دورِ حاضر کے میر جعفر
امید ہے کہ آپ ابھی تک یہ طے کرچکے ہوں گے کہ اتوار کی رات ثاقب نثار صاحب کے چند کارہائے نمایاں کو منظر عام پر لانے والی آڈیو اصلی ہے یا نہیں۔ ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے ذہن سازوں نے اس کا بھرپور تجزیہ فراہم کردیا ہے۔ مذکورہ وڈیو کو برحق یا قطعاََ جعلی ثابت کرنے کے لئے بے شمار دلائل میسر ہیں۔ اپنی نفرت یا عقیدت کو تسکین دینے والے دلائل کا انتخاب کرلیجئے۔ میں نے اسے فقط ایک بار دیکھا ہے۔ دوبارہ دیکھنے کی خواہش ہی نہیں ہوئی۔ منگل کی صبح چھپے کالم میں عرض یہ بھی کردیا تھا کہ "قرار دادِ مقاصد" اور "نظریٔہ ضرورت" کے بنائے راستے پر چلائی مملکت میں ایسی آڈیو یا وڈیو لیکس کسی کام نہیں آئیں گی۔ فقط چند روز کا تماشہ لگے گا۔ نواز شریف صاحب فی الحال لندن ہی میں مقیم رہیں گے۔ ان کی عدم موجودگی میں محترمہ مریم نواز صاحبہ عدالتوں میں پیشیاں بھگتتی رہیں گی۔
سقوط بغداد سے قبل جب منگولوں کے لشکر حتمی پیش قدمی کے لئے خلافتِ عباسیہ کے مرکز کے اردگرد جمع ہورہے تھے تو اس شہر کے با زاروں میں مناظروں کے ہجوم یہ طے کرنے میں مصروف تھے کہ طوطا حلال ہے یا حرام۔ مجھے خبر نہیں کہ ایسے مناظروں کی بدولت بالآخر کیا ثابت ہوا تھا۔ خلافتِ عباسی کو البتہ دجلہ میں غرق کردیا گیا تھا۔ اس کا پانی کئی دنوں تک خوں ریزی کا نشانہ ہوئے لوگوں کی لاشوں کی وجہ سے سرخ رہا۔ اس کے بعد کالا ہوگیا جس کی وجہ لائبریریوں سے اٹھا کر دریا برد کی گئی کتابیں تھیں۔
وطن عزیز خوش نصیب ہے۔ اس کے گرد منگولوں کے لشکر جمع نہیں ہورہے۔ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے یعنی آئی ایم ایف کے سدھائے چند نابغے البتہ ہماری معیشت کو مردہ بنانے کے لئے متحرک ہوچکے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو اگرچہ یہ گماں لاحق ہے کہ وہ ہماری معیشت کو توانا بنانے کے جتن کررہے ہیں۔ قر بانی کے جانور کو بھی بہت لاڈ سے چارہ کھلایا جاتاہے۔ ہمارے لئے 6ارب ڈالر ویسا ہی چارہ ہیں۔ اس چارے کو ستمبر 2022تک میسر رہنا ہے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے اس کی فراہمی کا بندوبست کیا تھا۔ اس چارے کے عوض لیکن مجھے اور آپ کو بجلی اور گیس استعمال کرنے کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا ہے۔ اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات پر لگے ٹیکس بھی ہیں۔ وہ جمع ہوں گے تو ریاست کا کاروبار بھی چلتا رہے گا۔
آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے پر جب عمل شروع ہوا تو ہماری چیخیں نکل گئیں۔ ہماری آمدنی میں اضافے کی کوئی صورت نظر نہ آنے کے موسم میں گھروں میں آئے بجلی اور گیس کے بل ناقابل برداشت محسوس ہونا شروع ہوگئے۔ خلقِ خدا نے آہ وبکا مچائی تو قومی اسمبلی میں ہمارے ووٹوں کی وجہ سے بیٹھے چند حکومتی اراکین بھی پریشان ہوگئے۔ مارچ 2021میں انہوں نے نہایت خاموشی سے حفیظ شیخ کے مقابلے میں کئی برسوں کی گوشہ نشینی کے بعد سیاسی میدان میں اترے یوسف رضا گیلانی کو سینٹ بھیجنے کی حمایت میں ووٹ ڈال دیا۔ اس شکست کے باوجود حفیظ شیخ صاحب نے آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر والے معاہدے کی مزید اقساط کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے ایک جزوی معاہدے پر بھی دستخط کردئیے۔ یہ دستخط ہوگئے تو انہیں وزارت خزانہ سے فارغ کردیا گیا۔ ان کی جگہ شوکت ترین صاحب نے سنبھالی۔
اپنا منصب سنبھالتے ہی کامیاب بینکر مشہور ہوئے شوکت ترین صاحب نے سینہ پھلاتے ہوئے بڑھکیں لگانا شروع کردیں کہ آئی ایم ایف سے طے ہوئی شرطوں پر ہوبہو عمل ہوا تو ہماری معیشت سانس بھی نہیں لے پائے گی۔ بجلی کی قیمتوں کو مزید بڑھانا ممکن نہیں رہا۔ کاروباری افراد پر بھی مزید ٹیکس لگانے کے بجائے انہیں بینکوں کے ذریعے وافر رقوم آسان شرائط پر فراہم کی جائیں گی۔ وہ ان رقوم کے ذریعے مزید کارخانے لگائیں گے۔ اس کے علاوہ ذہین نوجوانوں کو بھی نئے کاروبار متعارف کروانے کے لئے مالی معاونت فراہم کی جائے گی۔ تعمیراتی شعبے میں رونق لگانے کے لئے عمران حکومت نے مناسب اقدامات پہلے ہی سے متعارف کروارکھے ہیں۔
صاحب دل سنائی دیتے شوکت ترین صاحب رواں مالی برس کا بجٹ تیار کرتے ہوئے اپنے دعوئوں کو دیانت داری سے بروئے کار لاتے محسوس ہوئے۔ قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران ایک نہیں متعدد بار کھڑے ہوکر نہایت اعتماد سے ہمیں یقین دلاتے رہے کہ انہوں نے معیشت میں رونق لگانے کے لئے جو نسخہ تیار کیا ہے آئی ایم ایف میں بیٹھے نابغوں کودل وجان سے قابل قبول ہوگا۔ چند اراکین نے جب ان کی سوچ کو خوش گمانی قرار دیا تو وہ طیش میں آگئے۔ نہایت رعونت سے معترض اراکین کو یاد دلایا کہ وہ کرنل فیاض ترین صاحب کے فرزند ہیں۔ لوگوں کو چکنی چپڑی باتوں سے رام کرنے کی عادت ان کے خون میں شامل ہی نہیں۔
آئی ایم ایف میں بیٹھے افراد مگر ہم جیسے ممالک کے حکمرانوں کی بڑھکیں سننے کے عادی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اڑی دکھاتے بکرے نے بالآخر چھری تلے ہی آنا ہے۔ پیر کی سہ پہر ہم چھری تلے چلے گئے۔ وہاں پہنچ جانے کے باوجود شوکت ترین صاحب نے حماد اظہر صاحب کے ساتھ بیٹھ کر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ کامل اطمینان سے خوش خبری یہ سنائی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پاگیا ہے۔ یہ معاہدہ مذکورہ ادارے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے روبرو آئندہ برس کے پہلے مہینے کے دوران ہی رکھ دیا جائے گا۔ رسمی کارروائی کے بعد پاکستان کے لئے اب تک روکی دو اقساط کے اجراء کا حکم جار ی ہوجائے گا۔ ہمارے خزانے میں اس کے بعد ایک ارب ڈالر آجائیں گے۔ اپنے تئیں یہ رقم بھاری بھرکم محسوس نہیں ہوتی۔ اس رقم کا متوقع اجراء مگر عالمی منڈی اور اس پر حاوی بینکوں کو پیغام دے گا کہ پاکستان کی معیشت پر آئی ایم ایف کڑی نگرانی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ وہاں سرمایہ کاری سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
آئی ایم ایف سے معاہدے کا ڈھول بجاتے ہوئے ترین صاحب نے میرے اور آپ جیسے کم فہم شہری کو یہ نہیں بتایا کہ آئی ایم ایف نے متوقع ایک ار ب ڈالر کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے چند شرائط کا اطلاق بھی لازمی ٹھہرایا ہے۔ آئی ایم ایف نے ہمارے ساتھ طے ہوئے بندوبست کی بابت جو پریس ریلیز جاری کی ہے اس میں صراحت سے "Subject to the Implementation of Prior Actions"کا ذکر ہواہے۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ چند اقدامات کا وعدہ ہوا ہے۔ ان پر عملدرآمد کی صورت ہی ایک ارب ڈالر جاری کئے جائیں گے۔
بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں کو مزید بڑھانا پیشگی شرائط کا کلیدی حصہ ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان کو محاصل کے ذریعے 550ارب روپے، جی ہاں پانچ سو پچاس ارب روپے کی خطیر اضافی رقم بھی اکٹھا کرنے کو یقینی بنانا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے آئی ایم ایف سے بھیجے گورنر جناب ڈاکٹر رضا باقر صاحب کے لئے ویسے ہی اختیارات باقاعدہ قانون کی صورت مہیا کرنا بھی لازمی ہے جو برطانیہ کی پارلیمان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لارڈ کلائیو جیسے نمائندے کو کلکتہ بھیجنے سے قبل عطا کئے تھے۔ نواب سرج الدولہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ پایا تھا۔ بالآخر میر جعفر ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کا حتمی سہولت کار قرار پایا۔ ہمیں مگر کسی سراج الدولہ کو قربان کرنے کی ضرورت نہیں۔ دورِ حاضر میں میر جعفر ہمارے ہاں کثیر تعداد میں میسر ہیں۔ ایک ڈھونڈنے نکلو تو ہزار مل جاتے ہیں۔