Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Batadreej Yak Tarfa Hota Hamara Hybrid Nizam

Batadreej Yak Tarfa Hota Hamara Hybrid Nizam

بتدریج یک طرفہ ہوتا ہمارا "ہائیبرڈ نظام"

حکمرانوں کو دنیا بھر میں کامل کنٹرول کا جنون لاحق ہوگیا ہے۔ ریاست کو وہ پرانے دور کے قبائلی سرداروں کی طرح چلانا چاہ رہے ہیں۔ فرانسیس فوکویامہ نام کا ایک تاریخ دان فلاسفر ہے۔ 1990ء کی دہائی میں دیوار برلن گرگئی تو اس نے 1992ء میں ایک کتاب لکھی۔ نام تھا اس کا "تاریخ کا خاتمہ" بنیادی پیغام اس کتاب کا یہ تھا کہ دنیا رواں صدی کے آغاز تک کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ کیمپوں میں تقسیم تھی۔ وہ تقسیم بالآخر ختم ہوگئی۔

اب دنیا کا ہر ملک "عالمی (سرمایہ دارانہ)" نظام کا حصہ بننے کی کوشش کرے گا۔ توجہ اس کی انسانی حقوق کے احترام اور معاشرے کو خوش حال بنانے پر مرکوز ہوگی۔ ان ہی دنوں نیویارک ٹائمز کے ایک معروف کالم نگارتھامس فریڈمین نے بھی ایک کتاب لکھی۔ اس کے ذریعے دعویٰ یہ کیا کہ انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد دنیااب "گول" نہیں رہی۔ 24/7 متحرک رہنے کی وجہ سے امریکہ میں دن کے اوقات میں سفر کرنے والوں کو بھارت جیسے ملکوں میں قائم ہوئے "کال سنٹرز" معاونت فراہم کرتے ہیں۔

چند ہی برس گزرنے کے بعد مگر امریکہ ہی نے دریافت یہ کیا کہ دیوار برلن گرجانے کے بعد دنیا گول نہ رہی تو ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سستی اجرت کے لالچ میں اپنی مصنوعات کی تیاری کے لئے چین جیسے ملکوں میں بھاری بھر کم سرمایہ کاری شروع کردی۔ امریکہ سے سرمایہ دیگر ممالک منتقل ہوا تو وہاں کئی دہائیوں سے موجود فیکٹریاں بند ہونا شروع ہوگئیں۔ مزدور بے کار ہوئے تو مشینوں کو زنگ لگنا شروع ہوگیا۔ صنعتوں کی بندش نے امریکہ میں"رسٹ اسٹیٹس (States Rust)"کی اصطلاح متعارف کروائی۔ یہ امریکہ کے ان صوبوں کا ذکر تھا جو کبھی صنعت کاری کا مرکز شمار ہوتے تھے۔

سرمایہ کاری دنیا کے دیگر ملک منتقل ہونے کی وجہ سے مگر اب اجڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بے روزگاری سے اداس ہوئے وہاں کے باسی منشیات کے عادی ہورہے ہیں۔ زندہ رہنے کی امید کھوبیٹھے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کی اداسی کو اجاگر کرنے کے لئے ٹرمپ کے ساتھ 2024ء میں امریکہ کے نائب صدر منتخب ہوئے جے-ڈی- وینس نے ایک ناول لکھا تھا۔ اپنے ناول کو اس نے Elegy (نوحہ)کہا۔ یہ ناول ہمارے عبداللہ حسین کے "اداس نسلیں" کی یاد دلاتا ہے۔ جو قیام پاکستان کے ایک دہائی بعد بچپن سے نوجوانی میں داخل ہونے والوں میں 1960ء کی دہائی میں بہت مقبول ہوا۔ یہ ناول نہیں"داستانِ حزن" ہے جو میری نسل کی غالب اکثریت کی کہانی ہے۔

دیوار برلن گرجانے اور بقول فوکویامہ "تاریخ" ختم ہوجانے کے بعد دنیا اس کے خوابوں کے مطابق "جمہوری جنت" بن نہیں پائی ہے۔ نئے قضیے کھڑے ہوگئے۔ رسٹ سٹیٹس میں امید سے محروم ہوئے لوگوں کو بھڑکانے کے لئے ٹرمپ جیسے نسل پرستوں نے کہانی یہ گھڑی کہ ان کی بے روزگاری کا اصل سبب امریکہ میں غیر قانونی طریقوں سے گھس آئے تارکین وطن ہیں۔ وہ سستی اجرتوں پر غلاموں کی طرح کام کرتے ہیں۔ چند برسوں کی محنت کے بعد تھوڑی رقم بچالیں تو اپنے کاروبار شروع کردیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے قریبی عزیزوں اور رشتے داروں کو بھی امریکہ آنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ امریکہ پہنچنے والا ہر شخص مگر نوکری حاصل نہیں کرسکتا۔ بے روزگاری سے تنگ آکر منشیات کا عادی بن جانے کے بعد سنگین سے سنگین ترجرائم میں ملوث ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

