر سے کیوں گھبراتے تھے۔ "محبوب" کو شاعری کے ذریعے جاننے کی کوشش کریں تو عموماََ "مرد" کی شبیہ ہی نمودار ہوتی ہے۔ اس کا جنس واضح کرنے کے لئے غالب جیسے تخلیقی لوگوں نے بھی "سینہ شمشیر سے باہر ہے دمِ شمشیر کا" جیسے مصرعے لکھے جو حسین اعضاء کی دہشت کو سادگی سے بیان کردیتے ہیں۔

حکمرانوں کے قصیدے لکھے بغیر شاعر کا گزارہ مشکل تھا۔ روزمرہ زندگی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے اقبال جیسے خودی کے پرستار ملکہ وکٹوریا کے علاوہ چند نوابوں کے قصیدے لکھنے کو بھی مجبور ہوئے اور ان سے وظیفے وصول کئے۔ اخبار نویس کو تنخواہ پر گزارہ کرنا ہوتا ہے اور تنخواہ اسے فقط اسی صورت مل سکتی ہے اگر حکومت سے دیاڈیکلریشن برقرار رہے۔ اخبار کی فروخت لاکھوں کو چھو جائے تب بھی مالکان کو نفع کی بجائے نقصان ہوتا ہے۔

اخبار چھاپنے کے لئے کاغذ اور چھاپے کی سیاہی بیرون ملک سے درآمد ہوتی ہے۔ روپے کی قدر مسلسل گرنے سے ان کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہورہا ہے۔ کاروبار ہمارا مسلسل کسادبازاری کی زد میں ہے۔ ایسے عالم میں نام نہاد "کارپوریٹ اشتہار" بھی اخبار چھاپنے کے اخراجات پورے نہیں کرسکتے۔ حکومت اپنے کاموں کی تشہیر کے ذریعے ہی پرنٹ صحافت کو ابھی تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اس کی مہربانی کہ اخبار کی اشاعت یقینی بنانے کے لئے اشتہارات دیتے ہوئے وہ چند "گستاخ" کالم بھی برداشت کرلیتی ہے تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔

صحافت کو بے وقعت اور اخبار میں لکھنے کو غلامانہ عمل ثابت کرنے کا آغاز اسی جماعت نے شروع کیا تھا جس کے کرشمہ ساز بانی نے بذات خود گھر گھر جاکر چندہ جمع کیااور لاہور میں کینسر کے موذی مرض کے لئے جدید ترین آلات سے لیس ایک ہسپتال اپنی والدہ مرحومہ کی یاد میں تعمیر کیا تھا۔ بعد ازاں ان کی جماعت چلانے کے لئے ہمارے معاشرے کے کاروباری اعتبار سے نہایت کامیاب افراد نے بھی دل کھول کر "چندہ" دیا۔

مذکورہ حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے مگر 2011ء سے اس جماعت کے فدائین نے صحافت کو "لفافہ" اور "بکائو" ثابت کرنا شروع کردیا۔ حق وصداقت کا اظہار اس کے بعد فقط ان چینلوں سے ہوتا رہا جو "تبدیلی" کے خواہاں انقلابی سوچ کے نوجوانوں نے ازخود متعارف کروائے تھے۔ سمارٹ فون پر میسر ایپس اور سہولتوں سے قائم چینل چل پڑے تو اس پر بولنے والوں کو Monetizationکی بدولت گزارے کی رقم بھی ملنا شروع ہوگئی۔ یوٹیوب سے کمائی یقینی بنانے کے لئے مگر کچھ تلخ حقائق کو برملا بیان کرنا پڑتا ہے۔ وہ بیان ہوجائیں تو بالآخرپیکا جیسے قانون نافذ ہوجاتے ہیں۔ میری دانست میں مذکورہ قانون کے نفاذ کے بعد یوٹیوب والے بھی زیادہ دنوں تک اپنے چینلوں پر "حق وصداقت، کا ڈھول نہیں بجاپائیں گے۔ "ریاست" میری دانست میں "کنٹرول" کے مترادف ہے۔ اسے کھودینے کے بعد وہ "ریاست" نہیں رہتی۔

