کرونا کے موسم میں کامل لاک ڈائون کا سوال
وزیر اعظم صاحب نے اتوار کے روز قوم سے خطاب کیا۔ میں اسے براہِ راست سن نہیں پایا۔ سوشل میڈیا پر اس کی ویڈیو کلپس دیکھی ہیں۔ پیر کی صبح اُٹھ کر اخبار میں اس خطاب کا تفصیلی متن پڑھا۔ میری دانست میں عمران خان صاحب نے اپنے خطاب کے ذریعے بنیادی طورپر ان وجوہات کو بیان کرنے کی کوشش کی جو انہیں ملک بھرمیں جارحانہ لاک ڈائون کا حکم صادر کرنے سے روک رہی ہیں۔
وزیر اعظم کی بتائی وجوہات کی حمایت ومخالفت میں کئی دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں۔ میں ان سے اجتناب کو مجبور محسوس کرتا ہوں۔ ان کے اندازِ سیاست وحکمرانی کے بارے میں میرے ہزاروں تحفظات ہیں۔ ان کے اظہار میں کوتاہی شاذہی سرزد ہوئی۔ وباء مگر ایک بہت ہی پیچیدہ موضوع ہے۔ اس کے ممکنہ پھیلائو کا حقیقی اثر جاننے کے لئے ایک خاص نوعیت کی تربیت ومہارت درکار ہے۔ میں ان دونوں سے محروم ہوں۔
محض ایک صحافی کے تجربے کی بنیاد پر فروری 2020 کے آخری ہفتے کے آغاز میں اس خدشے کا اظہار شروع کردیا تھا کہ ایران میں کرونا کے پھیلائو کی خبرآنے کے بعد ہمیں شدید چوکسی کی ضرورت ہے۔ یہ استدعا کرتے ہوئے میرے ذہن میں پاکستان اور ایران کے مابین روزانہ کی بنیاد پر ہوئی انسانوں کی آمدورفت تھی۔ اس ضمن میں اہم ترین زائرین کے قافلے تھے جو بلوچستان سے ایران میں داخل ہونے کے بعد عراق اور شام تک جانے کے بعد اسی راستے سے وطن لوٹتے ہیں۔ یہ حقیقت اب عیاں ہورہی ہے کہ مذکورہ آمدورفت پر بروقت نگاہ رکھی نہ جاسکی۔ کرونا بنیادی طورپر اسی کی وجہ ہی سے پاکستان میں وارد ہوا۔ بعدازاں دیگر ممالک سے آئے پاکستانی بھی اس کے Carrier شمار ہوئے۔
ایک صحافی کے مقابلے میں وزیر اعظم کو بے پناہ ذرائع سے ٹھوس اعدادوشمار میسر ہوا کرتے ہیں۔ عمران خان صاحب اپنے دفتر میں بہت متحرک نظر آتے ہیں۔ انہیں ہمارے ہاں اہم سمجھے One Page کے حوالے سے بھی نظر بظاہر کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ ماہرین کی بریفنگ کو غور سے سننے کے بعد کامل لاک ڈائون کے ضمن میں حتمی رائے بنانے کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے۔ انہوں نے کامل لاک ڈائون سے اجتناب کو ترجیح دی۔ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک سے جو خبریں آرہی ہیں ان کی سنگینی کو نظر میں رکھتے ہوئے وزیر اعظم کا فیصلہ غیر مناسب دِکھتا ہے۔ محض میڈیا کے ذریعے میسر اطلاعات کی بنیاد پرمبنی تناظرکو ذہن میں رکھیں تو عمران خان صاحب کی اپنائی ترجیح Daring مگر Risky بھی نظر آتی ہے۔ قیادت سے مگر فیصلوں کی توقع رکھی جاتی ہے۔ عمران خان صاحب نے حساس تناظر میں ایک بڑا فیصلہ لیا اور ٹی وی سکرین پر نمودار ہوکر اسے جرأت سے Own بھی کرلیا۔ ان کے انداز سیاست اور حکمرانی کے بارے میں تمام تر تحفظات کے باوجود میں ربّ کریم سے فریاد کناں ہوں کہ بالآخر وہ درست قرار پائیں۔
پیر کی صبح یہ کالم لکھنے سے قبل کرونا کے حوالے سے اعدادوشمار دیکھے تو ملک بھر میں اس مرض کی زد میں آئے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا نظر آیا۔ اتوار کی صبح یہ تعداد 645 بتائی گئی تھی۔ پیر کی صبح مزید 154 افراد اس کی زد میں آچکے تھے۔ کل تعداد 799 ہوگئی۔ گماں ہوتا ہے کہ آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں اب ٹیسٹنگ زیادہ مستعد ہے۔ اتوار کی صبح تک اس صوبے میں 152 لوگ کرونا میں مبتلا بتائے گئے تھے۔ پیر کی صبح یہ تعداد 225 ہوگئی۔ ایک دن میں 73 کا اضافہ نمودار ہوا۔
وزیر اعظم کے خطاب سے میرا اصل گلہ یہ ہے کہ انہوں نے کرونا کو ہمارے ہاں عام تصور ہوتے "نزلہ زکام" جیسا بتایا۔ نہایت احترام سے انہیں یاد دلانا ہوگا کہ "نزلہ زکام" سے بہت ملتا کرونا مسلسل کھانسی، شدید بخار اور سانس لینے میں دِقت کی وجہ سے جداگانہ شناخت ا ختیار کرلیتا ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے اس کا ذکر ضروری تھا۔