تارکین وطن کے ہاتھوں"امریکہ کی تباہی" ٹھوس اعدادوشمار کے تجزیے کے بعد غیر منطقی ثابت ہوئی۔ عام لوگوں کا ہجوم مگر منطق کا غلام نہیں ہوتا۔ اسے اپنے دل میں جمع ہوئے غصے کا اظہار درکار ہوتا ہے۔ تارکینِ وطن کے ہاتھوں امریکہ کی بربادی والی داستان لہٰذا حیران کن حد تک مقبول ہوگئی۔ تارکینِ وطن کے خلاف تعصب کی آگ بھڑکاتے ہوئے ٹرمپ نے امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کا نعرہ لگایا اور دوسری بار امریکہ کا صدر منتخب ہوگیا۔ رواں برس کے آغاز میں وائٹ ہائوس پہنچ جانے کے بعد سے وہ امریکہ ہی نہیں پوری دنیا کو اضطراب میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔

دنیا کو مضطرب رکھنے والا ٹرمپ مگر خود کو "امن کا پیغامبر" بھی ثابت کرنا چاہ رہا ہے۔ بھارت جو بھی کہتا رہے۔ 6اور7مئی کی درمیانی رات پاکستان پر میزائلوں کی بارش برساکر اس نے جس جنگ کا آغاز کیا وہ جنوبی ایشیاء کے ازلی دشمنوں کو ایٹمی جنگ کی جانب دھکیل سکتی تھی۔ ٹرمپ نے اپنے معاونین کو نیند سے محروم رکھتے ہوئے ممکنہ ایٹمی جنگ رکوائی۔ پاک-بھارت جنگ کو پھیلنے سے روکنے کے علاوہ اس نے آرمینیا اور آذربائی جان کے درمیان کئی دہائیوں تک پھیلے قضیے کو ختم کروانے کی کوشش بھی کی ہے۔ دنیا بھر میں"امن پھیلانے" کی تمنا میں لیکن اسے غزہ نظر نہیں آتا جوگزشتہ دوبرس سے مسلسل اسرائیلی جارحیت کی زد میں ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ ختم کروانا اگرچہ اس کی تازہ ترین ترجیح ہے۔

فوکویامہ نے حال ہی میں کئی مہینوں کی تحقیق کے بعد ایک طویل مضمون لکھا ہے۔ اس میں"تاریخ کے اختتام" پر اصرار کے بجائے اس نے ٹرمپ کی جانب سے اٹھائے چند ٹھوس اقدامات کا حوالہ دیتے ہوئے اصرار کیا کہ وہ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کے بجائے اسے جدید ریاست کے قیام سے قبل موجود اس "سکھاشاہی" نظام کی طرف دھکیل رہا ہے جہاں ہجوم کی صورت کسی ملک پر حملہ آور ہوئے "دلاور" ایسی "ریاست" کا قیام عمل میں لاتے تھے جہاں وفاداروں کو جاگیریں الاٹ کی جاتی تھیں تاکہ وہ ایسے لشکر تیار کرسکیں جو بوقت ضرور "دشمن" کا مقابلہ کریں۔ ویسا ہی نظام جو وسطی ایشیاء کے دلاوروں نے جنوبی ایشیاء پر قبضے کے بعد پنج ہزاری" اور "دس ہزاری" معاونین کے ذریعے متعارف کروایا تھا۔

فوکویامہ نے ریاست کی جو "نئی شکل" امریکہ میں دریافت کی ہے فقط اس ملک تک ہی محدود نہیں رہی۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں اب "استبداری حکومتوں" کے قیام پر زور دیا جارہا ہے جو "عوام میں بے پناہ مقبول ہوئے" رہ نما کی قیادت میں کام کرتے ہوئے رعایا کو "بندے دا پتر" بنادیں۔ ہمارے ہمسایہ میں نریندر مودی بھی ایسا ہی رہ نما ثابت ہوا ہے جو تیسری بار "منتخب" ہوجانے کے باوجود تنقیدی آوازوں کو دبائے رکھنا چاہتا ہے۔ "مقبولیت" کی وجہ سے تحریک انصاف کے بانی پاکستان میں بھی ویسے ہی حکومت قائم کرنا چاہ رہے تھے۔

میرے دوست سہیل وڑائچ کے بقول مگر انہیں ریاست کے طاقتور ادارے نے "قبولیت" نہیں بخشی۔ اب وہ جیل میں بند عمران خان کو "مصلحت اور مصالحت" کے مشورے دے رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت کے دلوں میں جو کھدبد ہورہی ہے اسے بیان کرنے کے لئے مگر آج کے دور میں کوئی عبداللہ حسین موجود نہیں ہے۔ "مقبولیت" اور "قبولیت" کے مابین کش مکش نے ایک "ہائی برڈ" نظام کھڑا کردیا ہے جو بتدریج "یک طرفہ" ہونے کی جانب بڑھ رہا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali