کرونا اور حکومت کا اصل امتحان
حیران کن بات ہے اور فی الوقت بہت تسلی بخش بھی۔ خدا کرے کہ یہ صورت حال برقرار بھی رہے۔ جس حقیقت نے خوش گوار حیرت میں مبتلا کررکھا ہے وہ یہ ہے کہ چین اور ایران کے ہمسائے میں ہوتے ہوئے بھی جنوبی ایشیاء کے زیادہ تر ملکوں میں کرونا وائرس کی وہ شدت نظر نہیں آرہی جو یورپ کے کئی ممالک میں مسلط ہوچکی ہے۔
کرونا کے پھیلائو کا اصل سبب بڑے شہروں میں نسبتاََ کم رقبے پر کثیر تعداد میں انسانوں کے آباد ہونے کو ٹھہرایا گیا ہے۔ منیر نیازی نے لاہور جیسے قدیم شہروں میں مکانوں کو کسی انجانے خوف کے باعث ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بتایا تھا۔"خوف"، کو دریافت کئے بغیر ہم اپنے طرز تعمیر اور رہائش میں گڈمڈ والی کیفیت بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ سماجیات کے ماہرین اس طرزرہائش کو Population Density کہتے ہیں۔ کم سے کم رقبے میں زیادہ سے زیادہ افراد کا جمع ہونا۔
تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ دُنیا بھر میں Population Density کے اعتبار سے نمایاں ترین تصور ہوتے شہروں میں سے تقریباََ آدھے فقط جنوبی ایشیاء میں موجود ہیں۔ کلکتہ، بمبئی، مدراس، دلی اور ہمارا کراچی۔ بنگلہ دیش میں ڈھاکہ بھی ایسا ہی شہر شمار ہوتا ہے۔ ان تمام شہروں میں "کچی بستیوں " کا بھی بے پناہ ہجوم ہے۔ ایسی بستیوں سے اسلام آباد جیسا "ماڈل" شہر بھی محفوظ نہیں رہا۔ ان بستیوں میں ایک یادو کمروں پر مشتمل "گھروں " میں اوسطاََ سات افراد ایک کنبے کی صورت رہ رہے ہوتے ہیں۔ صفائی ستھرائی کا نظام وہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔ صاف پانی کی ترسیل کا نظام بھی قطعاََ مفقود ہے۔ ان بستیوں کو ذہن میں لائیں تو کرونا کی وباء میرے منہ میں خاک طاعون کی صورت جنوبی ایشیاء کے تمام بڑے شہروں میں پھیل جانا چاہیے تھا۔ ربّ کا صد شکر کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ یہ بستیاں بلکہ اس کی رحمت کی چھت تلے محفوظ نظرآرہی ہیں۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ صورت حال برقرار رہ سکے گی یا نہیں۔
بحیثیت پاکستانی میری اصل فکر یہ بھی ہے کہ تناسب کے اعتبار سے جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک کے مقابلے میں میرے وطن میں کرونا کی زد میں آئے افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ نظر بظاہر یہ محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان میں کرونا بنیادی طورپر ایران سے وارد ہوا۔ مزید کیرئیر دیگر ممالک سے آئے۔ ایران سے آئے لوگوں کو اگر بروقت قرنطینہ میں رکھ دیا جاتا تو متاثر ہوئے لوگوں کی وہ تعداد دیکھنے کو نہ ملتی جو بتدریج بڑھتی چلی جارہی ہے۔
غالباََ ان حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے منگل کی شام پاکستان کے وزیر اعظم کرونا کے بارے میں بہت زیادہ پریشان نظر نہیں آئے۔ اپنی تقریر کے ذریعے انہوں نے "ہنگامی صورت حال" کی فضا بھی نہیں بنائی۔ شہروں کو لاک ڈائون میں جکڑنے کا اعلان نہیں کیا۔ کرونا کے پھیلائو کے امکانات کو تسلیم کرتے ہوئے بھی یاد دلاتے رہے کہ تیزی سے پھیلائو کے باوجود یہ بنیادی طورپر جان لیوا مرض نہیں ہے۔ فی کس اعتبار سے اس کی بدولت ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ پریشان کن نہیں ہے۔
اندھی نفرت وعقید ت میں تقسیم ہوئے پاکستان میں بے تحاشہ افراد کو وزیر اعظم کی تقریرنے مایوس کیا ہے۔ اس مایوسی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کی تقریر ماہرین کی تیار کردہ بریفنگ کے بغیر تیار ہوئی نظر آئی۔ بنیادی پیغام اس کا یہ بھی تھا کہ گھبراکر خود میں کرونا وائرس ڈھونڈنے والا ٹیسٹ کروانے کے لئے ہسپتالوں کی جانب غول کی صورت بھاگنے سے گریز کریں۔ خود کو "نزلہ زکام" کی زد میں آیا تصور کریں تو اپنے گھروں تک محدود ہوئے صحت یاب ہونے کا انتظار کریں۔
ٹھنڈے اور غیر متعصب ذہن سے ان کی مذکورہ تجویز کا جائزہ لیں تو یہ مناسب سنائی دیتی ہے۔ کرونا کے خوف نے کئی افراد کو وہم میں بھی مبتلا کردیا ہے۔ مارچ-اپریل کے مہینوں میں مثال کے طورپر اسلام آباد کے بے تحاشہ باسی پولن الرجی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ کرونا کے پھوٹ پڑنے سے قبل گزشتہ چند برسوں سے اسلا م آباد کے کئی شہری اپنے چہروں کو ماسک سے ڈھانپ لیا کرتے تھے۔ اس شہر میں 1975 سے قیام پذیر ہونے کے باوجود میں پولن سے محفوظ رہا۔ گزشتہ تین برس سے مگر صبح اُٹھتے ہی چھینکنا شروع ہوجاتا ہوں۔ ناک بہتا ہے۔ پولن الرجی کے مقابلے کے لئے ضروری ٹھہرائی ایک گولی کھانا پڑتی ہے۔ میرے کئی دوستوں کو مگر ہسپتالوں میں جاکر سانس بحال کروانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
روایتی پولن الرجی کے دائمی مریض کرونا وباء کے دنوں میں یقینا مزید گھبراجائیں گے۔ کرونا وائرس کا خوف ان کے ذہنوں سے نکالنا ناممکن ہوجائے گا۔ انہیں ہسپتال جاکر اس امر کو یقینی بنانے کے لئے کسی ٹیسٹ کی شدت سے ضرورت محسوس ہوگی جو یہ طے کرسکے کہ ان کی الرجی کرونا کی زد میں آکر خطرناک صورت تو اختیار نہیں کررہی۔ کرونا ٹیسٹ کے لئے مگر ایک خاص Kit درکار ہوتی ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ پاکستان بھر میں اس Kit کی جو اجتماعی تعداد موجود ہے وہ شاید اسلام آباد جیسے نسبتاََ چھوٹے شہر کے لئے بھی ناکافی ہو، اگر اس شہر میں پولن کی زد میں آئے ہر مکین نے کرونا ٹیسٹ کے لئے ہسپتال کا رُخ کرنا شروع کردیا۔
کرونا ٹیسٹ کے علاوہ اہم ترین سوال Ventilators سے متعلق ہے۔ ملک بھر کے ہسپتالوں میں ان کی اجتماعی تعداد بھی ناکافی نظر آرہی ہے۔ مذکورہ بالاحقائق کا عمران خان صاحب کی تقریر میں تفصیلی ذکر نہیں ہوا۔ ریگولر اور سوشل میڈیا میں ان کی تقریر کے بار ے میں مایوسی کا عمومی اظہار اسی باعث ہوا۔ طویل المدتی تناظر میں وزیر اعظم کی تقریر بہت Risky بھی تھی۔ خدانخواستہ اگر آئندہ چند ہفتوں میں پاکستان واقعتا کرونا وائرس کے سامنے بے بس ہوا نظر آیا تو پریشان ہوئی خلقِ خدا انتہائی طیش کے عالم میں منگل کی شب ہوئی تقریر کا حوالہ دینے کو مجبور ہوگی۔