منگل کے روز وزیر اعظم کا قوم سے ایک اور خطاب بھی متوقع ہے۔ اس خطاب سے "معاشی ریلیف" کی امید باندھی جارہی ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت کو گماں ہے کہ حکومت اس خطاب کے ذریعے تیل کی قیمت میں گرانقدر کمی کا اعلان بھی کرے گی۔ میں ہرگز ایک معاشی ماہرنہیں ہوں۔ یہ حقیقت اگرچہ نظرانداز نہیں کرسکتا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں بے تحاشہ کمی واقع ہوئی ہے۔ اس میں اضافے کا آئندہ مہینوں میں بھی کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔
سرسری نگاہ ڈالیں تو پٹرول کی قیمت میں کمی کی اُمید ہر صورت مناسب نظر آتی ہے۔ علم معاشیات کی مبادیات سے قطعاََ نابلد ہوتے ہوئے بھی لیکن میں اس خواہش کا اظہار کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ پٹرول کی قیمت میں نمایاں کمی کے ذریعے لوگوں کی دادوتحسین وصولنے سے گریز کیا جائے۔ تیل کی قیمت میں حکومت کو عالمی منڈی پہ حاوی رحجان کی وجہ سے پانچ سے آٹھ ارب روپے کی جو بچت میسر ہوئی ہے اسے بجلی اورگیس کے نرخوں میں مزید اضافے کے تدارک کے لئے استعمال کیا جائے۔ اس بچت کے باعث حکومت مارچ اور اپریل میں کم آمدنی والے افراد کو بجلی اورگیس کے بل بھیجنے سے بھی گریز کرسکتی ہے۔ کم آمدنی والے گھرانوں کو ایسے فیصلوں کے سبب ماہانہ پانچ سے سات ہزار روپے کی بچت ہوسکتی ہے۔ یہ بچت دیہاڑی داروں اور خوانچہ فروشوں کو وباء کے موسم میں ٹھوس سہارا فراہم کرے گی۔ ہمارے خوش حال اور نسبتاََ متمول طبقات والے افراد خلق خدا کی عمومی ریلیف کے عمل میں حصہ لیتے بھی نظر آئیں گے۔
کرونا کے موسم میں کامل لاک ڈائون ضروری ہے یا نہیں؟ اس سوال پر توجہ مرکوز رکھنے کے علاوہ ہمیں اس حقیقت کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ گلگت وبلتستان کا ایک خوبروجواں سال ڈاکٹر کرونا کی زد میں آئے مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے اپنی جان سے گیا۔ وہ یقینا ہمارا ہیرو ہے۔ انتہائی عزت واحترام کا مستحق۔ اس کی فرض شناسی کو سلام پیش کرتے ہوئے ضروری ہے کہ کرونا مریضوں کی دیکھ بھال کرتے ڈاکٹر کو میسر سہولتوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔
پاکستانیوں کے ذہن بہت زرخیز ہیں۔ گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور وزیر آباد پر مشتمل صنعتی بیلٹ میں Reverse Engineering کے ہزاروں ماہرین موجود ہیں۔ چین جیسے دوستوں کی مدد سے ڈاکٹروں کو تحفظ پہنچانے والا "محافظ لباس" تیار کرنے کی مہارت چند ہی دنوں میں حاصل کی جاسکتی ہے۔ حکومت اگر ایسے لباس کی تیاری کے لئے Zero Tax کا اعلان کرے۔ اس کے لئے لازمی شمار ہوتے اجزاء کی درآمد کو بغیر ڈیوٹی یقینی بنائے تو ہماری کئی فیکٹریوں میں دھندا جاری رہے گا۔ روزگار کے نئے امکانات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ طویل المدتی بنیادوں پر سیالکوٹ میں سرجیکل آلات تیار کرنے والوں کے لئے Ventilator کو عالمی معیار کے مطابق تیار کرنے کی راہیں بھی دریافت کی جاسکتی ہے۔
سندھ حکومت نے اپنے ہاں کرفیو جیسا لاک ڈائون لاگو کیا ہے۔ اسے عموماََ سرا ہا جارہا ہے۔ سندھ حکومت کو مگروفاقی حکومت کے بھرپور تعاون سے اس امر کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ پاکستان بھر میں کھانے پینے کی اشیاء اور دوائیں بیچنے والوں کو Supply Chain کے ضمن میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ خدانخواستہ اس حوالے سے چند بنیادی اشیاء مارکیٹ سے غائب نظر آئیں تو فقط سندھ حکومت کو اس کا ذمہ د ار ٹھہرایا جائے گا۔ کرونا کے مقابلے کے لئے اپنائی اس کی حکمت عملی Backfire کرجائے گی۔
وباء کے موسم ہر حوالے سے نحوست پھیلاتے ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کی ضد مگر آفتوں کی زد میں آئی قوم کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی تواناتر بناتی ہے۔ لازمی ہے کہ ہم اس پہلو پر بھی نگاہ رکھیں۔ 23 مارچ کی صبح یہ کالم لکھتے ہوئے میں نے اپنی قوم کی اجتماعی Resilience اور قوت ارادی پر کامل بھروسہ کرنے کو ترجیح دی ہے۔ مجھے قوی اُمید ہے کہ اس ضمن میں مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