سول بالادستی کا خواب
پاکستان کے ایک اور وزیر اعظم کی نظر بظاہر ان دنوں سول بالادستی کے خواب کو عملی صورت دینے کو مچل رہے ہیں۔"بات چل نکلی ہے دیکھیں …" ان کی خواہش آج کے کالم کا البتہ موضوع نہیں۔ تھوڑا فلسفہ بگھارنا ہے۔ اس کی جانب بڑھتے ہوئے بنیادی حقیقت یاد دلانا ہے کہ ہر وزیر اعظم کی اصل قوت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئی پارلیمان ہوتی ہے۔ اپنی پارلیمان کو مگر عمران خان صاحب وقار فراہم کرنے کو تیار نہیں۔ اس کے اجلاسوں میں تشریف لانے سے گریز کرتے ہیں۔ وہاں اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھے افراد کو چور اور لٹیرے ٹھہراتے ہیں۔ انہیں یہ گلہ بھی ہے کہ کرپشن کے مقدمات بھگتتے یہ لوگ پارلیمان میں ہوئی ان کی گفتگو کو احترام سے سننے کو تیار نہیں۔ وہ تقریر کے لئے کھڑے ہوں تو غیر مہذب آوازیں کستے ہوئے ماحول کو بازاری بنادیتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن اراکین اسمبلی سے عمران خان صاحب کی نفرت ان کے حامیوں کو ہر حوالے سے جائز محسوس ہوتی ہے۔ عامر ڈوگر مگر اپوزیشن کے رکن نہیں۔ کئی برسوں تک ان کا خاندان ملتان کی مقامی سیاست میں پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کا حلیف رہا۔ عامرصاحب مگر تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔ نسبتاََ جوان اور خوش اخلاق ہیں۔ ان کی مہمان نوازی بھی اسلام آباد میں بہت مشہور ہے۔ سنا ہے بہت چائو سے لذیذ ترین کھانے بنواکر دوستوں کو تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر مدعو کرتے ہیں۔
عامر ڈوگر صاحب کو عمران خان صاحب نے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کا چیف وہپ بنارکھا ہے۔ پارلیمانی کارروائی کے کھیل سے آگاہ لوگوں کو بخوبی علم ہے کہ یہ عہدہ بہت رُعب والا ہے۔ اجلاس میں کورم برقرار رکھنا چیف وہپ ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جن دنوں اجلاس جاری ہو تو چیف وہپ کرکٹ کے کپتان کی طرح فیصلہ کرتا ہے کہ کونسے رکن کو کس موضوع پر اپوزیشن کو تھلے لگانے کے لئے استعمال کرنا ہے۔ حکمران جماعت کے اراکین قومی اسمبلی پرکڑی نگاہ رکھنا بھی چیف وہپ کی ذمہ داری ہے۔ ان میں سے کوئی رکن حکومتی توجہ حاصل کرنے کے لئے نخرے دکھانا شروع ہوجائے تو چیف وہپ ہی وزیر اعظم کو اس کی دلجوئی کے لئے آمادہ کرتا ہے۔
وزیر اعظم کے آنکھ اور کان شمار ہوتے چیف وہپ عامر ڈوگر صاحب کو مگر چند اخبارات کے دعویٰ کے مطابق شوکاز نوٹس بھیج دیا گیا ہے۔ وجہ اس کی یہ بتائی جارہی ہے کہ منگل کی شام ڈوگر صاحب ہمارے ایک سنجیدہ اور باوقار اینکر ندیم ملک کے پروگرام میں چلے گئے۔ وہاں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے نہایت احتیاط مگر مہارت سے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کن وجوہات کی بنا پر وزیر اعظم صاحب ایک اہم ریاستی ادارے کے سربراہ کی تعیناتی میں دیر لگارہے ہیں۔ ممکنہ تعیناتی کا انہوں نے طریقہ کار بھی بیان کردیا۔
