دیومالائی شخصیت ڈاکٹر قدیر خان
آج سے چند ہفتے قبل ہی اگست 2021ء کے مہینے میں طالبان نے جذبہ حریت وایمانی کو 20برس تک پھیلی مزاحمت کے دوران بروئے کار لاتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کوافغانستان سے ذلت ورسوا کرتے ہوئے نکالا ہے۔ ہمارے ہمسائے میں ہوئے اس تاریخ ساز واقعہ سے ہمیں یقین کامل ہوجانا چاہیے تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ممالک کی پاٹے خانی کے دن تمام ہوئے۔ مسلم دُنیا کی اقدار اپنی جگہ قائم ودائم ہیں۔ ان کے ساتھ وابستہ رہنے ہی میں ہماری نجات ہے۔ صبح اُٹھ کر مگر اخبارات کھولتا ہوں تو وہاں سراسیمگی پھیلی نظر آتی ہے۔ وزیر اعظم سے لے کر سوشل میڈیا پر متحرک افراد کی بے تحاشہ تعداد دہائی مچارہی ہوتی ہے کہ مغرب ایک شیطانی منصوبے کے ساتھ ہماری اقدار کو تباہ کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ مقصد اس کا ہمیں اسلامی تشخص سے محروم کرنا اور ہمارے خاندانی نظام کو تباہ کرنا ہے۔
اپنی اقدار سے والہانہ لگائو کے اس موسم میں ڈاکٹر قدیر کی جہان فانی سے رخصت کی خبر آئی۔ اس خبر کی وجہ سے سوشل میڈیا پر جو ہیجانی گفتگوہورہی ہے اس نے میرے دماغ کو چکرا دیا ہے۔ میری مرحوم والدہ سوائے کلام پاک کے علاوہ کوئی اور تحریر پڑھ نہیں سکتی تھیں۔ کبھی سکول نہیں گئیں۔ انہوں نے کسی بھی انسان کی موت کی خبر سن کر چند رویے اختیار کرنے کی تلقین کی تھی۔ مجھے میری تعلیم اور عمومی رویے کی وجہ سے بآسانی مغرب زدہ کہا جاسکتا ہے۔ ان کے سکھائے رویے کو مگر آج تک بھلا نہیں پایا ہوں۔ اس رویے کا کلیدی پیغام یہ ہے کہ جو شخص دنیا سے چلا گیا اس کی زندگی کو اب زیر بحث نہ لائو۔ اگر اس کی ذات سے وابستہ چند ناپسندیدہ واقعات بھی تھے تو ان کا تذکرہ مت کرو۔ اس ضمن میں اب وہ جانے اور کائنات کا مالک جو منصف بھی ہے اور عادل بھی۔
ڈاکٹر قدیر صاحب ہر اعتبار سے اپنی زندگی ہی میں ایک دیومالائی شخصیت بن چکے تھے۔ ایسے افراد تنازعات کی زد میں بھی آتے ہیں۔ ان سے کئی جھوٹی سچی کہانیاں منسوب کردی جاتی ہیں۔ حقائق کو ٹھوس پس منظر میں رکھ کر جانچنے کی لیکن ہمیں عادت نہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت کی بنیاد پر کسی مشہور شخصیت کی حمایت یا مخالفت میں رائے بنالیتے ہیں اور اس پر نظرثانی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
ڈاکٹر قدیر کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں سب سے پہلے یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ ایٹمی ہتھیار بنانے سے قبل ہمیں اس کے لئے بے پناہ تباہی پھیلانے والا مواد تیار کرنا ہوتا ہے۔ اس مواد کی تیاری فقط ایک سائنس دان یا سائنسی عمل کی محتاج نہیں۔ فزکس سے لے کر انجینئرنگ کے کئی ماہرین کو مختلف النوع اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے ایٹمی مواد تیار کرنا ہوتا ہے۔ یہ تیار ہو بھی جائے تو اہم ترین سوال یہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ کونسے ہتھیاروں کے ذریعے تباہ کن مواد کو انتہائی سرعت سے اپنے ہدف تک پہنچایا جائے۔ ایٹمی مواد تیار ہوجانے کے بعد یہ دوسرا اور کئی اعتبار سے اپنے تئیں ایک اہم ترین مگر ہر اعتبار سے دیگر شعبہ ہے۔