وزیر اعظم سے یہ گلہ بھی برحق ہے کہ انہوں نے کرونا وائرس کے ضمن میں سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی جانب سے دکھائی مستعدی کا بڑے دل کے ساتھ ا عتراف نہیں کیا۔ محض بلوچستان حکومت کی تعریف کی۔ اگرچہ ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر وہ اس کی مستحق نہیں تھی۔ تفتان میں پاکستانی سرحد کے اندر قرنطینہ کے جو انتظامات تھے وہ کسی بھی صورت "قرنطینہ" کہلائے جانے کے قابل نہیں تھے۔ اسی باعث وہاں دو ہفتے گزارنے کے باوجود سکھر جیسے شہروں میں آئے زائرین میں کرونا کی موجودگی ثابت ہوئی۔ سندھ حکومت ایسے افراد کو دوبارہ قرنطینہ میں رکھنے کو مجبور ہوئی۔ بلوچستان حکومت کی تنقید شاید وزیر اعظم کے خطاب میں ضروری نہیں تھی۔ اس سے گریز کرتے ہوئے بھی لیکن سندھ حکومت کی کاوشوں کو سراہا جاسکتا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان نے غالباََ سندھ حکومت کی مستعدی کا ذکر اس لئے نہیں کیا کیونکہ اسے سراہنے کے بعد اسلام آباد، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور پشاور جیسے شہروں کو بھی ویسے ہی لاک ڈائون کے تحت لانا ضروری تصور ہوتا جو مراد علی شاہ کراچی میں لاگو کرنا چاہ رہے ہیں۔
ہر صاحبِ دل کی خلوص دل سے دُعا ہے کہ پاکستان کرونا کے خوفناک پھیلائو سے محفوظ ہے۔ جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک میں اس کے تناظر میں "خیر" کی جو فضا نظر آرہی ہے وہ بھی برقرار رہے۔ کرونا وائرس کی وباء نے مگر یہ بات ثابت کردی ہے کہ دنیا واقعتا "گلوبل ویلج" ہوچکی ہے۔ وائرس سرحدوں کا احترام نہیں کرتے۔ انہیں پاسپورٹ اورویزا کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں پھیلی وباء چند ہی دنوں میں پورے عالم کو اپنی زد میں جکڑلیتی ہے۔
اس حقیقت کو نگاہ میں رکھیں تو ٹرمپ جیسے افراد کا America First کا نعرہ لگاتے ہوئے اقوام متحدہ جیسے اداروں کے ذریعے چلائے نظام کو ٹھکرانا احمقانہ نظر آتا ہے۔ بورس جانسن کی Brexit بھی اب مزید سفاکانہ محسوس ہوتی ہے۔ ایک بار پھر یہ حقیقت بلکہ بہت شدت سے نمودار ہورہی ہے کہ انسانوں کو ان کی حکومتوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ چند "عالمی اصولوں " کا مرتب ہونا ضروری ہے جن کا احترام دنیا کی ہر حکومت پر لازمی ہو۔"عالمی اصولوں " پر مبنی نظام اور اس کے نفاذ کو یقینی بنانے والے عالمی ادارے موجود ہوتے تو شاید دنیا کا ہر ملک کرونا کے مقابلے کے لئے وہی حکمت عملی اختیار کرتا جو سنگاپور، ہانگ کانگ اور جنوبی کوریا جیسے ممالک نے اپنے شہریوں کو اس وائرس سے بچانے کے لئے اپنائی ہے۔
پاکستان جیسے ممالک کے لئے طویل المدتی تناظر میں پریشان کن حقیقت یہ بھی ہے کہ کرونا سے محفوظ رہنے کے باوجود ان کی معیشت آئندہ کئی برسوں تک سنبھل نہیں پائے گی۔ یہ کالم لکھنے سے قبل خبر آئی ہے کہ کراچی میں سٹاک ایکس چینج کو شدید مندی کے باعث ایک بار پھربند کرنا پڑا۔ کرونا وائرس سے قبل ہی ہم شدید کسادبازاری کا شکار ہوچکے تھے۔ بے روزگاری میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ افراطِ زر لوگوں کی زندگی اجیرن بناتا نظر آیا۔ اقتصادی زبوں حالی سے نجات پانے کے لئے ہم IMF سے رجوع کرنے کو مجبور ہوئے۔ IMF نے مگرہمارے لئے جو نسخہ تیار کیا ہے اس پر عملدرآمد اب قطعاََ ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ عالمی معیشت کے حتمی نگہبان سے نیا بجٹ تیار کرنے سے قبل مذکورہ نسخے کی ہمدردانہ نظرثانی درکار ہے۔ عمران حکومت کا اصل امتحان یہ ہوگا کہ وہ مطلوبہ نظرثانی کے لئے عالمی معیشت کے حتمی نگہبانوں کو آمادہ کرپائے گی یا نہیں۔