ملکی سیاست کا کئی دہائیوں سے مشاہدہ کرنے کی بنیاد پر میں ایمان داری سے سوچتا ہوں کہ ندیم ملک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے عامر ڈوگر نے کوئی غیر ذمہ دارانہ بات نہیں کی تھی۔ ان کی دانست میں جو حقائق تھے نپے تلے الفاظ میں بیان کردئیے۔ عامر ڈوگر میرے دوست نہیں۔ عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوچکا ہوں۔ گھر تک محدود رہتے ہوئے بھی صحافی دوستوں کے توسط سے ممکنہ تعیناتی کے بارے میں جو اطلاعات ملیں ڈوگر صاحب سادہ زبان میں ان کی تصدیق کرتے سنائی دئیے۔
ان کی گفتگو مگر عمران حکومت کے حتمی پالیسی سازوں کو پسند نہیں ہوئی۔ ندیم ملک صاحب کو انہوں نے جو انٹرویو دیا تھا وہ ری پیٹ ٹیلی کاسٹ نہیں ہوا۔ دیگر ٹی وی چینلوں کو بھی ہدایات موصول ہوئیں کہ ندیم ملک کے ساتھ عامر ڈوگر کی گفتگو کا حوالہ نہ دیا جائے۔ سول بالادستی اجاگر کرنے کی خاطر انگڑائی لیتی حکومت کی جانب سے اختیار کردہ یہ رویہ مجھے تو حیران کن لگا۔ حکمران جماعت کا چیف وہپ اگر پاکستان میں بقول عمران خان صاحب برطانیہ سے زیادہ آزاد اور بے باک میڈیا میں سنسر ہوسکتا ہے تو میرے جیسے دو ٹکے کے رپورٹر کوئی بات کرتے ہوئے سوبار سوچیں گے۔ اپنی جماعت کے مبینہ طورپر سب پہ بالادست پارلیمان کے ایک ایوان میں بنائے چیف وہپ کا مکو ٹھپنے کے بعد سول بالادستی کا خواب اسی تناظر میں محض بڑھک بازی محسوس ہوتا ہے۔
کوئی پسند کرے یا نہیں ممکنہ تعیناتی کے حوالے سے اسلام آباد میں گزشتہ کئی دنوں سے جو چہ مہ گوئیاں ہورہی تھیں وطن عزیز کے ذمہ دار میڈیا نے انہیں ہوبہو بیان کرنے سے ہر ممکن گریز کیا۔ فواد چودھری صاحب نے جب بطور وزیر اطلاعات اس ضمن میں کچھ دِقتوں کا ذکر ایک پریس کانفرنس میں کردیا تب ہی ٹی وی سکرینوں پر لشکارے مارتے چند ذہن سازوں کو تو فیق ہوئی کہ اس موضوع کو زیربحث لائیں۔ عامر ڈوگر صاحب مگر اس کاوش کی زد میں آگئے۔
عمران خان صاحب ایک اہم تعیناتی میں جو دیر لگارہے ہیں وہ بغیر جواز نہیں ہوسکتی۔ ذاتی طورپر میں ان کی جانب سے برتے رویے کو مناسب تصور نہیں کرتا۔ یہ اعتراف کرنے کے باوجود یہ اصرار کرنا بھی لازمی تصور کرتا ہوں کہ وزیر اعظم صاحب کے ممکنہ تعیناتی کے حوالے سے جو تحفظات ہیں وہ مناسب انداز میں عوام کے روبرو آئیں۔ اس کے بعد ہی مذکورہ تحفظات کے درست یا غیر مناسب ہونے کے حوالے سے کوئی رائے بنائی جاسکتی ہے۔ عمران حکومت کے حتمی ترجمان ہوتے ہوئے فواد چودھری صاحب نے منگل کے دن لوگوں کو تسلی دی تھی کہ قواعد وضوابط کے مطابق زیر بحث تعیناتی کے لئے وزیر اعظم کے دفتر کو ایک سمری ملے گی۔ وہ پہنچ گئی تو معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے گا۔
میں جمعرات کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ سونے سے قبل سوشل میڈیا کے ذریعے پتہ لگاچند ٹی وی چینلوں نے بریکنگ نیوز دی ہے کہ وزیر اعظم ہائوس کو مجوزہ سمری مل چکی ہے۔ اس میں دئیے ناموں کا بھی تذکرہ ہوا۔ چند لوگوں کو جنہیں میں قابل اعتماد تصور کرتا ہوں فون کرنے کو مجبور ہوا۔ انہوں نے مذکورہ خبر کی سختی سے تردید کردی۔ سچ کیا ہے میں طے کرنے سے البتہ قاصر ہوں۔ یہ کالم لکھنے کے بعد غور سے ان یوٹیوبرز کے فرمودات سنوں گا جن کے بارے میں مشہور ہے کہ عمران خان صاحب سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور ان کے بیانیے کو میرے اور آپ جیسے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کے ناقابل لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔ شاید ان سے رہ نمائی نصیب ہوجائے۔