ڈاکٹر قدیر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی کہلائے تو اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان کی قیادت میں پاکستان اپنے تئیں ایٹمی مواد تیار کرنے کے قابل ہوا۔ اس ضمن میں ان کی ذہانت وفطانت کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ان کی جنونی لگن اور قائدانہ صلاحیتیں تھیں۔ 1971ء میں پاکستان کے دو لخت ہوجانے کے سانحے کو ہمارے کئی درد مند محبان وطن آج تک بھلا نہیں پائے ہیں۔ ان میں سے چند ایسی حکمت عملی تیار کرنے کو ڈٹ گئے جو پاکستان کے بھارت جیسے دشمنوں کو مجبور کرے کہ ہمارے خلاف جارحیت سے قبل سو بار سوچیں۔ ایٹمی پروگرام اس تناظر میں واحد حل نظر آیا۔
بہت کم لوگوں کو یاد رہا ہوگا کہ اپنے سیاسی کیرئیر کے آغاز میں ذوالفقار علی بھٹو چند برسوں تک ایوب خان کی حکومت میں وزیر برائے توانائی بھی رہے تھے۔ تیل اور گیس کی تلاش اور سائنس وٹیکنالوجی کو فروغ دینا ان کی ذمہ داری تھی۔ بھٹو صاحب سے ہزاروں اختلافات ہوسکتے ہیں۔ وہ مگر تاریخ اور عالمی سیاست کے ذہین ترین طالب علم بھی تھے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی حکمت عملی کا ہمیشہ شک وشبے سے جائزہ لینے میں مصروف رہے۔ نہرو نے سائنس اورٹیکنالوجی کی وزارت بھی ہمیشہ اپنے پاس رکھی۔ اپنے ملک کے ٹاٹا جیسے سرمایہ داروں کو قائل کیا کہ وہ ایٹم کے استعمال کے راستے ڈھونڈنے کے لئے جدید ترین تحقیقی ادارے بنائیں۔ بھٹو صاحب بہت شدت سے اس نتیجے پر پہنچے کہ نہرو کی پیش قدمی کا اصل ہدف اپنے ملک کو بالآخر ایٹمی قوت کا حامل ملک بنانا ہے۔ اس امکان کو نظر میں رکھتے ہوئے انہوں نے پاکستان میں ایٹم کے پرامن استعمال کے راستے ڈھونڈے۔ کئی نوجوانوں کو فزکس اور انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک وظیفوں پر بھیجوایا۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد وہ بقیہ پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ یہ منصب سنبھالتے ہی فیصلہ کیا کہ بھارت کو پاکستان پر کسی بھی حوالے سے بالادست ہونے نہیں دیا جائے گا۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لئے ہمیں ایٹمی پروگرام کی ضرورت بھی ہے۔ اس پروگرام کی تیاری کے ابتدائی ایام کے دوران ڈاکٹر قدیر نے ان کی حکومت کو ایک خط لکھ کر اپنی خدمات پیش کیں۔ بھٹو صاحب نے وہ خط اپنے قریب ترین معتمد ڈاکٹر مبشر حسن کے حوالے کیا جو انجینئرنگ کے ہونہار طالب علم اور استاد بھی رہے تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے ڈاکٹر قدیر کی ذہانت آزمانے کے مشورے دئیے۔ وہ ہالینڈ سے پاکستان آگئے۔ ان کی راہ میں لیکن پہلے سے قائم پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن کے افسران نے ہزاروں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ ہمارے ہاں روایتی لیت و لعل ابھی جاری تھا کہ اندا گاندھی نے 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کردیا۔ اس کی وجہ سے پاکستان بھی اپنے ایٹمی پروگرام میں تیزی دکھانے کو مجبور ہوا۔ بھٹو صاحب نے ڈاکٹر قدیر کو یہ تیزی بروئے کار لانے کے لئے خود مختار بنادیا۔
ان کی معاونت کے لئے غلام اسحاق خان، اے جی این قاضی اور آغا شاہی جیسے سینئر ترین سرکاری افسران پر مشتمل ایک کمیٹی قائم ہوئی۔ پاکستان کے متحدہ عرب امارات اور لیبیا جیسے دوستوں نے ہمارے ایٹمی پروگرام کی سرعت سے تکمیل کے لئے گرانقدر رقوم فراہم کیں۔ ان ممالک سے روابط فقط بھٹو صاحب کے ملٹری سیکرٹری مرحوم جنرل امتیاز کے ذریعے ہوتے رہے۔ بھٹو صاحب کے دانتوں کے معالج مرحوم ڈاکٹر ظفر نیازی بھی کئی حوالوں سے ڈاکٹر قدیر کے مدد گار رہے۔
جنرل امتیاز چودھری انور عزیز مرحوم کی وجہ سے مجھے اپنے گھر کافرد شمار کرتے تھے۔ ڈاکٹر ظفر نیازی صاحب میری صحافتی لگن کی وجہ سے مہربان بزرگ ہوگئے۔ ان دونوں کی بدولت مجھے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے جڑی کئی حساس ترین کہانیوں کا علم ہوا۔ میں انہیں اپنے ساتھ قبر ہی میں لے جائوں گا۔ کئی واقعات کی تصدیق ڈاکٹر مبشر حسن نے بھی تفصیل سے فراہم کردی تھی۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے پس منظر اور چند اہم تفصیلات سے آگاہ ہونے کی وجہ سے میں اکثر اپنی تحریروں میں چڑکر لکھ دیتا کہ فقط ڈاکٹر قدیر مرحوم ہی کو اس پروگرام کا کریڈٹ کیوں دیا جاتا ہے۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ ڈاکٹرصاحب نے ایک بار بھی اس تناظر میں میرے پھکڑپن پرکبھی خفگی کا اظہار نہیں کیا۔ کسی سماجی تقریب میں ملاقات ہوجاتی تو نہایت گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے دہراتے کہ میرے اور ان کے چند باہمی کرم فرما ہیں۔ انہیں بخوبی خبرہے کہ میں کن بنیادوں پر انہیں چٹکیاں بھرتا رہتا ہوں۔
ایٹمی پروگرام سے وابستہ لوگوں کی بے پناہ تعداد کو دشمنوں کی نگاہ سے بچانے کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کی متلاشی ریاستوں کو ایک چہرہ درکار ہوتا ہے۔ ہماری ریاست کو ڈاکٹر قدیر مرحوم کی صورت وہ چہرہ میسر ہوگیا۔ عالمی اخبارات میں ہمارے ایٹمی پروگرام کے خلاف اٹھائے سکینڈلز کا سارا الزام لہٰذا ان کے سررکھے جاتا رہا۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ مرحوم ڈاکٹر قدیر اس پہلو کے بارے میں کبھی فکر مند نہ رہے۔ بالآخر وہ وقت بھی آگیا جب ریاست پاکستان کے حتمی مفادات کی وجہ سے انہیں جنرل مشرف کے دور میں قربانی کا بکرا بناکر سو طرح کی اذیتوں سے گزارنا پڑا۔ ڈاکٹر صاحب جائز وجوہات کی بنا پر اپنے ساتھ ہوئے سلوک کے شاکی رہے۔ ربّ کریم سے فریاد ہے کہ انہیں قبر میں راحت اور آخرت میں اجر عطا فرمائے۔