ہوسکتا ہے کہ سرکاری اشتہارات کی بھرمار کے باوجود اخبارات چھپ کر آپ کے گھر ڈیلیور نہ ہوپائیں۔ ان میں چھپی خبروں اور کالم پڑھنے کے لئے آپ کو موبائل فون سے رجوع کرنا ہوگا۔ موبائل فون پر لیکن اگر میرا لکھا کالم فرض کیا اوسطاََ 30ہزار سے زائد لوگ بھی پڑھ لیں تو مجھے اسے لکھنے کا ایک دھیلا بھی نہیں ملے گا۔ قیام پاکستان سے قبل جو اخبارات وجرائد چھپا کرتے تھے وہ مسلسل اپنے قارئین سے یہ فریاد کرتے کہ وہ ان اخبارات کو زندہ رکھنے کے لئے ان کی سالانہ قیمت ادا نہیں کرسکتے تو ششماہی بنیادوں پر اخبار کو منی آرڈر کے ذریعے رقم بھجوادیں۔ قیام پاکستان کے بعد عموماََ رسائل نے یہ چلن جاری رکھا۔ اپنے کالج جانے تک میں نے لاہور کے کئی ایسے گھر دیکھے ہیں جہاں ان کی پسند کا رسالہ ششماہی یا سالانہ قیمت ادا کرنے کی وجہ سے ڈاکیے کے ذریعے ہر ہفتے یا مہینے آتا تھا۔ اب وہ رواج باقی نہیں رہا۔

کالم کے آغاز میں اطلاع آپ کو یہ دی تھی کہ میرے باقاعدہ قارئین میں سے اکثر لوگ یہ پوچھنا شروع ہوگئے کہ میں "سیاسی"موضوعات پر چند دنوں سے کیوں نہیں لکھ پارہا ہوں۔ اس سوال کا دیانتدارانہ جواب یہ ہے کہ وطن عزیز میں ان دنوں "سیاست" نام کی شے ہرگز نہیں ہورہی۔ اخبارنویس بذاتِ خود "سیاسی ورکر" نہیں ہوتا۔ اس کا فریضہ سیاسی عمل کے دوران ہوئے واقعات کو رپورٹ یا ان پر تبصرہ کرنا ہوتا ہے۔ خود کو سیاست دان کہلوانے والے جو افراد ہم ان دنوں بھگت رہے ہیں وہ عوام کو متحرک کرنے یا ان کا دل جیتنے میں وقت ضائع نہیں کرتے۔ ریاست کے دائمی اداروں کی "گڈبک" میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ میں بطور اخبار نویس ان کے بارے میں لکھوں تو کیا لکھوں؟

اسی باعث دوسرے موضوعات پر توجہ دینا شروع کردی ہے۔ ربّ کا شکر کہ یہ کوشش رائیگاں نہ ہوئی۔ پیر کی صبح افریقہ کے ایک ناول نگار کے بارے میں تھوڑی تحقیق کے بعد جو کالم لکھا تھا اس کی پذیرائی ایسے لوگوں کی جانب سے بھی ہوئی جن کے بارے میں مجھے یہ گماں تھا کہ وہ مجھ جیسے "قلم گھسیٹ" کے لکھے کو کوئی وقعت نہیں دیتے۔ دورِ حاضر کے بے پناہ شاعر افتخار عارف بھی ایسے مہربانوں میں شامل تھے۔ جس افریقی ناول نگار کا ذکر ہوا تھا وہ مرتے دم تک یہ اصرار کرتا رہا کہ اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں لکھنے والا "سچ" بیان ہی نہیں کرسکتا۔ اس کی مذکورہ سوچ نے بھی پڑھنے والوں کی ایک کثیر تعداد کو غور کومجبور کیا۔ فقط مادری زبان میں اظہار بیان کے موضوع پر اچھی خاصی بحث بھی چھڑگئی۔

یہاں تک پہنچنے کے بعد یاد آیا ہے کہ میں آج کا کالم یاسمین طاہر کی نذر کرنا چاہ رہا تھا۔ ان کا گزشتہ ہفتے طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا۔ ان سے میری شناسائی نہ تھی۔ سکول کے دنوں میں ریڈیو پاکستان جاتا تھا تو اس کے کوریڈور میں ایک دبلی پتلی خاتون انتہائی متحرک نظر آتیں۔ میں نے انہیں کسی کمرے میں بیٹھ کر کسی سے گپ شپ لگاتے نہیں دیکھا۔ کوریڈور میں بھی شاذ ہی وہ چند لوگوں سے محض ہیلو ہائے کرکے آگے بڑھ جاتیں۔ ان کی یگانگت رعونت نہیں بلکہ انہماک کا پیغام دیتی۔ تجسس نے ان کے بارے میں جاننے کو مجبور کیا تو علم ہوا کہ وہ مولانا ممتاز علی کی پوتی اور امتیاز علی تاج کی صاحبزادی ہیں۔ ان کی والدہ بھی ایک نہایت معروف افسانہ نگار تھیں۔ حجاب امتیاز علی ان کا نام تھا۔

سہارن پور سے محمد ممتاز علی کا خاندان لاہور آکر آباد ہوا تھا۔ یہاں انہوں نے بچوں کے لئے "پھول" جیسے جریدے کو متعارف کروایا۔ سب سے اہم مگر "تہذیب نسواں "نامی ماہنامے کی ایجاد تھی جس نے اس دور کی پردہ نشین عورتوں کو اظہار کا پلیٹ فارم عطا کیا۔ اردو کی معروف ادیبہ قرۃ العین حیدر کی والدہ کے افسانے بھی اسی جریدے میں چھپا کرتے تھے۔ سہارن پور سے آئے اس خاندان کی بدولت ہی ان کا رشتہ سجاد حیدر یلدرم جیسے ادیب سے طے ہوا۔

میں اکثر یہ سوچتا تھا کہ یاسمین طاہر صاحبہ سے کسی طرح تعارف ہوجائے تو میں ان کی یادوں کے سہارے جدید اردو ادب کے ایک حوالے سے بانی ہستیوں کے بارے میں کچھ جان سکوں گا۔ ان کے رُعب ودبدبے نے لیکن مجھے انہیں کبھی سلام کرنے کی ہمت بھی نہ دی۔ وہ ریڈیو پاکستان کے لئے "فوجی بھائیوں کا پروگرام" کرتی تھیں۔ شام کو براہِ راست نشر ہونے والے اس پروگرام کی تیاری وہ دوپہر ہی سے شروع کردیتیں۔ ان کا ریڈیو پاکستان کوریڈور میں مسلسل آنا جانا اور چہرے پر فکس ہوا انہماک درحقیقت مذکورہ پروگرام کی تیاری کے لئے وقف تھا۔

ان کی آواز کو فطری طورپر ریڈیو کے لئے بنی آواز تصور کیا جاتا تھا۔ ان کی شادی لاہور ریڈیو ہی کے ایک مستند صداکار نعیم طاہر صاحب سے ہوئی تھی۔ نعیم صاحب اپنے تئیں ایک داستان کے مستحق ہیں۔ گئے دنوں کے افراد کے بارے میں لیکن ان دنوں کون پڑھنا چاہے گا۔ یہ سوچتا ہوں تو گھبراجاتا ہوں۔ جتنے دن باقی رہ گئے ہیں انہیں اچھی صحت اور کسی کا محتاج ہوئے بغیر گزارلینے کے علاوہ کسی اور دُعا کا خیال ذہن میں نہیں آتا۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam